ماہ رمضان‘ مشہور فلمی نعتیں اور بچپن کی یادیں
فلمی نعتوں کے علاوہ بھی بے شمار فلمی نعتیں جو آج بھی میلاد کی محفلوں میں کثرت سے کیف و سرور میں ڈوب کر گائی جاتی ہیں
رمضان کا آخری عشرہ بھی اب گزر رہا ہے ،ہم اپنے بچپن سے اپنے گھروں میں رمضان کی بہاریں اور برکتیں دیکھتے چلے آ رہے ہیں، ماہ رمضان آتے ہی والد صاحب کے حکم کے بعد ریڈیو سے گیتوں اور ہر قسم کی موسیقی کے پروگرام سننے پر پابندی لگا دی جاتی تھی اور گھر میں ایک پرانے ریڈیو سے خبروں کے وقت پر خبریں اور دن بھر ریڈیو سے قوالیاں اور نعتیں سنا کرتے تھے اور ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ گھر میں افطاری کا بھی خوب اچھے طریقے سے اہتمام کیا جاتا تھا اور شام ہوتے ہی افطار کے وقت سے پہلے ہمیں افطاری کی ایک ٹرے بنا کر دے دی جاتی تھی جسے ہم قریب کی مسجد میں جا کر دے آتے تھے اور بڑی خوشی محسوس کرتے تھے اور پھر افطار کے وقت سب بچے بھی ایک جگہ بیٹھ کر اذان کا انتظار کیا کرتے تھے اورسب سے زیادہ رونق مسجدوں میں تراویح کے وقت ہوا کرتی تھی۔
ہم خود سر پر ٹوپی لگائے والد صاحب کے ساتھ مسجد میں تراویح پڑھنے جایا کرتے تھے اور پھر آدھی رات سے ہی سحری کے لیے جگانے والوں کی آمد شروع ہو جاتی تھی، مختلف ٹولیاں فلمی گانوں پر بنائی گئی نعتیں پڑھتے ہوئے سحری کے وقت تک آتی رہتی تھیں ایک رونق کا سماں رہتا تھا، ایک مخصوص آواز لگاتے ہوئے ایک بابا جی بھی روزانہ سحری کے لیے جگانے اپنے الگ ہی انداز سے آتے تھے۔
ان کے ہونٹوں پر ایک صدا ہوتی تھی اللہ کے نام میری تومڑی بھردے۔ اور وہ ایک آواز بہت سی آوازوں پر بھاری پڑتی تھی، لوگ ان کو کچھ نہ کچھ دینے کے لیے اپنے گھروں سے باہر نکلتے تھے اور ہم بھی ان بابا جی کو پیسے دینے جاتے تھے۔ برسوں اس بات کو گزر گئے آج ہم امریکا میں رہتے ہیں جب بھی رمضان کا مہینہ آتا ہے ہمیں آج بھی ماضی کی باتیں یاد آتی ہیں۔ ہم اپنے بچوں اور ان کے بچوں کے ساتھ ماہ رمضان کو بڑے اہتمام سے مناتے ہیں۔ ہمارے ساتھ چھوٹے بچے بھی اپنی اپنی پلیٹوں میں افطاری کا سامان سجا کر بیٹھتے ہیں اور اذان کے ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔
ٹی وی پر بچے نعتوں کے پروگرام سنتے ہیں اور ان کے لیے بچوں کی آواز میں ریکارڈ کی گئی نعتیں بھی لگا دی جاتی ہیں۔ رمضان کے بارے میں انگلش میں بک لیٹ بھی بچوں کو منگوا کر دیے ہیں اور گھر کے چھوٹے بچے اپنی چھوٹی چھوٹی جائے نمازوں کے ساتھ روزہ کھولنے کے بعد بڑوں کے ساتھ برابر میں کھڑے ہو کر مغرب کی نماز بھی پڑھتے ہیں۔ جو تربیت ہمارے والدین نے ہماری کی تھی اسی طرح اب ہمارے بچے اپنے چھوٹے بچوں کی تربیت کر رہے ہیں۔
اب میں آتا ہوں ان روح پرور کچھ نعتوں کی طرف۔ ہمارے زمانے میں ایک روزہ دار بچے کی روداد نظم کی صورت میں مشہور گلوکار محمد رفیع کی آواز میں تھی جو ماں باپ کے منع کرنے کے بعد چپ چاپ روزہ رکھ لیتا ہے پھر وہ منع کرنے کے بعد بھی روزہ نہیں توڑتا ہے اور افطار سے پہلے اس کی حالت خراب ہو جاتی ہے پھر ایک فقیر آتا ہے۔ اللہ کے حضور دعا کرتا ہے اور اللہ کے حکم سے وہ بچہ ہوش میں آجاتا ہے۔ وہ نظم سن کر بچے بڑے متاثر ہوتے تھے، آل انڈیا ریڈیو سے اس زمانے میں محمد رفیع کی آواز میں ایک سلام بھی ان دنوں بڑا مشہور تھا:
یا نبی سلام علیک، یا رسول سلام علیک،
یا حبیب سلام علیک
رحمتوں کے تاج والے دو جہاں کے راج والے
عرش کی معراج والے عاصیوں کی لاج والے
یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک
ایک اور نعت جو محمد رفیع کی آواز میں بہت مقبول تھی اور دلوں کو چھوتی تھی:
اگر مل گئی مجھ کو راہ مدینہ
محمدؐ کا نقشِ قدم چوم لوں گا
عقیدت سے کعبے میں سر کو جھکا کر
نگاہوں سے بابِ حرم چوم لوں گا
یہاں میں گلوکار محمد رفیع کے بچپن کا ایک واقعہ بھی سناتا چلوں جس کے بعد اسے گانے کا شوق پیدا ہوا تھا۔ ہندوستان میں بھی رمضان کے دنوں میں فقیر صبح شام اور رات نعتیںپڑھتے ہوئے آتے تھے۔ ایک فقیر صبح ہوتے ہی ایک چھوٹی سی بالٹی بجاتا ہوا ایک صوفیانہ کلام گاتا ہوا گزرتا ہوا، گلی گلی جاتا تھا اور جب وہ محمد رفیع کے دروازے کے قریب آتا تو محمد رفیع جس کی عمر اس وقت آٹھ سال کی تھی، اپنے دروازے پر آجاتا تھا۔ اور کچھ نہ کچھ اس کو دے دیتا تھا، پھر جب وہ گلی سے آگے بڑھتا تو محمد رفیع بھی اس کے پیچھے پیچھے وہ گانا سنتا ہوا دور تک جاتا تھا، اور پھر جب فقیر آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا تھا تو وہ واپس اپنے گھر آجاتا تھا۔
اس فقیر کی دل سوز آواز محمد رفیع کے دل میں گھر کر گئی تھی، اس فقیر کے گیت نے ہی اسے گائیکی کے فن کی روشنی دی تھی۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ محمد رفیع ایک نامور گلوکار بن کر سارے ہندوستان میں چھا گیا تھا اور پھر فلمی دنیا میں اس دور میں اس سے بہتر کوئی گلوکار نہیں تھا، محمد رفیع کی گائیکی سے متاثر ہو کر بے شمار لوگوں نے اپنی گائیکی کا آغاز کیا اور محمد رفیع کو آئیڈیل بنا کر بہت سے گلوکار فلم انڈسٹری میں آئے اور انھوں نے بھی شہرت حاصل کی، محمد رفیع کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ ریڈیو کے علاوہ بھی جس فلم کے لیے کوئی گیت بھجن یا نعت ریکارڈ کراتا تھا وہ اس کا کبھی کوئی معاوضہ نہیں لیتا تھا۔
محمد رفیع نے جس فلم کے لیے بھی کوئی نعت پڑھی، اس نعت کی وجہ سے اس فلم کو شہرت اور کامیابی نصیب ہوئی یہاں میں چند ایسی نعتوں کا تذکرہ کروں گا جو فلموں کے لیے گائی گئیں اور ان نعتوں کو بے تحاشا مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ فلم دین اور ایمان کی ایک نعت جو فلم میں اداکار محمد خان پر فلمائی گئی تھی اس نعت نے بڑی دھوم مچائی تھی۔ اس نعت کی وجہ سے ہزاروں لوگ وہ فلم دیکھنے جاتے تھے۔نعت کے بول ایک دوہے سے شر وع ہوتے تھے:
جھکتے ہیں لوگ کعبہ اطہر کے سامنے
کعبہ میں سر جھکایا ہے اس در کے سامنے
کملی والے کا روضہ نگاہوں میں ہے
یعنی کعبہ کا کعبہ نگاہوں میں ہے
میرے آقا ہیں وہ جن کا سایا نہیں
بعد ان کے نبیؐ کوئی آیا نہیں
وہ شہِ انبیا وہ رسولِ خدا
حسن کی ابتدا عشق کی انتہا
جن کے دم سے جہاں سارا روشن ہوا
بس انھی کا ہی جلوہ نگاہوں میں
1950 میں ایک مسلم سوشل فلم حاتم طائی ریلیز ہوئی تھی یہ فلم بمبئی فلم انڈسٹری کے ایک پارسی پروڈیوسر مسٹر واڈیا نے بنائی تھی اور محمد رفیع کی ہی آواز میں یہ حمد نہ صرف سارے ہندوستان بلکہ سارے پاکستان میں بھی بڑی مقبول ہوئی تھی اور اس کے لاکھوں ریکارڈ فروخت ہوئے تھے:
پروردگار عالم تیرا ہی ہے سہارا
تیرے سوا جہاں میں کوئی نہیں ہمارا
اور پھر اس حمد کو اسکولوں کے بچوں نے بھی اپنایا اور ہزاروں اسکولوں میں یہ حمد گائی جاتی تھی۔ اور پھر مشہور ہدایت کار کے۔آصف کی شہرہ آفاق فلم مغل اعظم میں شکیل بدایونی کی لکھی ہوئی اور لیجنڈ گلوکارہ لتا منگیشکر کی گائی ہوئی نعت نے تو مقبولیت کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا تھا نوشاد کی موسیقی میں ریکارڈ کی گئی اس نعت نے کروڑوں لوگوں کے دل موہ لیے تھے۔ یہ نعت اداکارہ مدھوبالا پر عکس بند کی گئی تھی اور نعت کے بول تھے:
بے کس پہ کرم کیجیے سرکارِ مدینہ
گردش میں ہے تقدیر بھنور میں ہے سفینہ
اسی طرح پاکستان کی فلموں میں بھی بہت سی نعتیں فلمائی گئیں اور ان نعتوں کو بڑی شہرت ملی، ان نعتوں میں ہدایت کار قدیر غوری کی فلم دامن میں میڈم نور جہاں کی آواز میں ایک روح پرور نعت آج بھی سنو تو احساس میں کیف و سرور کی خوشبو بکھر جاتی ہے۔ یہ نعت فلم میں مشہور اداکارہ صبیحہ خانم پر عکس بند کی گئی تھی اور اس نعت کے بول ہیں:
آپ کے در کے سوا میرا یہاں کوئی نہیں
اے حبیب کبریا اے رحمت للعالمین
میری کشتی کی خدارا ناخدائی کیجیے
راستہ بھولے ہوؤں کی رہنمائی کیجیے
آپ کے ہوتے ہوئے دنیا نہ مٹ جائے کہیں
اے حبیب کبریا اے رحمت للعالمین
اور پھر فلم نور اسلام کی ایک نعت فلم سے ہٹ ہو کر میلاد کی محفلوں میں بھی بڑی مقبول ہوئی تھی۔ تنویر نقوی کی لکھی ہوئی نعت کو گلوکار سلیم رضا، آئرین پروین اور بہت سی کورس کی لڑکیوں نے گایا تھا جس کے بول ہیں:
سارے نبیؐ تیرے در کے سوالی
شاہِ مدینہ، شاہِ مدینہ
ان فلمی نعتوں کے علاوہ بھی بے شمار فلمی نعتیں جو آج بھی میلاد کی محفلوں میں کثرت سے کیف و سرور میں ڈوب کر گائی جاتی ہیں، فلمی نعتوں کے علاوہ میڈم نور جہاں، زبیدہ خانم، نیرہ نور، ناہید اختر نے بھی ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے بہت سی نعتیں ریکارڈ کرائی ہیں جو گاہے گاہے سننے میں آتی رہتی ہیں اور خاص طور پر ماہ رمضان کے لیے یہ نعتیہ اور حمدیہ کلام دلوں میں حرارت پیدا کرتا ہے اور ایمان کی روشنی بخشتا ہے۔