عمران خان کا لہجہ اور شہباز شریف کی پاکستان سپیڈ
عمران خان صاحب کی اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں کہے گئے کئی الفاظ فساد پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں
LONDON:
ڈاکٹر جعفر احمد وطنِ عزیز کے نامور استاد ، محقق اور صاحبِ طرز لکھاری ہیں ۔ آپ پاکستان اسٹڈی سرکل جامعہ کراچی کے سابق صدر بھی ہیں ۔ دو درجن سے زائد وقیع کتابوں کے مصنف بھی ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ پولیٹیکل سائنس کا ایک معروف اور محترم نام ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے اپریل 2022 کے وسط میں جرمنی کے مشہور خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا:''پی ٹی آئی نے بدزبانی کے جس کلچر کو فروغ دیا ، وہ افسوسناک ہے ۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات مگر یہ ہے کہ ایک بہت بڑی تعداد کا اس زبان کو قبول کرنا ہے ۔''
عمران خان صاحب کی اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں کہے گئے کئی الفاظ فساد پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں ۔ خان صاحب نے اقتدار کے ایوانوں میں جو پونے چار سال گزارے ہیں ، اِس عرصے میں بھی وہ اپنے مخالفین اور حریفوں کے بارے میں مسلسل سخت زبان ہی بروئے کار لاتے رہے ہیں۔ یہ اب اُن کی پہچان اور ٹریڈ مارک بن گئی ہے ۔ بد قسمتی سے طرز بیان کو اس قدر فروغ ملا ہے کہ خان صاحب کے مریدین اپنے مخالفین کے گریبان چاک کرنے پر آ گئے ہیں ۔
عمران خان اقتدار سے نکلنے کے بعد اب اپنے سیاسی حریفوں میں غداری کی اسناد تقسیم کرنے لگے ہیں ۔ خان صاحب اپنے مخالفین کو سماج میں نکّو بنانے کے لیے پہلے بھی ''غدار'' کہتے آ رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر معروف تحقیقاتی صحافی ، جناب ضیغم خان ، کہتے ہیں :'' 1995 میں عمران خان نے مجھ سے انٹرویو کے دوران کہا تھا : جو شخص بھٹو کو پسند کرتا ہے ، وہ غدار ہے ۔''
ہم دیکھ رہے ہیں کہ عمران خان نے اپنے مخالفین کو ''غدار''اور'' چور'' اور'' ڈاکو'' کہنے کی جو گردان شروع کی تھی ، وہ اب بھی جاری ہے اور اس کے منفی نتائج اپنے رنگ دکھا رہے ہیں ۔ اُن کے پیروکار اورعشاق گلی محلوں میں بھی غداری کے سرٹیفکیٹس تقسیم کررہے ہیں ۔ اُن کے کئی تشدد پسند پیروکاروں کی ہمت اتنی بڑھی ہے کہ بعض تو مبینہ طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کو بھی دھمکیاں دینے پر اُتر آئے ہیں۔
عمران خان کے ایک عاشق نے پچھلے دنوں ECPکو دھماکے سے اُڑانے کی بھی دھمکی دے ڈالی ۔17اپریل کو روزنامہ ''ایکسپریس'' نے خبر دیتے ہُوئے بتایا کہ یہ دھمکی دینے والے کو ایف آئی اے گرفتار کر چکی ہے ۔ اِنہی دھمکیوں کے پس منظر میں چند دن پہلے ECP نے سیکریٹری داخلہ کو ایک خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ الیکشن کمشنر آف پاکستان کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے ۔
عمران خان نے 16اپریل کو کراچی کے جلسے میں خطاب کرتے ہُوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف ایک بار پھر اور زیادہ کھلے الفاظ میں الزاماتی زبان استعمال کی ہے۔ خان صاحب نے کہا: ''(الیکشن آف پاکستان میں زیر سماعت) فارن فنڈنگ کیس میں مجھے باہر کرنے کی سازش ہو رہی ہے ۔''اگر عمران خان صاحب ملک کے سب سے بڑے سرکاری انتخابی ادارے کے خلاف ایسی زبان استعمال کریں گے تو اس کے نتیجے میں خان صاحب کے متبعین بھی وہی زبان استعمال کریں گے جو ایک پی ٹی آئی ورکر نے مبینہ طور پر ECPکے خلاف زبان استعمال کی ہے اور اب دھر لیا گیا ہے ۔
بہت سے سیانے لوگ عمران خان کو سمجھا رہے ہیں کہ وہ اداروں اور قابلِ احترام قومی شخصیات کے خلاف قابلِ گرفت لسانی اسلوب سے احتراز کریں ۔ خان صاحب مگر باز نہیں آ رہے ۔ انھوں نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد اسلام آباد، پشاور اور کراچی میں اپنے جلسوں میں بار بار یہی زبان اور لہجہ اختیار کیے رکھا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ خان صاحب پیرو کار کئی ریٹائرڈ سرکاری افسر بھی اس زبان کے متاثرین میں شامل ہو گئے ہیں ۔ ایسے ہی ایک صاحب کو پشاور میں گزشتہ دنوں حراست میں لیا گیا اور اب اس شخص کی درخواست ضمانت بھی خارج کر دی گئی ہے ۔
عمران خان کو یقینِ واثق ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہو جائیں گے ۔ یہ خیال فی الحال خواب و خیال و محال لگتا ہے ۔ایسے امکان کو مگر سرے سے مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ اگر جناب نواز شریف اور پیپلز پارٹی اقتدار سے تین تین بار نکالے جانے کے باوجود چوتھی بار اقتدار میں آ سکتے ہیں تو عمران خان کیوں نہیں ؟ اس کے لیے مگر عمران خان کو نواز شریف ، شہباز شریف، بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری ایسا حوصلہ ، صبر اور ظرف دکھانا پڑے گا۔
عمران خان کی زبان اور الزامات کی پروا کیے بغیر وزیر اعظم شہباز شریف ''پاکستان سپیڈ'' کا نعرہ بلند کرکے پاکستان کی ترقی اور عوامی خوشی و خوشحالیوں کے لیے فیصلے کرتے اور برق رفتاری سے اقدامات کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر انھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی اسلام آباد میں پشاور موڑ تا نیو ائر پورٹ بس رُوٹ بارے قابلِ ستائش قدم اُٹھایا ہے۔ چار سال سے رُکا منصوبہ چار دنوں میں چالُو کر دینا معمولی کام نہیں ہے ۔
یہی پاکستان اسپیڈ ہے۔ اس فیصلے سے لاکھوں غریب مسافر روزانہ کی بنیاد پر مستفید ہونے لگے ہیں۔ عوامی مفاد میں اربوں روپے کے اس پروجیکٹ کو عوام کے لیے کھولنا مگر عمران خان کے مقدر میں نہیں تھا۔اور ہاں،اُن وفاقی سرکاری ملازمین کی خوشیاں بھی کوئی ملاحظہ کرے جن کی تنخواہوں میں شہباز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی دس فیصد اضافہ کر دیا ہے ۔ عمران خان کی طرح وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی پہلے چھ ماہ کے لیے میڈیا کی طرف سے مثبت رپورٹنگ ملنی چاہیے ۔