اصل کھیل تو 2014 میں کھیلا گیا
28 مارچ 2022 کو اسلام آباد کے ایک جلسے میں جس خط کو لہرا کے غیر ملکی سازش کا بیانیہ تراشہ گیا
HYDRABAD:
حکومت بچانے کے لیے آخری بال کھیلنے تک ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ دھونس ، دھمکی جلسے جلوس سے لیکر آئین و قانون کی کھلے عام خلاف ورزیوں تک ہر آپشن استعمال کیا گیا۔
28 مارچ 2022 کو اسلام آباد کے ایک جلسے میں جس خط کو لہرا کے غیر ملکی سازش کا بیانیہ تراشہ گیا جب وہ بھی کارگر ثابت نہ ہوا تو 3 اپریل کو ساری پارلیمنٹ کو ہی مسمار کرکے اپنے آپ کو تاحکم ثانی وزیراعظم بنا دیاگیا۔ چاہنے والوں نے اپنے لیڈر کی اس چال پر خوب شادیانے بجائے اور اُسے کپتان کا ایک زبردست اسٹروک قرار دیکر فتح و کامرانی کی عظیم ساعتوں سے تشبیہہ دینا شروع کر دی۔
آئین و دستور کی اس طرح دھجیاں اُڑانے پر جب اعلیٰ عدلیہ نے چپ رہنا مناسب ناسمجھا اور چھٹی والے دن سوموٹو لیکر کارروائی شروع کردی اور عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کروانے کا حکم صادر فرمادیا تو اُسے بھی 9اپریل کی رات پونے بارہ بجے تک مختلف حیلے بہانوں سے ٹالا گیا ،لیکن پھر کیلنڈر کی تاریخ بدلنے سے پہلے پہل جب اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کرلیا گیا اور سپریم کورٹ کی بتیاں رات گئے روشن کردی گئیں تو حاکم وقت نے طوعاً وکرہا اپنے ارادے بدلے اور بذریعہ ہیلی کاپٹر واپس گھرکوجانے کا فیصلہ کرلیا۔
وہ دن ہے اور آج کا دن وہ صبح و شام اپنی انا اور خود پرستی کو تسکین دینے کے لیے ملک کی اعلیٰ عدلیہ اور دیگر اداروں کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے قوم کے جذبات کو اپنے حق میںاستعمال کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
جمہوری نظام حکومت میں عدم اعتماد کی تحریک ہی واحد آئینی اور قانونی طریقہ ہے جس کے تحت حکمراں یا حکومت کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے سوائے وزیراعظم کے ازخود استعفیٰ دینے کے جتنے بھی آپشنز ہیں وہ غیر آئینی اورغیر قانونی تصور کیے جاتے ہیں۔ اپنے خلاف اس تحریک کے آجانے پرنجانے سابق وزیراعظم اتنے خفا اور سیخ پاکیوں ہیں سمجھ نہیں آتا۔اُن کے لیے تو یہ سب سے بہتر آپشن تھاکہ وہ اس تحریک کے نتیجے میں اگر ہٹا بھی دیے جاتے تو اُن کے پاس اپنی مظلومیت اوربے گناہی کو ثابت کرنے کا ایک سنہری موقع ہوتا۔
لیکن اُنھوں نے اس تحریک کے تانے بانے ایک فرضی سازش سے جوڑنے کی کوشش کرکے اپنے اوراپنے ملک کے لیے اوربھی مسائل پیداکردیے۔حالانکہ دیکھاجائے تو 2014 میں اُنھوں نے میاں نواز شریف حکومت کے معرض وجود میں آجانے کے دوسرے سال ہی ایک طے شدہ پلان کے تحت 126 دنوں تک جو دھرنا دیا تھا حقیقت میں وہ ایک مبینہ سازش کاشاخسانہ تھاجس کی پلاننگ میں علامہ طاہرالقادری اورمسلم لیگ (ق) بھی شامل تھی۔ لانگ مارچ اور دھرنے سے پہلے ماڈل ٹاؤن کا واقعہ بھی دراصل اسی کا ایک افسوسناک حصہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس واقعہ کو لیکر کئی تحقیقات کی گئیں لیکن کسی ایک تحقیق کے نتیجے میں بھی اس وقت کی پنجاب حکومت کو مورد الزام ٹہرایانہیں جاسکا اور تو اور پی ٹی آئی نے بھی اپنے پورے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں اس واقعہ کولیکر کوئی مقدمہ بنانے کی کوشش ہی نہ کی ۔وہ صاف پانی اورمیٹرو بسوں کے پروجیکٹ سمیت کئی معاملات میں میاں شہباز شریف کو پھنسانے اورسزا دلوانے کے لیے تو آخری حدوں تک چلی گئی لیکن ماڈل ٹاؤن کا معاملہ اپنے انجام کو نہ پہنچا۔
126دنوں کادھرنا حقیقتاً ایک منصوبے کے تحت ارینج کیاگیاتھا لیکن میاں نوازشریف نے ایک دن بھی اُسے غیر ملکی سازش قرار نہیں دیابلکہ وہ اس سے آئینی وقانونی طریقوں سے پارلیمنٹ کے اندر ہی نمٹتے رہے۔ صاف صاف دکھائی دے رہاتھا کہ اس کے پیچھے کن طاقتور لوگوں کاہاتھ تھااورجس ایمپائر کی انگلی کے بارے میں خان صاحب ہرروز نوید سنایاکرتے تھے وہ کس کی انگلی تھی۔مگر پھربھی جمہوری قوتوں کے ساتھ ملکر اس سازش کامقابلہ کرکے اُسے ناکام بنایاگیا۔خان صاحب کو تو شکراداکرناچاہیے کہ 9 اپریل کی رات کو اعلیٰ عدلیہ کی صرف بتیاں ہی روشن ہوئی تھیںاورکوئی فیصلہ یاحکم نامہ صادر نہیں کیا گیا تھا۔
حالانکہ کچھ لوگ تو اس سے بڑھکر کسی بڑی کارروائی کی توقعات لگائے بیٹھے تھے جس طرح کی کارروائیاں ہمارے یہاں ماضی میں ہوتی رہی ہیں۔ملکی تاریخ میں ایساکئی مرتبہ ہوتا آیا ہے۔ میاں نوازشریف اورمحترم آصف علی زرداری ایک سے زائد مرتبہ مسند اقتدار سے سیدھا لانڈھی یا اٹک جیل کی دیواروں کے پیچھے ڈال دیے گئے اور اُن کے حامیوں کو چھوٹا سا بھی احتجاج کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔خان کوتوشکربجالاناچاہیے کہ آج ایساکچھ نہیں ہوا اوروہ آزاد ی سے جلسے جلوس کرتے ہوئے عوام کو اپنی حمایت میں گھروں سے باہر نکلنے کی ترغیبیں دے رہے ہیں۔اُنہیں تو ادادوں کا ممنون ہوناچاہئے کہ انھوں نے ابھی تک صبر کادامن ہاتھ سے پھسلنے نہیں دیاہے۔
پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی اگر اس قابل ہوتی توسازش کابہانہ یابیانیہ تراشنے کی نوبت ہی نہ آتی۔ بلکہ عدم اعتماد کی تحریک لانا ہی ناممکن ہوتا، مگر جب کوئی کارنامہ درج نہ ہوتوپھر ایسے بہانے تلاش کیے جاتے ہیں۔میاں شہباز شریف آج بھی اپنی کارکردگی کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ اُن کے دشمن بھی اُن کی اعلیٰ کارکردگی کے معترف اورقدر داں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج اپنی کارکردگی کے بل بوتے پروزیراعظم کے اس منصب پر جاپہنچے ہیں جہاں پہنچنے کے لیے خان صاحب کو دوسروں کا سہارا لینا پڑگیاتھا۔
خان صاحب اگر عوام کے سامنے اپنی یااپنے وسیم اکرم پلس کی کارکردگی رکھ کرحمایت کے طلب گار ہوں تو ان کی حمایت کم ہو جائے گی، وہ اگرصرف یہی کہہ دیں کہ میرااگلاچیف منسٹر بھی عثمان بزدارہی ہوگاتو پھر بہت سے سوال اٹھیں گے اور عوامی حمایت کمزور پڑ جائے گی۔ خان صاحب نے ساڑھے تین سال کارکردگی دکھانے کی بجائے اپوزیشن کو نیچادکھانے کی کوششوں میںگذار دیے۔ مسلم لیگ نون کے ہراہم اورقابل شخص کو الزامات کے تحت نیب زدہ کرکے اورزبردستی قید میں ڈال کربدنام کیاگیا۔
نتیجتاً وہ سب کے سب عدالتوں سے بری ہوتے گئے اورآج خان کی طرف سے این آر او نہ ملنے کے باوجود حکمرانی سے بہرہ مندہورہے ہیں۔ روئے زمین پر آج تک جتنے بھی طاقتور حکمراں آئے اورجنھوں نے اپنی اس طاقت اورحکمرانی کو اپنی قابلیت اورہشیاری کانتیجہ سمجھا اُن ساروں کا انجام سامنے ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعاکرنی چاہیے کہ وہ ہمیں تکبر سے بچائے رکھے اورساتھ ہی ساتھ ہمیں اس بات کوبھی اچھی طرح ذہن نشیںکر لیناچاہیے کہ ساری حکمرانی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، وہی ہے جو ہرچیز پرقادر ومطلق ہے۔