دہشت گردی اور پروپیگنڈا

داخلی اور خارجہ دونوں سطح پر ملک کو مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے اور نئی حکومت کو ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہے


Editorial April 21, 2022
داخلی اور خارجہ دونوں سطح پر ملک کو مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے اور نئی حکومت کو ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہے۔ فوٹو: فائل

ملک میں جمہوری اور آئینی طریقے سے حکومت کی تبدیلی کا عمل مکمل ہوچکا ہے ، نئی وفاقی کابینہ نے بھی حلف اٹھا لیا ہے تاہم ابھی پنجاب میں آئینی صورتحال واضح نہیں ہوئی ہے لیکن کچھ دنوں میں یہ آئینی الجھن بھی سلجھ جائے گی۔

بے شک پاکستان کی سلامتی اور استحکام جمہوری نظام سے جڑی ہوئی ہے اور سیاسی تلخیوں کے باوجود یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ سب کچھ آئین کے دائرہ میں رہ کر اور قانون کے مطابق کیا جارہا ہے۔ نئی حکومت کی مشکلات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔

داخلی اور خارجہ دونوں سطح پر ملک کو مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے اور نئی حکومت کو ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہے۔ امریکہ، یورپ اورجنوبی ایشیاء میں اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا بہت ضروری ہے، جس سے نہ صرف علاقائی تعاون اور تجارت کو فروغ بلکہ امن و استحکام کو تقویت بھی ملے گی۔ ماضی قریب میں جھانکیں تو پاکستان کے پالیسی ساز معروضی حقائق اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق کوئی نیا اور جامع بیانیہ تخلیق نہیں کرسکے ، یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلسل مشکلات کا شکار چلا آرہا ہے۔

عالمی تنہائی اور معاشی بدحالی خطرناک حد تک جاچکی ہے۔ادھر اندروں ملک کچھ گروہ پس پردہ رہ کر سوشل میڈیا پر زہریلی مہم چلا رہے ہیں۔ سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ سمیت دیگر ریٹائرڈ فوجی افسران کی فیک آڈیوز وائرل کی گئی ہیں ، جن کی ان افسران نے خود تردید کردی ہے ، ایسا منفی پروپگنڈا کرنے والوں کو بے نقاب کیا جانا چاہیے اوران کی قانون کے مطابق گرفت کی جانی چاہیے۔

دوسری جانب ایک خوش آئند بات یہ ہوئی ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے مجوزہ قانون کو ختم اور وزرات اطلاعات کے اندر ڈیجیٹل میڈیا ونگ کو بند کرنے کا اعلان کرتی ہوں ، سابقہ حکومت نے آزادی اظہار رائے پر قدغن لگائی تاہم موجودہ دور میں اس طرح کا کچھ نہیں ہوگا ۔

بلاشبہ آزادی اظہار پر قدغن تو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کی جاسکتی ہے ، ملک کے صحافیوں، دانشوروں، مزدروں اور سول سوسائٹی نے اس کے لیے ایک طویل جدوجہد کی ہے ، لیکن سوشل اور ڈیجٹل میڈیا پر سیاسی، فرقہ وارانہ اور لسانی جماعتوں اور تنظمیوں سے وابستگی رکھنے والے افراد فیک اکاونٹس بنا کر ملک کے خلاف منظم پروپگینڈا کررہے ہیں،یہ سوشل میڈیا کے عام اور جنرل صارفین اور یوزرز نہیں ہوتے، اس لیے ایسے گروہ کو ختم کرنے کے لیے سرکاری اداروں کو سائنسی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے ، سوشل میڈیا پر پابندیاں عائد کرنا ، اس مسلے کا حل نہیں ہے۔

پاکستان چند اساسی نظریات کی بدولت معرضِ وجود میں آیا ہے، یہی نظریات آئین اور قانون کی شکل میں اس ریاست پر لاگو ہوتے ہیں۔ ففتھ جنریشن وار کے ذریعے ان بنیادی تصورات کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ ففتھ جنریشن وار فیئر صرف حکومت، فوج یا دفاع پر مامور اداروں کا مسئلہ نہیں، یہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ ہم سب کسی نہ کسی شکل میں اس کے اسٹیک ہولڈر ہیں۔

دشمن ملک، نان اسٹیٹ ایکٹرز یا ان کے مقامی سہولت کاروں کی جانب سے مسلط کردہ ایسی غیر اعلانیہ اور خفیہ جنگ ہے ، جس کے ذریعے ملک میں افراتفری، معاشی بدحالی اور عوام کو کنفیوژ اور فکری طور پر منتشر اور تقسیم کر دیا جاتا ہے۔

'' ففتھ جنریشن وار فیئر'' کہلاتی ہے، یہ ایک طرح کی ''سائبر وار'' بھی ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے لڑی جاتی ہے۔ اس جنگ میں قوم کا مورال ڈاؤن کرنے اور انتشار پھیلانے کے لیے فیک آئی ڈیز اور نامعلوم اکاؤنٹس کے ذریعے شرانگیز ٹوئٹس اور پوسٹس، مسلکی، لسانی اور علاقائی خلیج کو گہرا کرنے کے لیے نامعلوم تحریریں، اسی طرح فیک اور ایڈیٹ شدہ ویڈیوز وائرل کر کے ملکی وقار کو سبوتاژ کیا جاتا ہے۔

ففتھ جنریشن وارفیئر کا میدانِ جنگ کسی زمانے میں دشمن کا ہدف ہماری افواج اور سرحدیں ہوا کرتی تھیں، مگر اب ان کا نشانہ پورا ملک ہے۔ خانہ جنگی اور انتشار، دشمن کے کارندے مقامی سہولت کاروں کے ذریعے عوامی مقامات پر دھماکے اور قتل عام کراتے ہیں۔ ان حملوں کا اصل ہدف وہ نہیں جو مر جاتے ہیں، بلکہ وہ کروڑوں لوگ ہوتے ہیں جو زندہ بچ جاتے ہیں اور جن کی بقیہ ساری زندگی خوف و ہراس، تشویش اور مایوسی میں گزرتی ہے۔

باہمی خانہ جنگی کا لازمی نتیجہ معاشی تباہ حالی ہے۔ معاشی بدحالی میں عوام ایک نہ ختم ہونے والے تنازعے کی طرف بڑھتے ہیں، صوبے ایک دوسرے پر اپنا حق دبانے کے الزامات عائد کر کے تعصب کا شکار ہوجاتے ہیں، قوم پرست و علیحدگی پسند تنظیمیں زور پکڑنے لگتی ہیں اور یہیں سے دشمن کو افرادی قوت میسر آ جاتی ہے۔

ریاست کی مختلف اکائیوں کو جوڑنے والے بنیادی تصورات اور آئین کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ملک میں انارکی اور افراتفری پیدا ہوتی ہے۔ پروپیگنڈا کے ذریعے عوام میں جھوٹ، غیر ضروری تشویش ، مایوسی ، خوف اور نفرتیں پھیلا کر تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی صلاحیت رکھنے والے افراد اور نوجوان دُشمن کا اولین ہدف ہوتے ہیں۔

پاکستان کے خلاف ایک جانب دہشت گردی کا سلسلہ تیز ہوگیا ہے تو دوسری جانب منفی پروپیگنڈہ مہم جوئی کو مہمیز ملی ہے۔ افغانستان کی سرزمین آج بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔ پاکستان کی سرحد سے متصل افغانستان کے علاقے دہشت گردوں کے لانچنگ پیڈ ہیں اور وہ یہاں سے پاکستان کے علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتیں کررہے ہیں۔

افغانستان کے حکمران خواہ وہ ماضی کے نام نہاد لبرل حامد کرزئی ہوںیا اشرف غنی ، عبداﷲ عبداﷲ یا آج اورکل کے طالبان سب نے بڑی مکاری اور چالاکی سے پاکستان کے خلاف قوم پرستی اور مذہبی کارڈ کھیلا ہے۔پاکستان میں سادہ لوح عوام کو گمراہ کیا گیا اور کچھ لوگ مختلف قسم کے تصورات کا اسیر ہوکر افغانستان کے ہمدرد بن گئے اور کچھ دولت کے لالچ میں سہولت کار بن گئے ۔

سوشل میڈیا کے ذریعے عساکر پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ پھیلایا جاتا رہا ہے۔ جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے لسانی نفرت، نسلی تعصب ، فرقہ وارانہ تفریق اور ملک کے وائٹل انٹرسٹس کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلوائی جا رہی ہے۔ بیرون ملک مقیم خود ساختہ جلاوطنی کا ڈھونگ رچانے والے مٹھی بھر سوشل میڈیائی مداری اس کھیل میں پیش پیش ہیں۔ دہشت گردی اب ریاست کی اولین دشمن بن چکی ہے۔

اندرونی دشمن بیرونی سے زیادہ خطرناک اور زہریلا بن چکا ہے، اگرچہ ریاست اندرونی دشمن کے خلاف جنگ شروع کرچکی ہے اور کسی حد تک اس جنگ میں کامیابیاں بھی حاصل کر ر ہی ہے، مگر ریاست میں پرانی سوچ کی حامل بعض قوتیں جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے میں نیم دلی یا لیت و لعل سے کام لے ر ہی ہے اور عسکریت پسندوں میں اچھے اور برے کی تمیز کسی نہ کسی شکل میں اب بھی موجود ہے ، جس سے عسکریت پسندی کے جن کا بوتل میں مکمل طور پر بند نہ ہونے کا امکان ہے اور ماضی کی طرح اچھا عسکریت پسند کسی بھی وقت برا عسکریت پسند بن سکتا ہے۔

سوچ میں اس کنفیوژن اور دو عملی کا عکس ہمیں بعض ریاستی بیانیوں میں بھی ملتا ہے جو یا تو اپنی غلط پالیسیوں اور مہم جوئیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اور یا اپنے تنگ نظر مفادات کے لیے اب بھی اندرونی سے زیادہ بیرونی قوتوں کو صورتحال کی خرابی کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ بیرونی قوتوں کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر اپنی کوتاہیوں سے چشم پوشی کرنا مجرمانہ فعل ہے۔

مذہبی حوالے سے سوشل میڈیا کا استعمال ایک حد تک تبلیغ و اصلاح کا سبب بھی بنا لیکن کافی حد تک اس کا غلط استعمال بھی ہو رہا ہے۔ بعض اوقات ایک دوسرے کے خلاف بے جا الزامات یا غیر مستند فتاویٰ جات کا پرچارکر کے انتشار اور خلفشار بھی پھیلایا جاتا ہے۔ ہمارا دین ہمیں کسی پر تہمت لگانے سے سختی سے منع کرتا ہے لیکن بے بنیاد الزامات کو پھیلا کر ہم کئی گناہوں کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔

تمہیں نے چشم پوشی کی جہاں کی پیش بینی سے

جو ہونا تھا وہ دیواروں پہ لکھا ہم نے دیکھا ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں