سیاست میں بدتمیزی کا کلچر
آج کل کی سیاست میں جھوٹ اور منافقت کی جس وسیع پیمانے آمیزش ہوچکی ہے
عمران خان عوام کے ذہنوں سے کھیلنا خوب جانتے ہیں حالانکہ ان کی ماضی میں زندگی کیسے گزری، اس سے سب واقف ہیں، ساری زندگی مغرب میں گزارنے والا عمران خان مغرب کے خلاف کیسے ہوگیا؟ جس نے کسی مدرسے سے تعلیم حاصل نہ کی ہو' وہ دین کی باتیں کیسے کررہا ہے۔
وہ ختم نبوت کی بات کرکے لوگوں کو اپنے سحر میں کیسے مبتلا کرلیتا ہے؟ یہ بڑی باریک باتیں ہیں، ان کو سمجھنا ایک عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ عمران خان ایک ذہین اور موقع شناس کھلاڑی رہا اور اب سیاستدان ہے، دینی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے متعدد علماء ان کے سیاسی عزائم بہت پہلے بھانپ چکے تھے اور اس کے بارے میں اظہار بھی کر چکے تھے۔
آج سے دو دہائیاں قبل حکیم محمد سعید شہید رحمہ اللہ ، ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم رحمہ اللہ اور مولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ جیسی قد آور شخصیات عمران اور ان کی سیاست کے بارے میں اظہار کر چکے ہیں۔ مولانا سمیع الحق کچھ عرصہ عمران خان کے قریب بھی رہے لیکن الگ ہوگئے ۔ پاکستان میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے نکالا گیا ہو ۔ اﷲ نے یہ کام مولانا فضل الرحمان سے لیا، جو تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اس وقت تک ڈٹ کر کھڑا رہا جب تک جمہوری انداز میں عمران خان کو ایوان اقتدار سے نہیں نکالاگیا۔
آج کل کی سیاست میں جھوٹ اور منافقت کی جس وسیع پیمانے آمیزش ہوچکی ہے ، اسے دیکھ کر مجھے تو قرب قیامت کی نشانیاں نظر آتی ہیں۔ دینی کتب میں کہا گیا ہے کہ قیامت سے قبل ایسے لوگ سامنے آئیں گے جو اپنی باتوں اور تقریروں سے لوگوں کے دل اپنی طرف کھینچ لیں گے، وہ اپنی باتوں سے لوگوں کو فریب میں ڈالیں گے، آنکھوں میں دھول جھونکیں گے، جھوٹ کو اس منظّم طریقے سے پھیلائیں گے کہ سامنے والا بچ ہی نہ سکے اور اندھا یقین کر بیٹھے۔ وہ پانی کو آگ کہیں گے، دن کو رات کہیں گے اور رات کو دن کہیں گے، لوگ ان کا یقین کرلیں گے۔ لوگوں کے اندر سچائی تک پہنچنے کی صلاحیت ناپید ہوجائے گی، جھوٹ کو سچ سمجھ کو اس کے آگے سر تسلیم خم کردیا جائے گا۔
ان پر لوگ ایمان کی حد تک یقین کریں گے، کوئی دلیل بھی انہیں قائل نہیں کرسکے گی۔ لوگوں کے سامنے بڑی سے بڑی حقیقت بھی سامنے آجائے تو وہ اسے جھٹلائیں گے۔ ان کی حالت دیکھ کر۔ ان کے رشتے دار دوست احباب اپنے پیاروں کی اس حالت کو دیکھ کر شدید اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہوں گے، وہ انہیں اس راستے پر چلنے سے روکیں گے لیکن کسی کی ایک نہ سنی جائے گی کیونکہ جس راستے پر نکل پڑے ہیں وہ اسے حق کا راستہ سمجھ بیٹھے ہیں اور دوسروں کو گمراہ سمجھتے ہیں، اسی لیے جب انہیں ہاتھ پکڑ کر روکا جائے گا وہ ہاتھ چھڑائیں گے، رشتے ناتے، اور دوستیاں تک اپنے بڑھتے ہوئے قدموں تلے روند ڈالیں گے۔ بہرحال یہ باتیں تو برسبیل تذکرہ آگئی ہیں۔اب ذرا پاکستان کی سیاست کی طرف دوبارہ آتے ہیں۔
بلاشبہ تحریک انصاف کے حامی لاکھوں میںہیں۔ پی ٹی آئی کے کارکن عمران خان کی زبان سے نکلی ہر بات کو حق اور سچ سمجھ رہے ہیں، انہیں اپنے تمام ادارے جھوٹے محسوس ہورہے ہیں، پارلیمنٹ خرید و فروخت کی منڈیاں لگ رہی ہیں، عمران خان کی مخالف سیاسی جماعتیں غدار لگ رہی ہیں، عدالتیں بکاؤ محسوس ہورہی ہیں، دو تین صحافیوں کو چھوڑ کر باقی سارا میڈیا سازشی نظر آ رہا ہے، پاک فوج کے خلاف نوجوانوں کے دلوں میں زہر بھرا جارہا ہے، جو ماحول بنا دیا گیا ہے، اس سے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے سب سیاستدان اور ادارے جھوٹے ہیں اور صرف ایک عمران خان سچا ہے۔
عمران خان نے اپنے کارکنوں کو جو بد تہذیبی، گالم گلوچ اور ہاتھا پائی سکھائی ہے، اس کا عملی مظاہرہ پنجاب اسمبلی میں دیکھا گیا۔ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری پر حملہ کیا گیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا، یہ ایسی کلچر کی ایک کڑی ہے۔ وہ تو بھلا ہو پنجاب پولیس کے جانبازوں کا جنہوں نے دوبارہ اجلاس شروع ہونے پر پی ٹی آئی اور ق لیگ کے دوسرے حملے کو پسپا کردیا، دھکم پیل میں ایک دو لوگوں کو چوٹیں آئیں لیکن ایک قانونی و آئینی کارروائی میں مداخلت کو بزرو طاقت روکا گیا۔
اس سے پہلے اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ایک نا خوشگوار واقعہ پیش آیا، اب لگتا ہے کہ یہ سلسلہ چل پڑا اور یہ طوفان بدتمیزی ابھی تھمنے کا نام نہیں لے گا، مبینہ طور پر خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی ورکرز کو ہدایت دی گئی ہے کہ جو اراکین اسمبلی پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں ، ان کی تصاویر اٹھا کر ان کے گھروں میں جائیں اور وہ جہاں ملیں انہیں سبق سکھائیں۔
یہ لوگ کسی کے محلے یا گھر میں جاکر نعرہ بازی اور گالم گلوچ کریںگے تو کیا اس کے رشتے دار، عزیز و اقارب اور دوست احباب تماشہ دیکھتے رہیں گے؟ ہر گز نہیں۔ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیںگے، اس کوشش میں بات گالم گلوچ سے آگے بھی نکل سکتی ہے، کسی کا ہاتھ چل سکتا ہے، کسی مسلح شخص سے اسلحہ چل سکتا ہے ، اگر خدانخواستہ ایسی صورتحال میں کوئی انسانی جان ضائع ہوگئی تو اس کا ذمہ دارکون ہوگا؟ اس صورتحال سے بچنے کے لیے پوری قوم اور ریاست کو سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا۔
اقتدار سے جدائی پر عمران خان اچانک بھارت کے محبت میں گرفتار ہوگئے ہیں، ایک قومی لیڈر اپنے سیاسی حریف کے بارے یہ کہہ دے کہ اس کے ہوتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہیں، تو اس قسم کی سیاست کو کیا نام دیا جاسکتا ہے؟ ایسے غیر ذمہ دارانہ اور خطرناک بیان کا سخت نوٹس لینا چاہئے۔
اس صورتحال میں سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا ہوگا تاکہ ان کے ذہنوں میں جو غلط فہمیاں ڈالی گئی ہیں وہ دور ہوسکیں۔ لوگوں کو اچھے طریقے سے سمجھایا جائے گا تو وہ اپنے وطن کی محبت میں ضرور سمجھ جائیں گے۔بہت سوچ و بچار کے بعد بھی عمران خان کا بیانیہ " مجھے امریکا نے نکالا" سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آخر امریکا عمران خان کو کیوں نکالے گا؟
زمینی حقائق تو اس کے بالکل برعکس ہیں۔ چلو مان لیتے ہیں کہ امریکی سازش کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت ختم ہوگئی تو پھر عمران خان اپنے مشیروں اور گرین کارڈ ہولڈر کارکنان کو حکم دیں کہ وہ فوری طور پر امریکی شہریت چھوڑ دیں مگر وہ تو پاکستانی جھنڈے اور پاسپورٹ جلا رہے ہیں اور یہاں پی ٹی آئی والے بغلیں بجا رہے ہیں۔ عمران خان نے اگر پاکستان میں سیاست کرنی ہے تو اپنے کارکنوں کی سیاسی تربیت بھی کرنی چاہیے ورنہ ان کی سیاست زیادہ دیر نہیں چلے گی۔