اندھا اور عقل مند
جو انجام پر نظر رکھے وہی عقل مند ہے
لاہور:
ایک آدمی سنار کے پاس سونا تولنے کے لیے ترازو مانگنے آیا۔ سنار نے کہا کہ'' میاں اپنا راستہ لو، میرے پاس چھلنی نہیں ہے۔'' اس آدمی نے کہا کہ'' ہائیں! مذاق نہ کر بھائی! مجھے ترازو چاہیے۔'' سنار نے جواب دیا کہ'' میری دکان میں جھاڑو ہے ہی نہیں۔'' اس نے کہا کہ'' ارے بھائی! مسخرے پن کو چھوڑو میں تو صرف ترازو مانگ رہا ہوں، وہ مجھے دے دو اور بہرا بن کے اونگے بونگے جواب نہ دو۔'' سنار نے اس آدمی کو جواب دیا کہ'' حضرت! میں نے تمہاری بات سن لی تھی، میں بہرا نہیں ہوں ، تم یہ نہ سمجھو کہ میں مہمل بک رہا ہوں۔ تم بوڑھے آدمی سوکھ کر فاقہ ہو رہے ہو، ہاتھوں میں رعشہ ہے اور سارا جسم کانپتا ہے۔
تمہارا سونا بھی کچھ برادہ اور کچھ چورا ہے اس لیے تولتے میں تمہارا ہاتھ لرزے گا اور سونا گر پڑے گا۔ تم پھر آؤ گے کہ بھائی ذرا جھاڑو تو لے آنا تاکہ میں اپنا سونا اکٹھا کروں اور جب جھاڑ کر مٹی خاک ایک جگہ جمع کر لو گے تو پھر کہو گے کہ مجھے چھلنی چاہیے تاکہ خاک کو چھان کر سونا الگ کروں اور ہماری دکان میں چھلنی کہاں۔ میں نے پہلے ہی تمہارے کام کا انجام دیکھ کر کہا تھا کہ آپ کہیں اور سے ترازو مانگنے جائیے۔'' مولانا جلال الدین رومی اپنی مذکورہ حکایت میں کہتے ہیں کہ جو صرف آغاز کو دیکھتا ہے وہ اندھا ہے۔
جو انجام پر نظر رکھے وہی عقل مند ہے،جو شخص پہلے ہی پیش آنے والی بات کو سوچ لے وہ آخر پر کبھی شرم سار نہیں ہوتا۔ یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہمارے اکابرین سیاست نے ہمیشہ آغاز پر نظر رکھی انجام سے انھیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ حالانکہ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ اگر آپ نے دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت کی تو آپ کا اس سے ٹکراؤ شروع ہو جائے گا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ کا جاری سفر رک جائے گا۔
کامیاب زندگی کا روشن پہلو یہ ہے کہ جب خارج سے کوئی علامت ظاہر ہو تو یہ جاننے کی کوشش کی جانی چاہیے کہ اس علامت کے پیچھے اور کیا کیا باتیں موجود ہیں جو بروقت دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ اگر آپ نے صرف سامنے دکھائی دینے والی چیزوں کو دیکھا اور جو چیزیں آپ کو دکھائی نہیں دے رہیں ان سے بے خبر اور لاتعلق رہے تو مقابلے کی اس برق رفتار دنیا میں آپ کبھی کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔ سابق حکومت نے سیاسی میدان میں اپنے آغاز پر نظر رکھی کہ بہرصورت انھیں لیلیٰ اقتدار کی مسند پر جلوہ افروز ہونا ہے۔ نہیں سوچا تو یہ نہیں سوچا کہ اس کا انجام کیا ہونا ہے۔
حصول مقصد کے لیے انھوں نے نہایت بلند و بانگ دعوے کیے ملک کے عوام سے ایسے ایسے کہ الحفیظ والامان! بس پھر کیا تھا کہ نہ صرف عوام بلکہ غیر سیاسی لوگ بھی ان کے ہم رکاب ہوگئے۔ عمران خان بہترین ٹیم ، بہترین حکومت، نیا پاکستان بہ طرز ریاست مدینہ اور تبدیلی کے نعروں کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ گئے اور ملک کے روایتی سیاست دان انگشت بہ دنداں رہ گئے کہ قوم نے ایک کھلاڑی کو کوچہ سیاست میں لا کر انھیں نئی آزمائش میں ڈال دیا۔ عمران خان بار بار اپنی ٹیم میں من مانی تبدیلیاں کرتے رہے۔ یوٹرن پر یوٹرن لیتے رہے۔ اتحادیوں کے مطالبات اور معاہدوں کو نظرانداز کرتے رہے، اپوزیشن کی کسی تنقید اور کسی تجویز کو خاطر میں نہ لائے، عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں اور دعوؤں کو بالائے طاق رکھ دیا۔
دانشور طبقے اور صائب الرائے حلقے انھیں حالات کو بند گلی تک جانے سے روکنے اور حقیقی و نظر آنے والی جوہری تبدیلی لانے کے قیمتی مشورے دیتے رہے جنھیں خان صاحب نے درخور اعتنا نہ سمجھا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ باخبر حلقے اور صاحب قدرت لوگ انھیں انجام سے با خبر کرتے اور ڈراتے بھی رہے، لیکن خان نے کسی کی نہ سنی۔ اگر سنی تو ان سنی کردی۔ نتیجہ کیا نکلا؟ کہ ان کی حکومت کی پالیسیوں، اقدامات اور فیصلوں کے باعث ملک کے معاشی و سیاسی حالات بگڑتے چلے گئے۔
مہنگائی، بے روزگاری اور غربت و افلاس نے عوام کا سکھ چین چھین لیا، گھروں میں فاقوں و خودکشیوں نے ڈیرے ڈال لیے، بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونیوالے بار بار اضافے نے عوام کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کیا۔
عوام کی زندگی میں تبدیلی کا خواب سراب بن گیا۔ خان صاحب کی عوامی مقبولیت کا گراف نیچے آنے لگا ہر ضمنی الیکشن میں ان کی جماعت کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اپوزیشن نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) جو ہمیشہ یہ شکوہ کرتے نظر آئے کہ پاکستان میں کسی وزیر اعظم کو مدت پوری کرنے نہیں دی جاتی، ان ہی دونوں نے خان کو بھی مدت پوری نہ کرنے دی اور ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئے اور آخرکار عمران خان کو رخصت ہونا پڑا۔ وہ قومی سیاسی تاریخ کے پہلے وزیر اعظم بن گئے جنھیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا، کیوں؟
اس لیے کہ انھوں نے اپنے ''کارناموں'' کے انجام پر نظر نہیں رکھی۔ دیکھا جائے تو اپوزیشن نے بھی پی ٹی آئی حکومت گرانے کے نتائج اور متحدہ اپوزیشن کی حکومت کو درپیش سنگین چیلنجز کے تناظر میں اپنے انجام پر نظر نہیں رکھی۔ بغض عمرانی میں ان کی حکومت ختم کردی اور جن اسمبلیوں کو جعلی اسمبلی کہتے رہے ان ہی اسمبلیوں سے ووٹ لے کر خادم پنجاب، اب خادم پاکستان بن گئے۔ اب ان کے سامنے گمبھیر مسائل کا انبار ہے، معیشت کی زبوں حالی، قرضوں کا بارگراں، آئی ایم ایف کا دباؤ، عوام کے مسائل اور پھر سب سے بڑھ کر اپوزیشن رہنماؤں کے بلند و بانگ دعوے کہ ہم اقتدار میں آ کر عوام کے مسائل حل کریں گے۔ اب نئے آنیوالوں کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں، کیونکہ اپوزیشن نے انجام پر نظر نہیں رکھی۔ اقتدار کا بھاری پتھر بغض عمرانی میں چوما گیا ہے۔
ان کی حکومت کی باگیں لندن سے ہلیں گی۔ (ن) لیگ اور پی پی پی ایک دوسرے کی سیاسی مخالف ہیں۔ اب وہ صاحب اختیار بلکہ مختار کل ہیں۔ کیا اپنے خواب کو عملی جامہ پہناسکیں گے؟ ان کی حکومت سانجھے کی ہانڈی ہے جو بیچ چوراہے پر پھوٹے گی، یہ پھر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوں گے، قوم جلد یہ تماشا بھی دیکھے گی۔ پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر جس طوفان بدتمیزی کا ہر دو جانب سے عملی مظاہرہ کیا گیا وہ ان کی جمہوریت پسندی کے منہ پر طمانچہ ہے جو ہماری جگ ہنسائی کا سامان بنا۔ صبر، تحمل، برداشت، رواداری، ملائمت، وضع داری، سنجیدگی اور بردباری جیسی اعلیٰ اقدار ہمارے سیاسی کلچر سے معدوم ہو تی جا رہی ہیں۔
لحاظ، مروت اور شرم و حیا کے زمانے گزر گئے۔ اعلیٰ جمہوری روایات اور سیاسی اقدار سیاسی لوگوں نے ہی پامال کردیں۔ یہ ہمارا قومی المیہ کہ کوئی شعبہ کوئی ادارہ ایسا نہیں جس نے اقدام سے پہلے انجام پر بھی نظر رکھی ہو۔ پیش منظر اور پس منظر کے امکانات کا جائزہ لیا ہو۔ بقول مولانا روم جو صرف آغاز کو دیکھتا ہے وہ اندھا ہے اور جو انجام پر نظر رکھے وہ عقل مند ہے۔ یہاں کون اندھا ہے اور کون عقل مند، اس کا فیصلہ کون کرے گا۔ عوام یا کوئی اور قوت؟