پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈیز ختم کرنے کا عندیہ

آئی ایم ایف حکام نے پاکستان پر پیٹرول مصنوعات پر سبسڈیز ختم کرنے کے لیے زور دیا


Editorial April 25, 2022
آئی ایم ایف حکام نے پاکستان پر پیٹرول مصنوعات پر سبسڈیز ختم کرنے کے لیے زور دیا (فوٹو، فائل)

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل جو آج کل امریکا کے دورے پر ہیں' انھوں نے اگلے روز وفد کے ہمراہ واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے ساتھ ملاقات کی جس میں پاکستان کے لیے بیل آوٹ پیکیج کے ساتویں جائزے پر بات چیت کی گئی۔

میڈیا کے مطابق آئی ایم ایف حکام نے پاکستان پر پیٹرول مصنوعات پر سبسڈیز ختم کرنے کے لیے زور دیا۔ بعدازاں وزیر خزانہ نے واشنگٹن میں مقامی تھینک ٹینکس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ تیل پر سبسڈی نہ دی جائے اور میں اس سے متفق ہوں، عمران خان نے تیل پر سبسڈی دے کر آنے والوں کے لیے جال بچھایا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف پاکستان میں اسٹرکچرل اصلاحات چاہتا ہے ہم بھی متفق ہیں یہ اصلاحات ضروری ہیں اور انھیں متنازع نہیں ہونا چاہیے۔ اٹلانٹک کونسل کے صدر فریڈرک کیمپے نے اپنے تعارفی کلمات میں کہا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان جمہوری طرز حکمرانی، علاقائی سلامتی اور اقتصادی ترقی کی مشترکہ اقدار پر مبنی دیرینہ شراکت داری ہے۔وفاقی وزیر خزانہ نے امریکی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی پیشکش کردی۔

واشنگٹن میں امریکی بزنس کونسل کے وفد سے گفتگو میں مفتاح اسماعیل نے کہا ہماری حکومت کاروبار دوست ماحول بنانے پر توجہ مرکوز کررہی ہے۔ شعبہ زراعت، فارماسیوٹیکل ، صحت میں سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنا اولین ترجیح ہے۔آئی ایم ایف پروگرام ڈی ریل ہوچکا تھا ٹریک پر واپس لائیں گے۔ حکومت کا مقصد معاشی اور مالیاتی استحکام لانا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہاہے کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم بھی ختم کرنا ہوگی، ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ نہیں، ہمیں گرے لسٹ سے نکلنا ہے،بیل آؤٹ پیکیج کے ساتویں جائزے پر پاکستان IMFمذاکرات میں اتفاق ہوا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری اور معاشی اصلاحات پر عمل یقینی بنایاجائے گا۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایندھن پر سبسڈی کم کرنے اور بزنس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ختم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی سفارشات سے اتفاق کیاہے اور بحران سے دوچار معیشت کو فروغ دینے کے لیے مرحلہ وار اصلاحات کا ارادہ ظاہر کیا۔

نومنتخب پاکستانی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر پاکستان کے غریب ترین طبقے کے لیے بہرحال کچھ سبسڈی باقی رہنی چاہیے۔مفتاح اسماعیل کے مطابق دنیا کے پانچویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک پاکستان کو تمام رکاوٹیں دور کرتے ہوئے اپنی برآمدات کو فروغ دے کر ایک نئے معاشی ماڈل کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے،ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں بالواسطہ یا بلاواسطہ ہر سبسڈی کا فائدہ آخر میں ملک کی اشرافیہ کو ہی ہوتا ہے۔

مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ان کا فوری ہدف دوہرے ہندسوں کی مہنگائی پر لگام لگانا اور روزگار کے لیے مواقع کا آغاز کرنا ہے۔غیرملکی خبررساںادارے کے مطابق انھوں نے اس بات کی تردید کی کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہے، اس وقت غیر ملکی ذخائر 10 بلین ڈالر ہیں اور زیادہ ترقرض دوست ممالک چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے لیا گیا ہے۔

ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کے باعث گزشتہ چند روز سے ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ، انٹر بینک مارکیٹ میں روپے کے مقابلے میں ڈالر ایک بار پھر بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے ۔ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ پاکستان کی معیشت خطرات میں گھرتی چلی جا رہی ہے، روپے کی قدر میں مسلسل اور تیزی سے کمی، معیشت کی شرح نمو، ٹیکسوں کی وصولی، بچتوں و سرمایہ کاری کی شرحیں، برآمدات، غذائی قلت، بیروزگاری اور غربت کی صورت حال خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں خراب ہوتی چلی جا رہی ہے۔

افراطِ زر، مہنگائی اور ملک پر قرضوں کا بوجھ نا قابلِ برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔ حکومت کو ایک خطیر رقم آئی ایم ایف کو قرضوں کی قسط کے طور پر دینا پڑتی ہے۔اس بڑھتے ہوئے معاشی بوجھ سے نمٹنے کے لیے حکومت ایک بار پھر آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔سری لنکا کے معاشی حالات سب کے سامنے ہیں کہ وہاں کی حکومت اب بڑھتے ہوئے معاشی دباؤ کو کم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہو چکی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں معاشی سطح پر عنقریب بہتری کے آثار بھی نظر نہیں آرہے ہیں، سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا حکومت عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھائے اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لیے بغیر اپنی معیشت کو ترقی دے اور بہتری نہیں لا سکتی ؟ یقیناً ہم ملکی وسائل سے معیشت کو ترقی دے سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام ضروری ہے۔

سوال یہ ہے کہ وسائل کی فراہمی کیسے ممکن ہو، اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جن سرمایہ داروں کے نام پاناما لیکس، پینڈورا لیکس اور دوسری رپورٹ میں آئے ہیں، ان کی دولت واپس لائی جائے۔ پاکستانیوں کے بیرونِ ملک کاروبار، جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس ہیں، جن لوگوں نے قومی وسائل لوٹ کر یا ٹیکس بچانے کے لیے دولت بیرون ملک منتقل کردی، ایسی دولت وطن عزیز میں لانے میں ہماری حکومتیں تمام تر دعوؤں کے باوجود مسلسل ناکام ہوتی آئی ہیں۔

اسی طرح کھربوں روپے ملک کے نامور شرفاء نے قرضوں کی شکل میں بینکوں سے لیے اور بعد میں قرض معاف کروا لیے۔اشرافیہ اور سیاستدانوں کے قرضے معاف کرنے کا سلسلہ فی الفور بند ہونا چاہیے۔جاگیردار اور سیاستدانوں کے لائف سٹائل شاہانہ انداز سے کم نہیں مگر ٹیکس دینے کی باری آتی ہے تو وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے چور راستے تلاش کرتے اور کم از کم ٹیکس دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ٹیکس وصول کرنے والے ادارے بھی تمام صورتحال جانتے ہوئے اس معاملے سے صرف نظر کر جاتے ہیں۔

عرصہ دراز سے ہم سب یہ پڑھتے آ رہے تھے کہ پاکستان کی معیشت کا زیادہ تر دارومدار زراعت پر ہے کیونکہ پاکستان کی جی ڈی پی میں اس شعبے کا حصہ تقریباً 30 فیصد اور لیبر فورس میں 40 سے 45 فیصد تھا۔

پاکستان کی کل برآمدات کا 50 فیصد سے زائد حصہ اسی زرعی شعبے کا مرہون منت تھا اور ہم زرعی شعبے کی برآمدات سے اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بھی کما رہے تھے لیکن ہماری ناقص منصوبہ بندی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہمارا سب سے اہم شعبہ زراعت بحران کا شکار ہو گیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ ہم زرعی اجناس کا ایک بڑا حصہ درآمد کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں جو ہم غلط پالیسیوں کا غماز ہے۔ بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زراعت جسے ہم اپنی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے تھے وہ ہڈی جگہ جگہ سے ٹوٹ چکی اور شکستہ بھی ہو چکی ہے۔

ہر آنے والی حکومت نے عوام کو سرسبز انقلاب اور خود کفالت کے سہانے خواب دکھائے لیکن عملاً زراعت کی ترقی کے لیے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ بھی نہیں کیا' حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے آج زراعت اور کاشتکار بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہمارے دیہی عوام 16 ویں صدی جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔

ہمارے صاحبان اقتدار یہ بات اپنے پلے باندھ لیں کہ جب تک دیہات اور کسان کے مسائل حل نہیں ہوں گے زرعی خود کفالت اور صنعتی و کاروباری ترقی ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہے۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں رہنے والی تقریباً 65 فیصد آبادی جو زراعت اور لائیو سٹاک سے وابستہ ہے اس کے مسائل حل کیے بغیر زرعی ترقی ممکن ہی نہیں۔

ہمارا زرعی شعبہ نہ صرف خوراک اور ملک کے سب سے بڑے برآمدی شعبے کے لیے خام مال کی پیداوار کا بنیادی بلکہ روزگار کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔ خوراک کی پیداوار، برآمدی صنعت کے لیے خام مال کی فراہمی اور روزگار کی سب سے بڑی مارکیٹ، یہ تین بنیادی اسباب زرعی شعبے کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ مگر زرعی شعبہ کبھی اس قدر حکومتی ترجیح حاصل نہیں کر پایا جس کا یہ حق دار ہے۔

اس کے نتائج خوراک کے بحران، ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے کپاس کی درآمد اور افرادی قوت کی گاؤں اور قصبوں سے بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کی صورت میں واضح ہیں۔ اس تمام تر صورتحال کے باوجود زرعی شعبے کی حقیقی ترقی کے لیے ضروری اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں