امن کے فروغ کیلئے مذہبی ہم آہنگی ناگزیر مل کر کام کرنا ہوگا

بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ


بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: ایکسپریس

لاہور: کسی میں معاشرے کی ترقی کیلئے وہاں رہنے والے تمام مذاہب، مسالک، رنگ و نسل کے لوگوں میں اخوت، پیار، محبت، بھائی چارہ، ہم آہنگی، رواداری اور برادشت بہت ضروری ہے۔

وطن عزیز پاکستان میں بھی مختلف مذاہب، مسالک اور رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے شہری بستے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور اخوت سے رہتے ہیں۔ ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے ''بین المذاہب ہم آہنگی'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

محمد یوسف (ڈپٹی ڈائریکٹر انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)

س: بین المذاہب ہم آہنگی امن کے لیے کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟

ج: بین المذاہب ہم آہنگی امن کے لئے بھر پور کردار ادا کرسکتی ہے اس طرح مختلف عقائد کے لوگ تنوع اور اختلاف کی خوبصورتی کو سمجھ سکیں گے اور مختلف ہونے کے باوجود محبت اور مساوات کو فروغ دیں گے۔

س: نوجوانوں کا بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کیلئے کیا کردار ہے؟

ج: پاکستان کی آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ نوجوان کسی بھی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہے۔ نوجوان جذبات سے بھرپو ر ہوتے ہیں اس لئے ان میں کام کی توانائی بھی زیادہ ہوتی ہے نوجوان اگر محبت اور ایثار سے سرشار ہوں گے۔ معاشرے میں برداشت اور رواداری بڑھے گی نوجوان چونکہ نئی سوچ سے وابستہ ہوتے ہیں اس لئے ان میں قبولیت کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، نوجوانواں کا بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لئے بہت اہم کردار ہے۔

س: ایسے کون سے عوامل ہیں جو تشدد اور انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہیں؟

ج: نفرت اور عدم برداشت دو بنیادی عوامل ہیں جو تشدد اور انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہیں۔

س: عطیات کو کیسے محفوظ کیا جا سکتا ہے؟

ج: ہمیں اپنے عطیات تحقیق کر کے دینے چاہیے کیونکہ انتہا پسند گروپ ہمارے عطیات کا غلط استعمال کرتے ہیں اور انہیں دہشت گردی جیسے گھنائونے مقاصد کے لئے استعمال کرسکتے ہیں ہم اپنے عطیات محفوظ ہاتھوں میں دے کر ہی انہیں محفوظ بنا سکتے ہیں۔

س: رواداری کو فروغ دینے والے عوامل کون سے ہیں؟

ج: محبت، مساوات،برداشت اور امن پسندی جیسے عوامل رواداری کو معاشرے میں فروغ دینے میں بھر پور کردار ادا کر سکتے ہیں۔

س: بین المذاہب ہم آہنگی کونسلز کی چیدہ چیدہ ذمہ داریاں کیا ہیں؟

ج: پاکستان کو کئی سالوں سے عقیدے کی بنیاد پر مختلف مسائل کا سامنا ہے جس سے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا ہے۔ اس مقصد کے لیے وزارت برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب نے بین المذاہب ہم آہنگی سے متعلق ایک پالیسی تیار کی ہے۔ اس پالیسی کے مطابق بین المذاہب ہم آہنگی کونسلز تمام مذاہب اور فرقوں کی نمائندگی پر مشتمل ہوں گی جو ملتان کی پانچ یونین کونسلز اور ایک ضلعی سطح پر موجود ہوں گی۔ جن کی درج ذیل ذمہ داریاں ہوں گی۔

٭ضلع ملتان میں فوکل پرسن جنوبی پنجاب وزارت انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب کے دفتر میں ماہانہ اجلاس منعقد کریں گے اور ضلعی انتظامیہ اور وزارت انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب کو پیشرفت شیئر کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔

٭معاشرے کے مختلف مذاہب اور فرقوں کے درمیان مکالمے، سیمینارز اور امن مشاعروں کے ذریعے ضلع میں مختلف عقائد کے لوگوں کے درمیان باہمی افہام و تفہیم اور احترام کو فروغ دینے کے ذمہ دار ہوں گے۔

٭علاقے میں تمام مذاہب کی طرف سے منعقد ہونے والے مذہبی تہواروں میں شرکت اور معاشرے میں پرامن ماحول کے لیے بین المذاہب تنازعات کو حل کرنے کی اپنا کردار ادا کریں گے۔

٭مذہبی اختلافات کو ختم کرنے کے لیے باقاعدگی سے میٹنگز کریں گے اور نفرت پر مبنی تقاریر کا سدباب کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔

٭یونین کونسل کی سطح پر تعلیمی اداروں میں امن واک، تہوار، آرٹ، شاعری، کھیلوں کے مقابلے جیسی سرگرمیوں کا اہتمام کریں گے۔

٭کونسل کے اراکین علاقے میں تمام عقائد/فرقوں کے ذریعے منعقد ہونے والے پروگراموں میں شرکت کے ذمہ دار ہوں گے۔

٭مختلف مذہبی تقریبات اور تہواروں کے دوران پریس بریفنگ/کانفرنس کا انعقاد کریں گے جو عدم برداشت اور نفرت انگیز تقاریر کے مسئلے کو حل کرنے اور سماجی ہم آہنگی، قبولیت اور امن کو فروغ دینے میں مدد کرے گی۔

٭ضلعی سطح پر اپنی پیش رفت اور تجربات کا اشتراک کرنے کے لیے ذمہ دار ہوں گے۔

٭امن کے فروغ، قبولیت اور سماجی ہم آہنگی سے متعلق کامیابی کی کہانیاں اور کیس اسٹڈیز کو مقامی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ بڑے پیمانے پر پھیلانے کے ذمہ دار ہوں گے۔

٭ضلعی سطح کی بین المذاہب ہم آہنگی کونسل یونین کونسل سطح کی کونسلوں کو سہولت فراہم کرنے کی ذمہ دار ہوگی۔

٭ضلعی سطح کی بین المذاہب ہم آہنگی کونسل کو تمام مذہبی سرگرمیوں کے تہواروں (جیسے کرسمس ڈے اور عید میلاد النبیؐ) منانے میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں گے۔

٭ضلعی سطح کی بین المذاہب ہم آہنگی کونسل کے ممبران ضلع ملتان میں تمام مذہبی تنظیموں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔

٭بین المذاہب ہم آہنگی کونسلز ضلع میں کسی بھی سنگین تنازعہ پر سرکاری محکموں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی ذمہ دار ہوں گی۔

٭ضلعی سطح کی بین المذاہب ہم آہنگی کونسل ضلع میں مذہبی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ذمہ دار ہوگی اور اسے متعلقہ حکام کے نوٹس میں بھی لایا جائے گا۔

٭دینی مدارس اور حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کرینگے معاشرے کو پرامن بنانے کیلئے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں گے۔

٭معاشرے میں امن ، رواداری، بقائے باہمی کے فروغ اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے میڈیا، سول سوسائٹی، انجمنوں، سرکاری حکام اور عام لوگوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کریں گے۔

مفتی سیدعاشق حسین (ممبر متحدہ علماء بورڈ)

س: بین المذاہب ہم آہنگی کیوں ضروری ہے؟

ج: بین المذاہب وبین المسالک ہم آہنگی ایسے معاشرے میں ایک اہم نظریہ ہے جہاں متعدد مذاہب و مسالک موجود ہوں۔اس دینا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے مذہبی ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی سے ہم ایک خوشحال اور پر امن معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔ بین المذاہب ہم آہنگی معاشرے میں محبت اور روادری کو فروغ دینے کے لئے اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

س: منفی مواد کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟

ج: مکالمے اور تحقیق کے کلچر کو فروغ دے کر ہم منفی مواد کی روک تھام ممکن بنا سکتے ہیں۔ عام شہری نفرت انگیز کے شعوری لاعلمی اختیار کرنے سے چند طبقات اپنے مفادات کا بیانیہ پھیلانے میں کامیاب ہورہے ہیں۔اگر عام افراد باشعور ہوں گے تو نفرت پر مبنی بیانیہ نہیں پھیل سکے گا۔

س: جامع اور روادار تعلیمی بیانیے کا فروغ کیسے ممکن ہے؟

ج: رواداری سے مراد وہ صلاحیت ہے جہاں ہر کوئی ایک دوسرے کو قبول کرتا ہے اور مختلف رائے کو برداشت کر تاہے۔ یہ دراصل دوسروں کو ان کے اصولوں، عقائد اور اقدار کے ساتھ جینے دیتا ہے چاہے یہ ہماری سمجھ کے مطابق نہ ہو۔رواداری تعلیمی بیانیہ کو دو طرفہ صلاحیت کی ضرورت ہے کیونکہ یہ معاشرے کے مختلف طبقات کو اختلافات کم کرنے اور پرامن طور پر ایک ساتھ رہنے کے قابل بناتا ہے۔

س: بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے حکومتی پالیسیاں کیا ہیں؟

ج: پاکستانی حکومت قیام پاکستان سے ہی بین المذاہب ہم آہنگی کی اہمیت سے آگاہ ہے۔ قائداعظمؒ نے اپنے ایک تاریخ ساز خطاب میں اقلیتوں کے حقوق پر بہت زور دیا۔ اگر حکومتی پالیسیوں کی بات کی جائے تو اب بھی حکومت بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے بھرپور کردار ادا کررہی ہے۔ سکھ برادری کے لئے کرتار پور راہ داری بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک بڑی مثال ہے۔ اس کے علاوہ نیشنل ایکشن پلان میں بھی بین المذاہب ہم آہنگی پر بہت زور دیا گیا ہے۔

س: کیا معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی اور اختلافات کے حوالے سے کھل کر گفتگو کی جا سکتی ہے؟

ج: موضوعاتی حساسیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی اور اختلافات پہ گفتگو کرناممکن ہے۔

س: شدت پسندی کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟

ج: برداشت اور رواداری کو فروغ دے کر ہم شدت پسندی کو کم کر سکتے ہیں۔ آج ایک دوسرے کے نظریات اور عقائد کو لے کر ہمارے ہاں برداشت ختم ہوتی جارہی ہے جس سے شدت پسندی بڑھتی جا رہی ہے ۔

س: اقلیتوں کے حقوق کی ترویج کیسے کی جا سکتی ہے؟

ج: ہم ملک میں اقلیتوں کو محفوظ بنا کراور ان کے لیے مفید قانونی سازی اور اس پر عملدرآمد کرا کے اقلیتوں کے حقوق کے ترویج کر سکتے ہیں ۔

علامہ عبدالماجد وٹو (ضلعی رکن بین المذاہب ہم آہنگی کونسل ملتان )

س: بین المذاہب ہم آہنگی کا تصور کیا ہے؟

ج: بین المذاہب ہم آہنگی دنیا کے تمام مذاہب ،عقائد اور ان کے پیروکاروں کے درمیان ہم آہنگی ، قبولیت اور رواداری کا پیغام پھیلانا ہے۔یہ وہ عمل ہے جہاں تمام افراد کو انسان کے طور پر قبول کیا جاتا ہے اور مذہب کو ان کا ذاتی معاملہ سمجھا جاتا ہے۔

س: بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے سول سوسائٹی کا کیا کردار ہے؟

ج: بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے سول سوسائٹی کا بڑا اہم کردار ہے۔ سول سوسائٹی کی حیثیت سے ہمیں برداشت کو فروغ دینا چاہیے اور نفرت آمیز رویوں کی مذمت کرنی چاہیے اور ایک دوسرے کی خوشیوں میں شامل ہونا چاہیے تاکہ معاشرے میں امن قائم ہو سکے۔

س: بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے اسمبلی میں آنے والی مشکلات کیا ہوتی ہیں؟

ج: ہمارے منتخب نمائندگان بین المذاہب ہم آہنگی کی حساسیت سے ناواقفیت کی بنا پر اس سلسلے میں ہونے والی قانون سازی میں کوئی خاص حصہ نہیں ڈال سکتے بلکہ اسمبلی میں موجود چندنمائندگان قانون سازی کے لئے اس کی مخالفت کرتے ہیں جس سے قانون سازی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے ۔

س: قانون سازی میں اتنی مشکلات کیوں آتی ہیں؟

ج: قانون سازی کے لئے ماحول سازی کی کمی مشکل پیدا کرتی ہے۔ ہم اکثر اس کی اہمیت پر کوئی مکالمہ نہیں کرتے اور چند قانون ساز افراد بھی قانون سازی کے لئے اپنا مثبت کردار ادا نہیں کرتے۔

س: بین المذاہب ہم آہنگی کو ہمارے معاشرے میں کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے؟

ج: بین المذاہب ہم آہنگی کا فروغ ہمارے معاشرے میں محبت ، مساوات، روادری اور برادشت جیسے جذبات کو فروغ دے کر ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کو دل سے قبول کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کے تہواروں میں شمولیت اختیار کرنی چاہیے ۔

س: بین المذاہب ہم آہنگی کو ہمارے معاشرے میں کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے؟

ج: برابری کی بنیاد پر تمام عقائد کو تحفظ فراہم کر کے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیا جاسکتا ہے ۔

س: بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے مذہبی اداروں کا کردار؟

ج: مذہبی ادارے بشمول عبادت گاہیں بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لئے کردار ادا کرتی ہیں یہ مذہبی ادارے درسگاہیں ہیں جہاں سے بچے سیکھتے ہیں ۔

گل نسرین (رکن بین المذاہب ہم آہنگی کونسل ملتان)

س: پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کو کیا مسائل درپیش ہیں؟

ج: بنیاد پرستی اور انتہا پسندی پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہے جو نفرت اور حقارت انگیز رویوں کو فروغ دیتا ہے ۔

س: بین المذاہب ہم آہنگی کو کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے؟

ج: ایک دوسرے کے عقائد کو خوش دلی سے قبول کر کے اور ایک دوسرے کے مذہبی عقائد کو مساوی احترام دے کر بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

س: بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے سوشل میڈیا کا کردارکیا ہے؟

ج: موجودہ وقت میں چونکہ سوشل میڈیا بے حد مقبول ہے اور سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اس لئے سوشل میڈیا بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے بھر پور کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگر سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے سوشل میڈیا پر بات چیت کا آغاز کریں تو یقینا ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔

س: منفی مواد کی روک تھام کے لیے ایک مہذب شہری کا کیا کردار ہے؟

ج: ایک مہذب شہری کی حیثیت سے ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر ہمیں کہیں بھی اندیشہ ہو کہ یہاں منفی مواد شائع کیا جا رہا ہے جس سے نفرت و انتشار پھیلے گا تو ہمیں متعلقہ اداروں کو آگاہ کرنا چاہیے تاکہ اس پر ایکشن لیاجا سکے۔

س: بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ میں میڈیا کا کردار؟

ج: میڈیا ایک ایسا ٹول ہے جس کے ذریعے ہم بین المذاہب ہم آہنگی کا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں اور میڈیا کے ذریعے سے ہی ہم زیادہ بہتر انداز میں یہ حساسیت پیدا کر سکتے ہیں ۔

س: بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ میں خواتین کا کیا کردار ہے؟

ج: خواتین معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں کیونکہ پاکستانی آبادی کا سب سے اہم حصہ خواتین پر مشتمل ہے اور خواتین مختلف شعبہ جات میں اپنا بھرپورکردار ادا کر رہی ہیں۔ اسی طرح خواتین بین المذاہب ہم آہنگی پربھی اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں اور مزید کریں گی جس سے بین المذاہب ہم آہنگی پیدا ہو گی ۔ اس طرح خواتین مختلف شعبوں میں کام کرتے ہوئے بین المذاہب ہم آہنگی کا پیغام بہتر طریقے سے پہنچا سکتی ہیں۔ جیسا کہ جو خواتین ٹیچرز ہیں وہ اپنے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں بین المذاہب ہم آہنگی کا پیغام بہت احسن سے طریقے سے پہنچا سکتی ہیں اور جو خواتین مختلف اداروں میں کام کرتی ہیں وہ اپنے اداروں میں بین المذاہب ہم آہنگی پر بہت اچھے طریقے سے بات کر سکتی ہیں۔ اس طرح خواتین اپنے گھروں میں بھی بین المذاہب ہم آہنگی کی بات چیت کریں گی جس سے معاشرے میں روداری، مساوات اور محبت جیسے اوصاف پیدا ہوں گے۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے خواتین کا کردار بہت اہم ہے۔ یہ کہنا کہ خواتین بین المذاہب ہم آہنگی پر جتنے اچھے طریقے سے بات کر سکتی ہیں اورکوئی بھی نہیں کر سکتا یہ غلط نہیں ہو گا کیونکہ خواتین ہر شعبے میں اپنا بھر پور طریقے سے کردار ادا کر رہی ہیں۔

میاں شاہد ندیم (نمائندہ سول سوسائٹی)

س: پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی کیا ہے؟

ج: پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی سے مراد تمام مذہبی اکثریت و اقلیتوں کے ساتھ محبت اور رواداری سے پیش آنا۔

س: فرقہ واریت کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟

ج: برداشت ،رواداری اور محبت کے جذبے کو فروغ دے کر ہم فرقہ واریت کو کم کر سکتے ہیں۔

س: مذہبی رہنماء بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کیسے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں؟

ج: عوام چونکہ مذہبی رہنمائوں کی بات کو بہت اہمیت دیتے ہیں اسی لئے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے اورلوگوں میں رواداری، ایثار، براداشت اور محبت جیسے جذبات کو اجاگر کرنے کے لئے مذہبی رہنما بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں جس سے معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی پیدا ہو گی۔ اسی طرح مذہبی رہنما بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

س: ایسے کون سے عوامل ہیں جو بین المذاہب ہم آہنگی میں مشکلات پیدا کرتے ہیں؟

ج: بہت سے عوامل بین المذاہب ہم آہنگی میں مشکلات پیدا کرتے ہیں جن میں خاص طور پر ہمارے بنیاد پرست اور انتہا پسند رویے ہیں اور معاشرتی عدم توجہ بھی ان عوامل میں شامل ہے۔

س: منفی مواد کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟

ج: منفی مواد خصوصاً منفی تقاریر لوگوں پر نہایت منفی اثر ڈالتی ہیں اور لوگوں میں نفرت پھیلاتی ہیں اس کی روک تھام کیلئے ریاستی سطح پر جو قوانین بنائے گئے ہیں ان پرسختی سے عملدراآمد کرایا جائے۔

س: مذہبی /مسلکی ہم آہنگی کے فروغ میں شہریوں کا کردار کیا ہے؟

ج: شہری مذہبی اور مسلکی ہم آہنگی کے لئے بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں بحیثیت شہری ہمیں مذہبی اور مسلکی اختلافات کو ختم کرنا ہوگا ۔

س: قانون کی پاسداری کو کیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے؟

ج: قانون پر عمل دراآمد کرانے والے اداروں کو زیادہ طاقت ور بنا کر ہم قانون کی پاسداری کو ممکن بنا سکتے ہیں ۔

س: شدت پسندی کیا ہے؟

ج: ہمارے تلخ اورسخت ، بے لچک رویے شدت پسندی ہے ،شدت پسندی انتہا پسندی ہے۔ n

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں