گونج
محدود نظاموں کے پالیسی ساز جب چاہیں پالیسی میں الٹ پھیر کرسکتے ہیں مگر کھلے نظام میں ایسا ممکن نہیں
LONDON:
پاکستان کو عالمی سطح پر بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر دنیا میں بالعموم اور ایشیا میں بالخصوص اہم مقام حاصل ہے۔ اس کی جغرافیائی حیثیت دنیا بھر میں مسلمہ ہے۔ اسی باعث عالمی سیاست میں پاکستان کے کردار کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔
جغرافیائی اور نظریاتی اعتبار سے پاکستان کے اپنے تمام ہمسایہ ممالک، اسلامی دنیا اور عالمی طاقتوں سے تعلقات کی بنیاد کیا ہو اور کیا نہ ہو، یہ موضوع اندرون وطن اور بیرون ملک بھی علاقائی اور عالمی سیاست کے ماہرین، مفکرین، مدبرین اور سیاستدانوں میں عموماً زیر بحث رہتا ہے۔ اس ضمن میں مختلف النوع آرا اور تجاویز بھی مختلف حلقوں کی جانب سے سامنے آتی رہتی ہیں۔
ملکوں کی خارجہ پالیسیوں سے متعلق تحقیق و تدقیق کے لیے بہت سے مظاہر و عجائب کے غیر معمولی طور پر وسیع تر اور پیچیدہ سلسلے کو پرکھنا پڑتا ہے۔ اس ضمن میں اندرونی حالات کے علاوہ خارجہ امور کی خصوصی ضرورتیں بھی کارفرما ہوتی ہیں جن میں مخصوص لوگوں کے طاقتور گروہوں کی متنوع خواہشات، اوصاف، کلچر، تضادات، مفادات اور صلاحیت ہائے کار شامل ہیں، جو متعلقہ مملکت میں اپنی معاشرتی، قانونی، علاقائی اور جغرافیائی انفرادیت کے حصول اور اس کی بقا میں کسی نہ کسی طرح کامیاب بھی رہے ہیں۔
خارجہ پالیسی کی بہت سی متنوع جہتیں ہوتی ہیں جن کا دارومدار اندرونی و بیرونی محرکات پر ہوتا ہے اور ان کے ذریعے متعدد اہم اور متنوع مقاصد کا حصول ملحوظ خاطر ہوتا ہے۔ خارجہ پالیسی کے تین مختلف نظریات جن میں سمتوں کا تعین، منصوبوں کی انفرادیت اور مخصوص رویوں کی تشکیل کی کارروائیاں شامل ہیں، میں امتیاز کرنا ضروری ہے۔ ان تینوں میں ہر ایک اس منطقی ترتیب کی ایک کڑی کی حیثیت رکھتا ہے جہاں سفارت کار اپنے ملک کو دوسری دنیا کے واقعات اور صورت ہائے حالات سے منسلک رکھتے ہیں۔
اسی کیفیت میں سب سے پہلے متعلقہ سفارتی اہلکاروں کو بیرون ملک حالات کی روشنی میں اپنے قومی مقاصد کی تکمیل کے لیے سازگار حالات کی فراہمی کے لیے اپنی ضرورتوں کا تعین کرنا پڑتا ہے جو انھیں فیصلہ کرنے اور ممکنہ کارروائیوں کی صلاحیت عطا کرسکیں۔ مخصوص ادراک، تاریخی تجزیے سے اختیار کی گئی اقدار اور ایسے حالات سے واقفیت شامل ہے جن کی مدد سے اچانک پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال سے نمٹا جا سکے۔ اسی باعث وہ بین الاقوامی سیاست میں اپنے ملک کے افضل مقام کے تعین کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
بیرونی دنیا سے متعلق عوام کے بدلتے ہوئے جذبات و احساسات ایسے معاشرتی مداخل کو جنم دیتے ہیں جو صاف مشاہدے میں آتے ہیں اور اسی قدر اہم بھی۔ یہ بات یقینی ہے کہ کھلے سے کھلے سیاسی نظاموں میں بھی سفارت کار خالص عوامی رائے پر سو فیصد فیصلوں اور پروگراموں کو منحصر قرار نہیں دے سکتے بلکہ عام مشاہدے میں یہ صورت نظر آتی ہے کہ عوام کی رائے خارجہ پالیسی کی رہنمائی نہیں کرتی بلکہ اس کے پیچھے پیچھے چلتی ہے۔
گزشتہ چند دہائیوں میں کرائے گئے عوامی سروے میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ بہت سے معاشروں میں عوام کی خارجہ پالیسی اور اس کے تقاضوں سے متعلق کوئی واضح رائے نہیں ہوتی بلکہ اس کے برعکس یہ اس قدر مبہم اور غیر واضح بلکہ غیر موثر ہوتی ہے کہ اکثر سفارت کاروں کو پالیسی کی تدوین میں رائے عامہ کو نظرانداز کردینے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ درحقیقت ان سمت بندیوں کی روشنی میں ایسی غیر واضح رائے کو مشاہدہ کار ''موڈ'' قرار دیتے ہیں اور یہ کیفیت مدتوں غیر متبدل رہتی ہے۔ البتہ کبھی کبھی یہ بھی دیکھنے میں آجاتا ہے کہ یہ رائے زبردست اور موڑ لیتی ہے اور ہدف بدل دیتی ہے، ایسی کیفیت عموماً جنگ کے دنوں میں پیدا ہوتی ہے یا پھر بڑی طاقتوں کے بیلنس آف پاور میں اچانک تبدیلی کے نتیجے میں ان کی کوشش یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ کسی ملک کو عالمی معاملات میں کس قدر ملوث کیا جائے گا یا اسے نہتا چھوڑ دیا جائے گا۔
جب بھی ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے یا دوسرے الفاظ میں عوام اپنے وقتی ابال کے چنگل سے نکل پاتے ہیں تو انھیں سفارت کاروں کے فیصلوں اور سرگرمیوں کے نتائج سامنے نظر آنے لگتے ہیں، بعض سخت گیر آمرانہ معاشروں میں تو عوام کے موڈ کو خارجہ امور کے سلسلے میں کوئی اہمیت ہی نہیں دی جاتی، مگر جن معاشروں میں سیاسی نظام عوامی رائے کو احترام کی نظر سے دیکھتا ہے وہاں ایسی تبدیلی کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے۔ چنانچہ عوام کی رائے کے مطابق خارجہ امور کے معاملے میں نئی سمت بندی کے رجحانات سے متعلقہ متغیروں کا ایک اور منظر سامنے آتا ہے اور یہ اس قدر اہم ہے کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، دوسری صورت میں پالیسی ساز عموماً بند کمرے کی کارروائیوں پر یقین رکھتے ہیں اور عوامی رائے کو خاطر میں نہیں لاتے۔
محدود نظاموں کے پالیسی ساز جب چاہیں پالیسی میں الٹ پھیر کرسکتے ہیں مگر کھلے نظام میں ایسا ممکن نہیں اس نظام کے تحت پالیسی سازوں کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ اس امر پر نظر رکھیں کہ ایسی تبدیلیوں پر ان کی قوم کو اندرونی طور پر کیا قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
اس پس منظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے موجودہ خد و خال دیکھیں اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے بیانیے پر نظر ڈالیں، پھر شہباز حکومت کے موقف اور مقتدرہ قوتوں کی وضاحتوں کو سامنے رکھیں اور عوام کا ''موڈ'' پرکھیں تو یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ کل کی اپوزیشن اور آج کا حکمراں اتحاد شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ میں عمران خان کی جانب سے سفارتی مراسلے کی سازشی تھیوری کی تکرار کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں حالیہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں ''سازش'' کو مسترد کیا گیا ہے جب کہ عمران خان نے پشاور، کراچی اور لاہور کے جلسوں میں تواتر کے ساتھ اپنی حکومت کو بیرونی سازش کے تحت ہٹانے کے موقف کو بار بار دہرایا ہے۔
وہ مراسلے کی عدالت عظمیٰ کے معزز ججز سے اوپن انکوائری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ عمران خان بیرونی سازش کے بیانیے کو اس شد و مد کے ساتھ عوامی سطح پر دہرا رہے ہیں کہ اس کی گونج میں سرکاری بیانیہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے کے مصداق نظر آتا ہے جس کا اندازہ خان کے تینوں جلسوں میں عوامی پذیرائی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔