سیاست کو اکھاڑا مت بنائیے

تحریک انصاف کے رہنماؤں نے عوام کو سیاست دانوں پر حملوں کےلیے اکسانا شروع کردیا ہے


شیخ رشید کو کون نہیں جانتا کہ وہ کتنے دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

LONDON: پاکستان میں حالیہ دنوں سیاست میں ایک عجیب و غریب تناؤ پیدا ہوا ہے۔ مگر یہ کوئی نئی بات نہیں، اس سے قبل اس سے بھی بڑی بڑی سیاسی آفتیں اس ملک پر مسلط ہوتی رہی ہیں۔ یہ سیاستدانوں کی ہی غلطیاں تھیں جو ملک کو مارشل لاء کی طرف لے جاتی رہیں۔ سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف بڑے بڑے محاذ کھڑے کرتے رہے، ایک دوسرے کے اقتدار کو ختم کرنے کےلیے بڑی بڑی سازشیں ہوئیں۔ لیکن حالیہ دنوں جو کچھ ہورہا ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے عوام کو سیاست دانوں پر حملوں کےلیے اکسانا شروع کردیا ہے، جنہوں نے اشتعال میں آکر مخالفین پر حملے بھی کر ڈالے۔ لیکن یہ رہنما اب بھی باز نہیں آرہے اور لوگوں کو مزید حملوں پر اکسا رہے ہیں۔

اسلام آباد میں سندھ ہاؤس پر حملہ ہوا، پشاور اور فیصل آباد کے منحرف اراکین کے گھروں اور دفاتر پر حملے کرکے ان کے اہل خانہ تک کو پریشان کرنے کی کوشش کی گئی۔ لندن میں مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے دفاتر پر بھی حملے کیے گئے بلکہ نواز شریف پر بھی ایک جنونی سیاسی کارکن نے حملہ کرنے کی کوشش کی، جس میں ناکامی پر اس بپھرے ہوئے شخص نے دور سے ہی اپنا موبائل دے مارا جو نواز شریف کے گارڈ کو جا لگا۔

یہ وہ اشتعال انگیزی تھی جو تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اپنے کارکنوں میں پیدا کی اور اب بھی کر رہے ہیں۔ اس موضوع پر لکھنے کا خیال مجھے اب اس لیے آیا ہے کہ لاہور کے حالیہ جلسے میں ایک بار پھر سابق وزیرداخلہ شیخ رشید نے وزیراعظم شہباز شریف کے بارے میں کہا کہ یہ 27 اور 28 تاریخ کو حرم میں بھی جا کر دیکھ لے، لوگ اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح انہوں نے پاکستان اور لندن میں لوگوں کو سیاسی مخالفین پر جسمانی حملے اور تشدد پر اکسایا، اب یہ سعودی عرب میں رہنے والے کارکنوں کو بھی اکسا رہے ہیں کہ اس مقدس سرزمین کو بھی اپنی بدتمیزیوں سے مامون نہ رہنے دیں اور وہاں پر بھی سیاسی مخالفین پر حملے کریں۔ خدانخواستہ کسی سرپھرے نے مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ بلکہ مسجد حرام یا مسجد نبوی شریف میں ایسی حرکت کر ڈالی اور اس نے شہباز شریف یا کسی دوسرے سیاسی مخالف پر حملہ کردیا تو سوچیے ملک کی کتنی بدنامی ہوگی اور پاکستانیوں کو سعودی عرب کی طرف سے کس طرح کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس تمام تر صورتحال کا ذمے دار کون ہوگا؟ یہ تو پھر بھی مخالفین پر ہی ذمے داری ڈالیں گے لیکن ان پرتشدد واقعات کے پیچھے صرف یہی چند ایک سیاسی رہنما ہیں جو لوگوں کو مسلسل مخالفین کے خلاف بھڑکا رہے ہیں۔

رہی یہ بات کہ لوگ خود ان کی کرپشن یا ان کے پارٹی سے انحراف کی وجہ سے نالاں ہیں اور خود ہی حملے کرتے ہیں تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ کیونکہ شیخ رشید کو کون نہیں جانتا کہ وہ کتنے دودھ کے دھلے ہوئے ہیں یا دیگر تمام وہ لوگ جو گزشتہ تمام ادوار میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور ان کا حالیہ قیام پی ٹی آئی میں ہے۔ ان کے خلاف کوئی بات اس لیے نہیں کرتا کہ وہ پی ٹی آئی میں ہیں، ورنہ تو ان پر بھی بڑے بڑے الزامات لگ چکے ہیں بلکہ خود تحریک انصاف کے رہنماؤں خصوصاً پارٹی چیئرمین عمران خان بھی انہیں خود کرپٹ اور نااہل قرار دے چکے ہیں۔ لیکن چونکہ آج کو انہوں نے پی ٹی آئی میں عارضی پڑاؤ کر رکھا ہے، اس لیے وہ پاک صاف ہوگئے ہیں۔ لیکن ان پر عوام کی طرف سے حملے کیوں نہیں ہوتے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین اتنے کم ظرف نہیں ہیں کہ لوگوں کو صرف سیاسی مخالفت کی وجہ سے ان پر جسمانی تشدد اور حملوں پر اکسائیں اور نہ ہی ان کے کارکن اتنے بھولے ہیں کہ ذرا سی سیاسی مخالفت ہو یا جماعت سے کوئی انحراف کرے تو یہ اس پر یا اس کے گھر اور دفتر پر حملے کرنے لگیں۔

تحریک انصاف کے تقریباً تمام نمایاں رہنماؤں کی تاریخ دیکھ لیجئے کہ وہ کتنی جماعتوں سے انحراف کرتے کرتے پی ٹی آئی تک پہنچے ہیں۔ یہ کون سا ابتدا سے تحریک انصاف میں تھے۔ پارٹی سے منحرف ہونے کی روایت تو بہت قدیم ہے لیکن اس طرح کبھی کسی نے منحرفین کے خلاف جملے نہیں کسے، کبھی کسی نے ایک جماعت چھوڑ کر دوسری میں جانے والوں کو نہیں ستایا۔ یہ سیاسی عمل کا حصہ ہے جو ہمیشہ سے چلا آرہا ہے اور اس عمل کا حصہ خود تحریک انصاف بھی رہی ہے۔ دوسری جماعتوں کے منحرف ارکان نے کئی بار انہیں بھی ووٹ دیے ہیں، تب تو انہوں نے انہیں ووٹ دینے سے نہیں روکا۔ ان کے پاس جہاز بھر بھر کر لوگوں کے آتے رہے اور شمولیت اختیار کرتے رہے۔ ٹھیک ہے ان میں بہت سے آزاد ارکان بھی تھے لیکن دوسری جماعتیں چھوڑنے والوں کی بھی قابل ذکر تعداد موجود تھی۔ لیکن صرف آزاد ارکان کو بھی دیکھیے تب بھی وہ اخلاقی طور پر کسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کرسکتے کیونکہ عوام نے انہیں ووٹ دیا ہے نہ کہ کسی پارٹی کو۔ جب عوام انہیں ووٹ دے رہے ہوتے ہیں تو ان کے سامنے اس جماعت کا امیدوار بھی ہوتا ہے جس جماعت کے ساتھ وہ بعد میں ملحق ہوجاتے ہیں لیکن عوام جماعتوں کے امیدواروں کو نظر انداز کرکے آزاد امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں اور یہ بعد میں پھر اسی جماعت میں شمولیت اختیار کرلیتے ہیں جسے عوام نے مسترد کیا ہوتا ہے۔ تو پھر یہ کیسے درست ہوگیا؟

میری ان تمام سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ سیاسی اختلافات کو سیاسی ہی رکھیں۔ میری تحریر کا مقصد کسی ایک جماعت یا ایک سیاستتدان کو تنقید کا نشانہ بنانا نہیں لیکن چونکہ حالیہ دنوں ایک جماعت کی طرف سے سیاسی مخالفین پر حملے کرائے جارہے ہیں تو ان سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ برائے مہربانی سیاست میں لڑائی جھگڑے اور مار دھاڑ والا کلچر نہ لے کر آئیں۔ سیاسی اختلافات کو سیاست دان کی نظر سے ہی دیکھیے اور انہیں سیاسی طریقے سے ہی حل کیجئے۔ کیونکہ اگر دیگر جماعتوں کے کارکنوں نے بھی اس طریقہ کار کو اپنا لیا تو پھر کوئی سیاستدان، اس کا گھر اور دفتر محفوظ نہیں رہے گا۔ ملک خانہ جنگی کی طرف جائے گا جس کا فائدہ صرف اور صرف ملک دشمن عناصر کو ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں