رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
کراچی جیسے شہر میں جہاں دہشت کا ڈیرا ہے اور انسانی جانوں کی ارزانی ہے وہاں فیسٹیول نے کیا رنگ جمایا۔۔۔
جسے ہم لٹریچر فیسٹیول کہتے ہیں اس نے تو دیکھتے دیکھتے عجب رنگ پکڑا ہے۔ اب کے جو ہم کراچی لٹریچر فیسٹیول میں گئے تو دیکھا کہ وہ گہما گہمی وہ جوش و خروش ہے کہ پچھلے برسوں میں ہم نے جو گہما گہمی دیکھی تھی وہ اس گہما گہمی کے مقابلہ میں ہیچ نظر آتی تھی۔ واپس لاہور آئے تو یہاں لاہور لٹریچر فیسٹیول کا پردہ اٹھنے کو تھا۔ وہاں ہم گئے تو اس فیسٹیول کو جو ابھی دوسرا ہی سال ہے مگر وہاں بھی کتنی گہما گہمی کتنی رونق' کتنی چمک دمک تھی۔
اور اب سن رہے ہیں کہ ابھی کچھ اور شہروں میں اس فیسٹیول کی بہار کی آمد آمد ہے او یو پی کراچی میں اپنا لٹریچر فیسٹیول منعقد کرنے کے بعد اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہے۔ اب وہاں ادب کی بہار امنڈے گی۔ مگر شنید ہے کہ اس سے پہلے بھاولپور میں اسی رنگ کے فیسٹیول کی تیاریاں ہیں۔
آخر یہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں۔ یاروں کی عقل حیران ہے کہ یہ جو ادب کے نام پر ابال سا آیا ہے یہ کیسے آیا۔اس کی معنویت کیا ہے۔ہماری دانست میں اس کی سیدھی سادھی توجیہ تو وہی ہے جو غالب نے بتائی ہے کہ؎
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
پنجاب کے ارباب بست و کشاد نے بسنت بہار کی چڑھتی ندی پر بند باندھ کر دیکھ لیا۔ کراچی میں لاہور کے بسنت میلہ سے بڑھ کر ادب کا میلہ اپنا زور دکھا رہا ہے۔ مگر صرف اتنی بات نہیں ہے۔ اس نئے ابال کے کچھ پہلو اور بھی ہیں۔
وہ کیا پہلو ہیں۔ ارے انتہا پسندی کی بھی تو اس دیار میں انتہا ہوگئی تھی۔ بات پر واں زبان کٹتی ہے۔ بچیاں اگر اسکول کی طرف جاتی نظر آئیں تو اس سے بھی انتہا پسندوں کو کفر کی بو آتی تھی۔ جلا دو ان اسکولوں کو۔ اس سوچ نے ایسا زور باندھا کہ ایرا غیرا نتھو خیرا سب اسی سوچ کی رو میں بہتے نظر آتے تھے۔ مستثنیات سے قطع نظر ملک کی سیاسی پارٹیوں کی بھی اچھی خاصی کایا کلپ ہو چکی تھی اور جہاں بچیوں کے اسکول میں پڑھنے کی سرگرمی عتاب کی زد میں آجائے وہاں ادب' فنون لطیفہ' علم و دانش کے ادارے کیسے پنپیں گے۔ لگتا تھا کہ بس اب اس دیار میں یہی سوچ اپنے گل کھلائے گی۔
ایسی فضا میں کراچی میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے کتابیں چھاپتے چھاپتے ایک نئے رنگ کا گل کھلایا۔ لٹریچر فیسٹیول کے نام سے ایک تقریب کا آغاز ہوا۔ اور اس رنگ سے کہ وہ ساری علمی سرگرمیاں جو Humanities کے ذیل میں آتی ہیں ادب کی آغوش میں آ کر اپنے اپنے گل پھول کھلانے لگیں۔ اور تب بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی تھی تو اب آ رہی ہے۔ اور اب ہم حیران ہو رہے ہیں کہ انسانیت کش عمل کے عین بیچ یہ انسانیت کا چراغ کس طرح ٹمٹمانے لگا۔ اور کتنی تیزی سے اسے مقبولیت حاصل ہوئی۔ کتنی جلدی چراغ سے چراغ جلا۔ کس طرح یہ لو دھیمی سے تیز ہوئی کہ اب اس نے ایک اچھے بھلے تہذیبی محاذ کی شکل اختیار کر لی ہے۔
ہاں ابھی ہم نے لاہور لٹریچر فیسٹیول میں قدم ہی رکھا تھا۔ اردگرد اتنی چہل پہل دیکھ کر ہم دنگ رہ گئے۔ حیران کہ اچھا یہ وہی آرٹ کونسل ہے جہاں ہم کب سے آ جا رہے ہیں۔ یہاں فضا میں اتنی کشادگی' اتنی گہما گہمی' اس طرح کی رنگا رنگی کب دیکھی تھی۔ بس اسی عالم میں تھے کہ کراچی سے آئی ہوئی فہمیدہ ریاض کا روئے زیبا ہمیں نظر آیا۔ انھیں دیکھ کر جی باغ باغ ہو گیا۔ مگر اس بی بی کو کیا ہو گیا۔ بہت پریشان نظر آ رہی تھیں ''انتظار صاحب' اب کیا ہو گا۔ یہ تمہارا ادب ودب سب رکھا رہ جائے گا۔ دیکھ رہے ہو کہ کیسے کیسے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ یہاں اب اور ہی گل کھلے گا۔''
ہم نے حیران ہو کر انھیں دیکھا اور کہا کہ ''بی بی تم تو ترقی پسند ہو۔ اور ترقی پسند ہمیشہ ہم پر یہ جتاتے رہے ہیں کہ سیاسی سماجی معاملات کو جتنا ہم سمجھتے ہیں اس کے مقابلے میں یہ دوسرے دانشور اور ادیب خاک نہیں سمجھتے۔ مگر اس وقت تو تم ہم سے بڑھ کر رجعت پسند نظر آ رہی ہو۔''
بولیں کہ ''میں ابھی ایسی شخصیتوں سے مل کر آ رہی ہوں جنہوں نے حالات کا تجزیہ کر کے بتایا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔''
ہم نے کہا کہ ''ان کے تجزیئے برحق مگر یہ جو اتنے چھوٹے بڑے لڑکے لڑکیاں' غول کے غول یہاں نظر آ رہے ہیں۔ یہاں جو سوالات اٹھے ہوں گے اور جن سے بھی ہمیں تمہیں پالا پڑنا ہے ان کے جو اثرات فضا میں نظر آ رہے ہیں وہ تم سے کچھ نہیں کہتے۔''
خیر اس کے بعد جب انھوں نے اجلاس میں قدم رکھا تو اپنے خاص رنگ میں چہکنے لگیں۔
پھر ہم نے مختلف نشستوں میں جو رنگ دیکھا اور نوجوانوں کو پڑھے لکھے نوجوانوں کو لڑکیوں کو سوالات کرتے سنا وہ تو کچھ اور ہی غمازی کر رہے تھے۔ اس صورت حال سے بالکل الگ جس سے فہمیدہ ریاض خوفزدہ نظر آ رہی تھیں۔ تب ہمیں اقبال کا ایک شعر یاد آیا؎
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
بات یہ ہے کہ زمانہ سدا ایک سا تو نہیں رہتا۔ دیکھتے دیکھتے وہ اپنا رنگ بدل لیتا ہے۔ سمندر میں سدا مدوجزر کا کھیل جاری رہتا ہے۔ چڑھاؤ بہت زور میں آتا ہے۔ جیسے سب کچھ بہہ جائے گا۔ مگر پھر اسی طرح اتار بھی آتا ہے۔
ہاں تو ذکر اس نئے ہنگامہ کا ہے جسے لٹریچر فیسٹیول کہتے ہیں۔ دیکھئے کراچی جیسے شہر میں جہاں دہشت کا ڈیرا ہے اور انسانی جانوں کی ارزانی ہے وہاں فیسٹیول نے کیا رنگ جمایا کہ بچے بڑے، عورت، مرد' پڑھی لکھی لڑکیاں بالیاں قطار اندر قطار چلی آ رہی ہیں۔ انھیں دیکھ کر تو لگتا ہے کہ شہر میں بہت امی جمی ہے۔ اور اب لاہور میں اسی قسم کی رونق نظر آ رہی تھی۔ شاید وقت بھی رنگ بدلنے کی چغلی کھا رہا ہے۔
ہاں کوئی کوئی یہ شکایت کرتا نظر آ رہا ہے کہ ارے ہم تو اردو شاعری کے دلدادہ ہیں۔ مگر یہاں تو اردو بس برائے نام ہے۔ ہم نے اسے سمجھایا کہ کراچی فیسٹیول کی پہلے یہی صورت تھی۔ رفتہ رفتہ انھیں احساس ہوا کہ خالی انگریزی سے دال نہیں گلے گی۔ تھوڑا نمک اردو کا بھی ہنڈیا میں پڑنا چاہیے جب اردو آ گئی تو پھر فیسٹیول کراچی میں برپا ہوتے ہوئے سندھی سے کیسے آنکھیں چراتا۔ پھر پاکستان کی دوسری زبانوں نے بھی یہاں اپنا رنگ جمایا۔ اور اس مرتبہ تو ہم نے دیکھا کہ پہلے سے کہیں بڑھ کر فیسٹیول میں لسانی رنگا رنگی ہے۔ تو اب اس فیسٹیول کا یہ پہلو بھی ہے کہ اس سے قومی یکجہتی کو بھی جلا مل رہی ہے۔ لاہور لٹریچر فیسٹیول والے اور والیاں کب تک اس حقیقت سے اغماض برتیں گی۔ اور لاہور شہر تو ویسے بھی ہماری نئی شاعری کا گہوارہ چلا آتا ہے۔ اقبال سے فیض اور راشد تک اور فیض اور راشد سے ناصر کاظمی اور منیر نیازی تک شاعری کے کیسے کیسے جنات نے جنم لیا ہے۔ تو تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔