سیاسی محاذ آرائی اور قومی مفاد

پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کو قومی مفاہمت درکار ہے


سلمان عابد April 22, 2022
[email protected]

پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کو قومی مفاہمت درکار ہے۔کیونکہ اہل سیاست اور ان سے جڑے فریقین کی باہمی چپقلش یا محاذ آرائی نے ملک کو بند گلی میں دکھیل دیا ہے۔

سیاسی بداعتمادی کے کھیل میں کوئی بھی فریق ایک دوسرے کو قبول کرنے کے بجائے اپنی من مانی کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ سیاست دان ہوں یا سیاسی جماعتیں ان کی باہمی محاذ آرائی نے ریاستی اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ریاستی اداروں کے اپنے داخلی محاذ پر حالات کی سنگینی کا جہاں احساس ہے وہیں وہ ان حالات کی بہتری یا درستگی میں خود بھی سوچ وبچارکی کوشش کررہے ہیں۔ فیصلہ ساز یا سیاسی فریقین میں بنیادی نقطہ یہ ہی زیر بحث ہے کہ ہم کیسے موجودہ حالات سے باہر نکل سکتے ہیں اوراس کی سیاسی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے ۔

نئی حکومت سامنے آئی ہے اس کے سامنے بڑے بڑے سیاسی چیلنجز موجود ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سیاسی ومعاشی محاذ پر گہری بارودی سرنگیں ہیں جن کا حل سیاسی اتفاق رائے کے بغیرممکن نہیں بنایا جاسکے گا ۔جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ حکومت سب سے بڑا چیلنج معیشت کی زبوں حالی ہے اوراس کے لیے '' میثاق معیشت'' کو ہر صورت ممکن بنانا ہوگا ۔

مگر اہم نقطہ یہ ہے کہ کیا '' میثاق معیشت '' سیاسی محاذ آرائی کے خاتمہ کے بغیر ممکن ہوسکے گا، تو جواب یقینی طور پر نفی میں ہوگا۔ کیونکہ سیاسی استحکام کا راستہ ہی معاشی استحکام کوضمانت دے سکتا ہے ۔اس لیے سیاسی و معاشی مسائل کو علیحدہ علیحدہ خانوں میں دیکھنے کے بجائے ان میں کامیابی کے لیے مشترکہ طور پر سیاسی و معاشی حکمت عملی درکار ہے ۔

جو لوگ یہ منطق رکھتے ہیں کہ موجود درپیش چیلنجز سے نبٹنے کے لیے ہمیں طاقت کا استعمال کرنا ہوگا۔ جو لوگ بھی ملک کے سنگین مسائل پیدا کرتے ہیں ، ہمیں ریاستی رٹ کی مدد سے ان کو ختم یا کمز ور کرنا چاہیے۔ کچھ لوگوں نے فیصلہ ساز فریقین کو یہ ہی مشورہ دیا ہے کہ عمران خان کو سیاست سے بے دخل کردیا جائے، درست حکمت عملی نہیںہوگی اوراس کا منفی ردعمل آئے گا۔

عمران خان فوری طو رپر نئے انتخابات کے حامی ہیں ۔ وہ او ران کی جماعت قومی اسمبلی سے مستعفی ہوچکی ہے اور شنید یہ ہی ہے کہ آنے والے دنوں میں صوبائی اسمبلیوں سے بھی استعفے دیے جاسکتے ہیں ۔جو لوگ بھی عمران خان کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ حالات کو بند گلی میں نہ دکھیلیں او رنہ ہی جلد بازی میں کوئی ایسی حکمت عملی اختیار کریں جو ریاست کے لیے نئے مسائل پیدا کرے۔ مگر اس کے جواب میں عمران خان یہ ہی منطق دیتے ہیں کہ وہ کسی بھی صورت میں ریاستی و سیاسی ریڈ لائن سے باہر نہیں نکلیں گے مگر فیصلہ ساز ادارے بھی فوری انتخابات کا راستہ ہموار کریں ۔

یہ بات ہمیں تسلیم کرنی ہوگی کہ موجودہ سیاسی بحران بڑی سیاسی تقسیم کا سبب بن رہا ہے۔ معاشرتی سطح پر ایک گہری تقسیم پیدا ہوچکی ہے۔ اس تقسیم نے سوشل میڈیا سمیت تمام محاذوں پر محاذ آرائی ، تلخیوں، الزام تراشیوں ، لعن طعن ، دشنام ترازیوں کو طاقت دے کر ملک کے داخلی ماحول کو اور زیادہ مشکل میں ڈال دیا ہے۔سیاست دان چاہے وہ حکومت میں ہوں یا حزب اختلاف کی سیاست سے جڑے فریق ہو ان پر ہی یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ٹکراو کی سیاست سے گریز کریں ۔ سیاسی جلسوں کے ماحول کو کشیدہ بنانے کے بجائے اسے ایک دوسرے پر تنقید تک ہی محدود رکھیں ۔

ایک خطرہ یہ موجود ہے کہ اگر عمران خان نے محاذ آرائی کو مزید ہوا دینی ہے، اس کی مختلف شکلیں بھی ہم کو دیکھنے کو مل رہی ہیں تو اس کا ایک فطری نتیجہ عمران خان کے مخالفین کی جانب سے ردعمل کی صورت میں سامنے آئے گا۔

ایک عمومی خیال یہ ہی ہے 2022عام انتخابات کا برس ہوسکتا ہے ۔لیکن اگر ہمارے سیاسی ماحول میں کشیدگی کم نہیں ہوتی ہے تو پھر نئے انتخابات کیسے ممکن ہوں گے۔کیونکہ جو آج کی حکومت ہے جب ان کو یہ احساس ہوگا کہ عمران خان عوامی سیاسی میدان میں ان کے لیے سیاسی مشکلات پیدا کررہا ہے تو ان کو بھی سیاسی میدان میں کودنا پڑے گا اور جوابی ردعمل دینا ہوگاجو اور زیادہ محاذ آرائی پیدا کرنے کا سبب بنے گا ۔

یہ بات سمجھنی ہوگی کہ داخلی سیاست کا یہ بحران ہمارے لیے علاقائی اور عالمی سیاست کے لیے بھی بحران کو اور زیادہ سنگین کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ ہماری ریاست اورحکومت کو اپنی ترجیحات میں علاقائی سیاست سے جڑے مسائل پر توجہ دینی تھی وہ داخلی سیاست کے درمیان عملا پھنس کر رہ گئے ہیں۔ یہ حکمت عملی ہمیں علاقائی سیاست میں بھی تنہا کر رہی ہے او رہماری سیاسی دانش یہ سمجھنے سے ہی قاصر ہے کہ ہم نے اپنی داخلی لڑائی سے ریاستی مفاد کو کیا نقصان پہنچ رہا ہے ۔

اگر واقعی ہم نے نئے انتخابات کی طرف بڑھنا ہے تو ہمیں ایک مختصر وقت میں ایک ایسا سیاسی و انتخابی ماہدہ درکار ہے جو سیاسی کشیدگی کو کم کرنے اور آگے بڑھنے یا مفاہمت کی سیاست کو تقویت دے سکے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگا۔ اس لیے یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ہمیں مسئلہ کے حل کی طرف جانا ہے۔بدقسمتی سے جو طبقات لوگوں کی ذہن سازی کرتے ہیں ، وہ خود تقسیم کو بڑھا رہے ہیں۔اس لیے فریقین حالات کی نزاکت کو سمجھیں۔ مسئلہ کے حل میں سب فریقین کو ایک دوسرے کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرنا ہوگا اور مل جل کر ایک ایسا حل تلاش کریں جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں