ڈسٹرکٹ جیل ملیر کے پھول
ڈسٹرکٹ جیل ملیر، کراچی کی کیاری کے پھول جب شریک حیات کو دیے تو وہ حیرانی سے کہنے لگی۔۔۔
KARACHI:
ویلنٹائن ڈے پر شریک حیات کو سرخ پھول نہ دے سکا۔ پھر 15 فروری کو ڈسٹرکٹ جیل ملیر سے لائے ہوئے پھول بھی نہ دے سکا تو 17 فروری کو دوبارہ جیل کی کیاری سے گلاب کے خوب صورت پھولوں کو ٹہنی سے جدا کرتے وقت معذرت کی کہ مجھے اپنی بیوی سے محبت ہے۔ جیل کی قید سے آزاد دنیا میں جا کر میری محبت کو مہکتے ہوئے اپنے قریب کر لینا۔ ڈسٹرکٹ جیل ملیر کی ایک کیاری سے پھول توڑنا، بذات خود ''جوئے شیر'' لانے کے مصداق ہے۔ لیکن موقع ایسا تھا کہ میرے نزدیک اس سے خوب صورت تحفہ کوئی اور نہیں تھا۔ اپنی زندگی کی خزاں بہاروں میں شریک حیات کے ساتھ 24 سالہ زندگی کا یہ پہلا تحفہ تھا۔
شاید اس طرح کی داستانیں قارئین کے لیے حیرت نہ ہوں، لیکن قیدیوں کی زندگی میں بے شمار ایسے واقعات ہیں جنھیں محسوس کیا جائے تو دل میں دکھ کی کسک ہر ذی حس ضرور محسوس کرے گا۔
پیار و محبت کے نظارے فلموں، ڈراموں میں تو سب دیکھتے ہیں لیکن جیل میں امیر قیدیوں کے پیار و محبت کے نظارے دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ پیار و محبت میں سب سے زیادہ قیدیوں کی جانب سے اپنی شریک حیات کے ساتھ والہانہ انداز سب سے بڑا دل کش نظارہ ہوتا ہے۔
قیدی جب شیشے کی دیوار، ملاقات روم میں اپنی شریک حیات سے ملتا ہے تو اس کا خوشی سے چمکتا دمکتا چہرہ یاس کی ایک تصویر بھی ہوتا ہے جہاں وہ اس سے قریب ہونے کے باوجود بہت ''دور'' ہوتا ہے۔
یہاں کسی ملزم کے قصور وار یا بے قصور ہونے کا کوئی سوال نہیں ہے بلکہ یہ ایک انسانی جذبات سے مزین معاملات ہیں۔ جن سے قیدی نبردآزما ہوتے رہتے ہیں۔ ان انسانی جذبات سے قانون کو کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ وہ کسی کی محبت پر اندھا بن جاتا ہے اور اس قانون کے نزدیک جذبات سے زیادہ کتاب میں لکھی ہوئی وہ سطریں ہوتی ہیں جن میں کسی بھی انسان کو اسیر بنانے کے عوامل درج ہوتے ہیں۔ ان دفعات پر گرفتار ہونے والوں کی سچائی کا پیمانہ صرف عدالتوں کے پاس ہوتا ہے اور عدالتیں بھی انسانی جذبات سے عاری ہوتی ہیں۔ اس لیے کسی قیدی کو تاریخ پہ تاریخ دی جا رہی ہے اور اس کے مقدمے میں کوئی پیش رفت نہیں ہے تو عدالتوں کو اس سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ جیل میں قید ہونے والا کتنا گناہ گار اور کتنا بے گناہ ہے اور اسے انصاف کی کتنی ضرورت ہے۔
جیل میں جب قیدی PCO کی دو منٹ کی کال سے اپنی حیات کی شراکت دار سے خیریت پوچھتا ہے تو وہ اپنی نگاہوں کی نمی کو دوسرے قیدیوں سے چھپانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ مرد ہو کر رونا ویسے بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا، اور پھر اگر وہ بدقسمتی سے قیدی ہو تو اس کا مذاق بن جانا اس کے لیے سوہان روح بن سکتا ہے۔ بیرک کے تمام قیدی اس کا تماشہ بنا دیتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ جیل ملیر، کراچی کی کیاری کے پھول جب شریک حیات کو دیے تو وہ حیرانی سے کہنے لگی کہ ''کیا جیل میں باغات ہیں؟'' میں ہنس پڑا کہ جیل ایسی ہے، جیسا گاؤں۔ بس یہاں آبشار نہیں ہے۔ ورنہ ہرے کھلیان کھیت، کچے پکے راستے، زمین سے اگلتی سبزیاں، ہریالی میں کام کرتے قیدی، غرض منظر ایسا جیسا گاؤں میں گھوم رہے ہوں۔ بس فرق اتنا ہے کہ یہاں انسان کی مرضی کے بغیر اسے قید کر کے اس سے اس کی آزادی سلب کر لی جاتی ہے۔ بیرونی دنیا کے تاثر کے برعکس جیل عملے کا رویہ ان قیدیوں کے ساتھ سخت ہوتا ہے جو جیل کے نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ عموماً پڑھے لکھے اور متوازن مزاج قیدیوں کے ساتھ جیل کے عملے کا رویہ معاندانہ ہی ہوتا ہے۔ جیل میں ہر قسم کے قیدی ہوتے ہیں۔ کوئی کسی کو مجبور کر کے اسے اپنے راستے پر نہیں ڈال سکتا۔
یہ کہنا ایک الگ داستان ہے کہ جیل میں کتنی کرپشن ہے اور جیل جرائم کی یونیورسٹی کیوں کہلائی جاتی ہے۔ یہاں موضوع بحث، قید میں جکڑے ایسے اسیران کے جذبات کو پیش کرنا ہے، جن کی ازدواجی زندگیاں گھن کی طرح پس رہی ہوتی ہیں۔ جیل میں انسان اپنی غلطیوں کو بھی میزان میں رکھتا ہے اور اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے اپنی آزاد زندگی میں کتنی بے انصافیاں کی ہیں۔
مجھے اپنا ذاتی طور پر نہ بھلانے والا واقعہ بھلائے نہ بھول سکتا ہے کہ ایک سال قبل دہشت گردی کے ایک واقعے میں مجھے گولیاں مار کر شدید زخمی کر دیا گیا۔ میں نے زندگی سے موت اور موت سے زندگی کی طرف لوٹنے پر ذاتی احساسات پر مبنی ایک کالم ''شیشہ بارگراں ہے زندگی'' تحریر کیا (جو ایک مقامی اخبار میں شایع ہوا) اس میں اپنی والدہ کا تذکرہ کرتے ہوئے بڑے جذباتی انداز میں اپنے ساتھیوں کی بے وفائی اور وفا کے تذکرے میں شریک حیات کو دانستہ نظر انداز کر دیا کہ وہ میرے دل کو بخوبی سمجھتی ہے لیکن وہ کالم اس کے دل پر بڑی شدت کے ساتھ لگا کہ تمہارے سیکڑوں الفاظ میں میرے اور اپنے بچوں کے لیے چند لفظ بھی نہیں تھے۔ عموماً مجھے اس پر طعنے ملتے اور میں مجرمانہ طور پر سر جھکا لیتا۔
مجھے اپنے ان تکلیف دہ دنوں میں اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ میں نے محبت و پیار کے دریا میں اسے اکیلا ہی چھوڑ دیا تھا۔ میں نے جائز وقت اور حق سے اسے محروم رکھا۔ سیاست، صحافت میں اتنا گم ہوا کہ موبائل فون اور انٹرنیٹ ہی جیسے میری زندگی کی شریک بن گئے ہوں۔ 24 سال بعد ملیر جیل سے گلاب کے ایک پھول میں میری محبت کا ہر رنگ بسا ہوا ہے، میں اس کی لطافت و گداز پن کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنی شریک حیات کی نظروں سے ضرور دور ہوں گا لیکن میری نگاہوں میں اس کا چہرہ ہر وقت رہتا ہے۔ میں چپکے چپکے اس سے باتیں کرتا ہوں۔ میں اس کی آنکھوں کی نمی کو محسوس کرتا ہوں اس کی پیشانی پر خال کو اپنے دل پر محسوس کرتا ہوں۔
میں اس سے جدا ہوں، میرے جیسے لاکھوں انسان اپنے گھروں سے دور زمانے کی قید میں ہیں۔ لیکن کاش کوئی اس دکھ و درد کو سمجھے کہ اس کے لیے اس کی زندگی کا سب سے بڑا سکون اس کا گھر ہوتا ہے اس کی گھر والی اور اس کے بچے ہوتے ہیں۔
میں ڈسٹرکٹ جیل ملیر کی کیاری سے ''چوری'' کیے جانے والے پھول کا مشکور ہوں کہ اس نے محبت کے اصل معنوں سے مجھے روشناس کروایا۔ مجھے احساس دلایا کہ قیمت تحفے کی نہیں بلکہ جذبات اور احساسات کی ہوتی ہے۔ میں آج اپنے بچوں کے لیے تڑپ رہا ہوں اور ان کی تکالیف کو دل سے محسوس کر رہا ہوں تو اس کی وجہ صرف اتنی ہے کہ میں نے اپنا محاسبہ کیا اور حقیقت کو پالیا۔ مجھے تم سے محبت ہے!