عظیم استاد… سبط حسن دوسرا اور آخری حصہ

قید وبند کی یہ صعوبتیں سبط حسن کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہو ئیں‘انھوں نے باقی زند گی تصنیف و تالیف کے لیے وقف کر دی


جمیل مرغز April 25, 2022
[email protected]

کراچی: انقلابی نظریے کے ساتھ ان کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ جب کامریڈ سجاد ظہیر نے ان کو دعوت دی کہ وہ کمیونسٹ پارٹی کے کل وقتی کارکن کی حیثیت سے پارٹی کے رسالے ''قومی جنگ '' کے عملہ ادارت میں شامل ہو جائیں تو انھوں نے فورا ان کے حکم کی تعمیل کی۔

کل وقتی کارکن کی حیثیت سے ان کا ماہانہ معاوضہ تیس روپے تھا'ان کی رہائش پارٹی کے ہیڈ کوارٹرمیں تھی' ماہانہ سترہ روپے کھانے کے اور پانچ روپے کرایہ کی کٹوتی کے بعد ان کے پاس ماہانہ اخراجات کے لیے صر ف آٹھ روپے بچ جاتے تھے 'ان حالات میں انھوں نے عوام کے حقوق کی جنگ میں اپنا عیش وآرام تیاگ کرکے زندگی گزاری ' انھوں نے تمام عمر اپنے نظریے کی ترویج کے لیے وقف کرد ی تھی اور موت تک اس پر کار بند رہے۔

پاکستان بننے کے بعد ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے فیصلہ کیا کہ جو مسلمان پاکستان جانا چاہتے ہیں، وہ پاکستان کمیو نسٹ پارٹی کے نام سے اپنی الگ تنظیم قائم کرلیں کیونکہ کمیونسٹ پارٹی نے قیام پاکستان کو تسلیم کیا تھا '1948 میں سبط حسن امریکا سے واپسی پر پارٹی حکم کے مطابق پاکستان آ گئے ' پاکستان کمیونسٹ پارٹی نے اپنی پہلی کانگرس میں سید سجاد ظہیر کو اپنا جنرل سیکریٹری منتخب کیا 'وہ لاہور میں پارٹی کے مرکزی دفتر میں قیام پذیر تھے' سبط حسن بھی انکے پاس آ گئے ۔

بانی پاکستان نے قیام پاکستان کی بنیاد ایک جمہوری' سیکولرملک کے طور پر رکھی تھی 'بدقسمتی سے ان کی موت کے بعد مسلم لیگ کے جاگیر دار طبقے نے انگریز کی پروردہ بیوروکریسی اور فوجی جنرلوں کے ساتھ ملکر ملک کو یرغمال بنا لیا' دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سامراجی کیمپ اور سوشلسٹ کیمپ کے درمیان سرد جنگ کے دوران حکمران طبقوں نے ملک کو سامراجی اڈہ بنا دیا' یہاں پر جمہوریت کو کبھی پنپنے کا موقعہ نہیں دیا گیا ۔

ملک میں جمہوری 'سامراج دشمن اور ترقی پسند سیاسی قوتوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا' ان کے خلاف کبھی مذہب دشمنی اورکبھی ملک دشمنی کے نام پر کاروائیاں کی گئیں'جب ملکی اور غیر ملکی سامراجی طاقتیں بائیں بازو کی سیاسی سرگرمیوں سے تنگ آ گئے تو انھوں نے کمیونسٹ پارٹی پر وار کرنے کا فیصلہ کیا۔ 1951 میں ''راول پنڈی سازش کیس '' کے نام سے ایک نام نہاد سازش کا تانا بانا بنا گیا' اس نام نہاد کیس کے نام پر بہت سے ترقی پسندافراد کو گرفتار کیاگیا۔

گرفتار شدگان میں سید سبط حسن'سید سجاد ظہیر'فیض احمد فیض' مرزا ابراہیم' دادا فیروز الدین منصور 'ایرک سپرین' محمد افضل' کامریڈ حسن ناصر'میجر جنرل اکبر خان' میجر محمد اسحاق' کیپٹن ظفراللہ پوشنی(پنڈی سازش کیس کے آخری ملزم 'جن کاحال ہی میں انتقال ہوا ہے)'حسن عابدی سمیت بہت سے دیگر سیاسی کارکن شامل تھے' بہت سے کارکن مفرور ہوگئے ۔ 1954 میں حکومت پاکستان نے امریکی سامراج کی ایماء پر کمیونسٹ پارٹی اور انجمن ترقی پسند مصنفین پر پابندی لگا دی'1955 میں حکومت نے سبط حسن'سجاد ظہیر ' فیض احمد فیض سمیت بہت سے کارکنوں کو رہا کر دیا'بد قسمتی سے اس دھچکے اور مسلسل ریاستی جبر کی وجہ سے ترقی پسند تحریک دوبارہ پوری طاقت سے آج تک منظم نہ ہو سکی ۔

قید وبند کی یہ صعوبتیں سبط حسن کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہو ئیں'انھوں نے باقی زند گی تصنیف و تالیف کے لیے وقف کر دی 'اس دوران انھوں نے بہت سی قیمتی کتابیں لکھیں 'جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے' وہ ہفت روزہ ''لیل و نہار'' کے ایڈیٹر بھی رہے'970 1 میں انھوں نے ترقی پسند ادب کا رسالہ ''پاکستانی ادب'' بھی نکالا' اس رسالے میں مشہور افسانہ نگار سعیدہ گزدر بھی ان کی ساتھی تھیں' ان کے کتابوں کے کئی کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں'اس کے باوجود ان کی ڈیمانڈ روز بروز بڑھ رہی ہے' بہت سی کتابیں ہندوستان اور دوسرے ممالک میں بھی چھپ چکی ہیں' سبط حسن نے ترقی پسند لٹریچر کی ترویج کے لیے انتھک کام کیا اور ہر ذریعہ استعمال کیا۔

آج پاکستان مسلسل آمریتوں اور حکمران طبقوں کی سازشوں کی بدولت ایک ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے کہ ساری دنیا اس کو ایک ناکام ریاست قرار دے رہی ہے' ایک بے آئین ملک جہاں پر اس کے قیام کے 72 سال بعد بھی یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ اس کا نظام کیسے ہوگا؟

قائد اعظم نے ایک جمہوری اور سیکولر ملک کے قیام کا اعلان کیا تھا اور یاروں نے اس کو مشرف بہ اسلام کرکے اس کا حلیہ بگاڑ دیا'سابقہ وزیراعظم نے تو ''ریاست مدینہ'' سے لے کر'' روحانیات کو ایک عظیم سائنس'' بنانے تک عجیب و غریب فارمولے ایجاد کر لیے ہیں' ان کی پالیسیوں کی بدولت آ ج ملک اکیسیویں صدی کے بجائے ازمنہ وسطی کی ایک وحشی قبائلی معاشرے کی تصویر پیش کر رہا ہے' نہ آئین ہے نہ قانون ۔رومن ایمپائر کے گلیڈی ایٹر ز ( Gladiators) 'یا ہندوستانی فلم ''شعلے'' کے گبر سنگھ کی طرح آئین اور قانون کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیتے ہیں'تمام اداروں کو لوٹ کر چلے جاتے ہیں اور چند سال بعد پھر آکر یہ عمل دہراتے ہیں' اب تو بم بردار اور ڈنڈا بردار قوتوں نے بزور شریعت نافذ کرنے کا دھندا شروع کر دیا ہے' جن کے سامنے گبر سنگھ بھی بے بس دکھائی دیتے ہیں۔

ان حالات میں ہر ذی شعور انسان کو سبط حسن کی کتابیں پڑھنا چاہیے کیونکہ یہ کتابیں ہی موجودہ تا ریکی کے دور میں روشنی کا مینار ہیں'سرمایہ داروں کے تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ترقی پسند تحریک ناکام ہے لیکن میرا ایمان ہے کہ آج اگر ملک میں تھوڑا بہت سیاسی شعور موجود ہے اور اس تاریکی میں روشنی کی تھوڑی سی کرن بھی نظر آتی ہے تو یہ سبط حسن اور ترقی پسند تحریک کا احسان ہے 'آج کے حالات میں سبط حسن جیسے روشن خیال 'عوام دوست دانشو روں کی اس قوم کو سخت ضرورت ہے 'ترقی پسند جہاں بھی ہیں وہ تاریکی کے نمائندوں سے بر سر پیکار رہیں گے اور شکست قبول نہیں کریں گے' یہ سبط حسن کا پیغام ہے۔بقول شاعر:

یہ شوق سفر ایسا 'ایک عہد سے یاروں نے

منزل بھی نہیں پائی' رستہ بھی نہیں بدلا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں