عجائب خانہ تحمل اور برداشت درخت سے سیکھیں پہلا حصہ
تقسیم اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے باوجود کراچی بظاہر ایک پر سکون شہر تھا
کراچی:
وہ بھی کیا زمانے تھے۔ تقسیم اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے باوجود کراچی بظاہر ایک پر سکون شہر تھا۔ جمہوریت کے نام پر وجود میں آنے والا ملک 1958 میں ہی ایک آمر کے قبضے میں آچکا تھا۔ قرارداد مقاصد تحریر ہوچکی تھی اور سب اس قرارداد کے زیر سایہ آچکے تھے۔
حسن ناصر کو شاہی قلعے میں تشدد کرکے ہلاک کیا جاچکا تھا اور کہا یہ گیا تھا کہ انھوں نے اپنے کمر بند سے لٹک کر خود کشی کر لی تھی۔ طلبہ تحریک کچلی جا چکی تھی ، فیض احمد فیض ، ظفر اللہ پوشنی اور بہت سے دوسرے دانشور اور ادیب پنڈی سازش کیس میں گرفتار کیے جاچکے تھے اور ان کے سروں پر پھانسی کا پھندا جھو ل رہا تھا۔
1963 کے ان ہی زمانوں میں میری شکیل عادل زادہ سے ملاقات ہوئی ، وہ مجھ سے چند برس بڑے ہیں اور 63 ء سے اب تک ہماری دوستی مسلسل اور مستحکم رہی ہے۔ ان ہی کے وسیلے سے میری غائبانہ ملاقات عرفان جاوید سے اور ان کی کتاب '' عجائب خانہ '' سے ہوئی۔ یہ کہنے کو ایک کتاب ہے لیکن درحقیقت معلومات کا ایک ایسا عجائب خانہ ہے کہ آپ پڑھتے جائیں اور سوچتے جائیں کہ اس شخص نے کیا کمالات دکھائے ہیں۔
یہ اپریل کا مہینہ ہے اور اسے پیڑ پودے بونے کا مہینہ کہا جاتا ہے لیکن اسی زمانے میں گھنے جنگلوں میں آگ لگ جاتی ہے اور سیکڑوں مربع میل پر جھومتے ہوئے جنگل آگ کا نوالہ بن جاتے ہیں۔ جنگل اور پیڑ پودے کرئہ عرض کے وہ پھیپھڑے ہیں جو انسان کو تازہ ہوا فراہم کرتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرلیتے ہیں۔
1338 کا زمانہ تھا جب فرانس کے بادشاہ چارلس پنجم ((V نے اپنے اہلکاروں سے کہا کہ وہ اس کے قصرکو جانے والے راستے کو پیڑوں سے سجائیں ، چنانچہ بادشاہ سلامت کے حکم کی دیر تھی اور ان کے قصر کے سامنے دو رویہ درختوں کی قطار لگ گئی جو آج بھی سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ ان صدیوں میں کیسے کیسے انقلاب گزرے ، دو عظیم جنگیں بھی ان پیڑوں کو چھو کر گزریں لیکن فرانس کے حکمرانوں نے خواہ وہ بادشاہ ہوں، آمر ہوں یا منتخب صدور ، سب ہی نے ان صدیوں پرانے پیڑوں کی حفاظت کو اپنا ایمان سمجھا۔
بات ہورہی تھی شکیل عادل زادہ اور عرفان جاوید کی، عرفان اپنی کتاب '' عجائب خانہ '' میں لکھتے ہیں کہ ''درخت آدمی ہیں، ہر درخت کی اپنی شخصیت ہوتی ہے، پرانے درختوں کی موٹی ، گہری بھوری ، سیاہی مائل چھال کے اوپر طرح طرح کے قدرتی چھلے اور نقش و نگار ہوتے ہیں ، جب ہوا چلے ، اس کے پتے چَھن کر آتی دھوپ کے گھاس پر مختلف نمونے بناتے ہیں۔ سرسراتی ہَوا میں اس کی شاخوں اور پتوں کا رخ ہو، تیز ہَوا میں لچکیلے درختوں کا جھکائو ہو ، بارش کے بعد گیلے سبز پتوں پر سے پانی کی ٹپکتی بوندیں ہوں یا شاخوں اور تنے کی زندہ لکڑی کی ناقابل ِبیان مہک ہو یا اس کے گھنے پن میں چھپے پرندوں کی چہکار ہو ، یہ درخت انسان کے سچے دوست ہوتے ہیں۔
میری زندگی کے بے شمار دن تنہائی میں درختوں کے ساتھ گزرے ہیں۔ فیری میڈوز کو جاتے ہوئے ، جہاں سے نانگا پربت کی چوٹی اپنے پورے شکوہ کے ساتھ چاندنی اور صاف راتوں میں نظر آتی ہے، راستے میں الپائن کے گھنے جنگل کے درختوں سے سالہا سال سے گرتے پتوں اور ٹہنیوں کا نرم و گداز رستہ ہو ، ہمالیہ کے سلسلہ ہائے کوہ کے مغرب میں نتھیا گلی کے کیل بیاڑ کے صنوبروں کے اشجار ، دیودار کے تازہ مسحور کن درخت ، چیڑ کے بلند وبالا پُروا ہوں یا دریائے چناب کنارے بیلے میں پھلائی، دیسی کیکر ، سنبل کے اشجار ہوں ، ان میں پرندوں کی رنگین چہکار، ہوا کی سرسراہٹ اور پراسرار خاموشی نے مجھے اپنا اسیر کیے رکھا ہے۔ یہ درخت بول نہیں سکتے ، محسوس ضرور کرتے ہیں۔ پس اِک نرم ، ہم درد دل اور ذرا سا صبر چاہیے، یہ اپنی زبان میں کلام بھی کرتے سنائی دیں گے۔
سنتے تو یہ بھی تھے کہ سو برس کی عمر کے بعد آدمی کے سیاہ بال آنا شروع ہوجاتے ہیں اور نئے دانت اُگ آتے ہیں اور سنتے تو یہ بھی تھے کہ اگر کسی درخت کو نقصان پہنچایا جائے تو وہ بد دعا دیتا ہے جو سیدھی عرش تک جاتی ہے۔ معصوم جانور تو بے زبان ہوتا ہے سو اسے گزند پہنچانا بہت گناہ ہے اور درخت نہ صرف بے زبان ہوتا ہے بلکہ اپنا دفاع بھی نہیں کرسکتا اور جگہ بھی نہیں چھوڑ سکتا سو اس کو تکلیف دینا نہ صرف گناہ عظیم ہے بلکہ اس مظلوم کی بددعا کئی درجے زیادہ پُر اثر ہوتی ہے۔
گھرکے سامنے صدر دروازے کے ساتھ مولسری کا درخت تھا جسے اُدھر ہندوستان میں مقدس مانا جاتا ہے۔ اس کا تذکرہ سنسکرت زبان کے ادب اور رامائن میں بھی ہے۔ مہاراج کرشن نے مولسری کے درخت کے نیچے بیٹھ کر بانسری بجاتے ہوئے ، داسیوں کو متاثر کیا تھا۔ یہ درخت موسمِ بہار میں خوب صورت سفید پھولوں سے سج جاتا تھا اور گرمیوں میں ناقابل ِ خوردنی پھل پیدا کرتا تھا۔
شام کے حوالے سے ادبی جریدے '' سویرا '' میں معروف مصور اُستاد اللہ بخش کے خاکے میں فاروق خالد نے کیا خوب لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص استاد کے پاس آیا اور شام کا منظر پینٹ کرنے کی فرمائش کی تو انھوں نے اُس شخص سے پوچھا '' کس شام کا منظر ؟دُکھ بھری شام کا یا سکھ بھری شام کا ؟ '' استاد فرماتے تھے کہ ہر شام منفرد ہوتی ہے اور کوئی شام ایسی بھی ہوتی ہے جو ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ نانا جی حد درجہ مذہبی تھے جو تہجد ادا کرتے اور فجر کی نماز کے بعد اپنے گھر کے سامنے کے باغ کے برابر برآمد ے میں قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ ان کے گھر میں سنگترے ، بارہ ماہی لیموں ، کچنار ، نیم ، شہتوت اور آم کے درخت تھے۔ داخلی گیٹ کے ساتھ کچنار کے درخت جن سے حاصل ہونے والی کچنار ، گوشت اور قیمے میں پکائی جاتی تھی۔
نانا جی کی عادت تھی کہ جب ابھی دھوپ اونچے درختوں کی نوکوں کو چھوڑ کر نیچے باغ اور پھول بوٹوں پر اُترنا شروع نہ ہوئی ہوتی تھی تو وہ رات کی بچی باسی اور سویرے پکی تازہ روٹیوں کے بے شمار چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے نیم کے درخت کے نیچے موڑھے پر بیٹھ کرآآآ'کی آواز لگانا شروع کردیا کرتے تھے۔ اس آواز کے ساتھ وہ اپنے سامنے روٹی کے ٹکڑے بکھیرنا شروع کردیتے تھے۔ چند ہی لمحوں میں بے شمار منتظر چڑیاں اور پرندے وہاں اُتر آتے اور سر جھکائے معصومیت سے اپنا کھانا چگنا شروع کردیتے تھے۔ نانا جی کے چہرے پر ہمیشہ ایک شفیق اور دل فریب مسکراہٹ آجایا کرتی تھی۔ انھوں نے یہ معمول اپنی موت کے دن تک جاری رکھا۔ ان کی وفات کے بعد بہت دنوں تک چڑیاں وہاں اترکر نانا جی کا انتظار کرتی رہیں۔
موجودہ گھر بنایا گیا تو کئی نئے پودے اور درخت لگائے گئے۔ والدہ سناتی ہیں کہ والدصاحب سے تو خاص شکایت نہ کی مگر جب بھی گزرتیں تو ان پودوں کی ناپسندیدگی سے دیکھتیں۔ والدہ نے چند روز بعد دیکھا کہ وہ پودے جو انھیں پسند تھے اپنی جگہ پھلتے پھولتے رہے جب کہ ناپسندیدہ پودے آہستہ آہستہ پر جھانے لگے۔ یہاں تک کہ بالآخر وہ خشک ہوکر چر مرا سے گئے اور مرجھا کر قریبا ختم ہوگئے ۔ یہ واقعہ برسوں پر محیط نہ تھا بلکہ چند ماہ کا قصہ تھا۔ یوں انھیں احساس ہوا کہ درخت اور پودے انسانی جذبات محسوس کرسکتے ہیں۔
ایک زمانے بعد میں نے یہ واقعہ معروف فلم ڈائریکٹر، ٹی وی پروڈیوسر اور ماہر فنون لطیفہ شعیب منصور صاحب کو سنایا۔ شعیب صاحب گوشہ نشین شخص ہیں اور قدیم درختوں سے محبت میں مبتلا ہیں۔ وہ کسی قدیم درخت کو دیکھ کر خیال کرتے ہیں کہ اس بزرگ درخت نے نہ جانے کتنے قصے کہانیاں اپنے سامنے بنتے بگڑتے دیکھے ہونگے اور کئی نسلوں کو وجود میں آتے اور بحرِعدم میں غرق ہوتے دیکھا ہوگا۔ اِس تصور سے ان کا دل نرم پڑجاتا ہے اور درخت سے اپنائیت اور محبت کا ایک غیر مرئی ہالہ انھیں اپنے بازو ئو ں میں بھر لیتا ہے۔
شعیب صاحب بتاتے ہیں کہ وہ نرسری سے گل مہر کے جڑواں پودے لے کے آئے۔ ایک پودا اپنی کھڑکی برابر لگا دیا اور دوسرا گھر کے بیرونی دروازے کے قریب۔ اس کے بعد وہ روزانہ اس پودے کو پُرشوق نگاہوں سے دیکھتے اور اس کے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے منتظر رہتے۔ جوں جوں پودا بڑھتا گیا ، اس نے کھڑکی کے رستے آنے والی روشنی کی چکا چوند کو اپنی ٹہنیوں اور پتوں سے روک لیا۔ گل مہر کے اس پودے پر خوب صورت پھول آئے اور ماحول کو دل آویز کر گئے۔ اصل بات کچھ اور ہے۔
شعیب صاحب گل مہر کے جڑواں پودے لائے تھے۔ وہ پودا جسے انھوں اپنی کھڑکی کے برابر لگایا اور پُر شوق اور منتظر نظروں سے اسے دیکھتے رہے خوب پھل پھول کراونچا لمبا ہوگیا۔اس کے برعکس وہ پودا جسے نظروں سے دور بیرونی گیٹ کے ساتھ لگایا گیا تھا اور اسے توجہ حاصل نہ تھی کمزور بدن اور چھوٹے قد کا رہ گیا۔ اب معاملہ ایسا ہوا کہ کھڑکی والا پودا ، اپنے جڑواں بھائی سے قد میں سہ گنا ہوگیا۔ عین ممکن ہے کہ اس کی دیگر نباتاتی وجوہ ہوں مگر شعیب صاحب سمجھتے ہیں کہ محبت بھری نظروں نے توانا پودے کی حوصلہ افزائی کی۔ دوسرا پودا ویسی توجہ نہ پا کر قدرتی قد و قامت سے زیادہ نہ بڑھ پایا۔(جاری ہے)