مثبت اشارے

ملک کو معاشی بحران سے باہر نکالنے کا فوری حل عالمی مالیاتی اداروں کا پاکستان کی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے سے مشروط ہے


Editorial April 26, 2022
ملک کو معاشی بحران سے باہر نکالنے کا فوری حل عالمی مالیاتی اداروں کا پاکستان کی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے سے مشروط ہے ۔ فوٹو : فائل

کراچی: پاکستان شدید معاشی اور مالیاتی بحران کا شکار ہے اور اس کے بارے میں سابق حکومت کے پالیسی سازوں کو بھی پتہ تھا اور موجودہ حکومت کو بھی اس کا پورا ادراک ہے، یہی وجہ ہے کہ موجودہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ نے ملک کی معاشی حالت کو چھپانے کی کوشش نہیں کی اور حقائق بذریعہ میڈیا عوام کے سامنے رکھ دیے ہیں۔

ملک کو معاشی بحران سے باہر نکالنے کا فوری حل عالمی مالیاتی اداروں کا پاکستان کی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے سے مشروط ہے۔سابق حکومت کی معاشی ٹیم جس کی سربراہی شوکت ترین کررہے تھے ، انھیں بھی حقائق کا علم تھا اور وہ اپنی بساط کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کرتے رہے، وہ آئی ایم ایف کو تعاون پر کسی حد تک راضی کرسکے لیکن آئی ایم ایف کی شرائط سخت سے سخت تر ہوتی گئیں جس کو پورا کرنا ملکی معیشت کے بس میں نہیں تھا۔

نئی حکومت برسراقتدار آئی تو معاشی اور مالیاتی بحران اسے منتقل ہوگیا ،موجودہ حکومت نے کوئی تاخیر کیے بغیر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے رجوع کرلیا اور وفاقی وزیر خزانہ اپنا منصب سنبھالتے ہی عازم امریکا ہوئے اور واشنگٹن میں عالمی مالیاتی اداروں کے پالیسی سازوں کے ساتھ مذاکرات کیے اور پاکستان کی معاشی اور مالیاتی صورتحال اور ان کی شرائط پر کھل کر بات چیت کی۔میڈیا کی اطلاعات کے مطابق امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں پاکستان کے وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں بڑا بریک تھرو سامنے آیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق ان مذاکرات کے نتیجے میں عالمی ادارے نے پاکستان کے لیے نہ صرف قرضہ پروگرام کی مدت میں ایک سال کی توسیع کردی ہے بلکہ اس پروگرام کے تحت پاکستان کو دیے جانے والے قرضے کا حجم بھی 2 ارب ڈالر بڑھا دیا ہے ، اب اس پروگرام کا حجم چھ ارب ڈالر سے بڑھا کر 8 ارب ڈالر کردیا گیا ہے۔ اسے پاکستان کی معیشت کے لیے اہم اور مثبت پیش رفت قرار دیا جاسکتا ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے ، گو آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو تسلیم کرلیا گیا اور آنے والے دنوں میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا لیکن ملک کی معیشت کو سانس لینے کی سہولت ضرور حاصل ہوگئی اور اب گیند شہباز شریف حکومت کے کورٹ میں ہے کہ وہ کیسے معیشت کو درست کرتی ہے اور عوام خصوصاً مڈل کلاس کو کیسے ریلیف فراہم کرتی ہے ۔

آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر قرضہ کے اس پروگرام کا معاہدہ تحریک انصاف کی حکومت نے جولائی 2019 میں کیا تھا جس کی مدت 39ماہ تھی جو ستمبر2022 میں ختم ہورہی ہے۔سابق حکومت چونکہ عالمی ادارے کے ساتھ طے کردہ شرائط کو پورا کرنے میں ناکام رہی تھی لہٰذا پاکستان کواس پروگرام کے تحت ملنے والے چھ ارب ڈالر میں سے صرف تین ارب ڈالر ہی مل سکے جس کی وجہ سے ملک انتہائی خطرناک معاشی اور مالیاتی بحران میں الجھ گیا تھا۔

اب نئی حکومت کو یہ کیس آئی ایم ایف بورڈ کے سامنے لے جانے سے قبل اگلے مالی سال 2022-23 کی بجٹ حکمت عملی تیار کرنی ہے اور پچھلی حکومت کی غلطیوں کو درست بھی کرنا ہوگا۔ عالمی مالیاتی اداروں اور ترقی یافتہ ممالک، جی سیون اور جی ٹوئنٹی مالی اتحادوں کا اعتماد حاصل کرکے ہی پاکستان کی معیشت کو ٹریک پر لانا ممکن ہوسکے گا۔

آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے سبسڈیز کوختم کرنا پڑے گا۔اگر حکومت سبسڈیز ختم کرتی ہے تو پٹرول اور بجلی کی قیمت میں اچھا خاصا اضافہ کرنا پڑے گا کیونکہ پٹرولیم ڈویژن کا کہنا ہے کہ اگر پٹرول کی قیمتیں نہیں بڑھائی جاتیں تو مئی جون میں 192ارب روپے سبسڈیز کی مد میں ادا کرنا پڑیں گے۔

میڈیا کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ سابق وزیرخزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف حکام کو یقین دلایا تھا کہ وہ رواں سال کا بجٹ 25ارب سرپلس رکھیں گے جب کہ اب وزارت خزانہ نے کا کہنا ہے کہ جون میں ختم ہونے والا رواں مالی سال کا بجٹ 1.3ٹریلین روپے خسارے کا رہے گا۔آئی ایم ایف بجٹ کو پہلے سے طے شدہ حد25 ارب روپے سرپلس میں رکھنا چاہتا ہے۔ یہ بھی ایک مشکل صورتحال ہے۔

وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے گزشتہ روز امریکا میں ورلڈ بینک کے مینجنگ ڈائریکٹر سے بھی ملاقات کی ہے ۔اس ملاقات میں عالمی بینک کے نائب صدر ہرت ویگ شیفر اور نوید کامران بلوچ بھی موجود تھے۔اس ملاقات میں عالمی بینک کی طرف سے ملنے والے 1.8 ارب ڈالر قرضہ پر بات ہوئی جو پاکستان کی سابق حکومت کی طرف سے نجکاری کی شرائط پوری نہ کرنے سے رکا ہوا ہے۔

اتوار کو وزارت خزانہ کے ترجمان نے بتایا کہ امریکا کے دورہ پر آئے وفد نے آئی ایم ایف کی ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر، ڈائریکٹر ایم سی ڈی اور مشن چیف ناتھن پورٹر سے اہم ملاقاتیں کی ہیں، ان ملاقاتوں میں پاکستان کے لیے توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کے تحت ساتویں جائزہ کی تکمیل کے لیے سمت کے تعین کاجائزہ لیاگیا۔

وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے مالیاتی نظم وضبط کے قیام کے لیے موجودہ حکومت کی معاشی ترجیحات کا تفصیلی جائزہ لیا ، انھوں نے کہا کہ معاشرے کے معاشی طورپرکمزور طبقات کو بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کے اثرات سے بچانا ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔

واشنگٹن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ مثبت مذاکرات ہوئے ہیں،ہم زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اورمہنگائی کم کرنے کی کوشش کریں گے، ہمیں مشکل فیصلے کرنے ہوں گے، انھوں نے وضاحت کی جب میں گاڑی میں پٹرول ڈلواتا ہوں تو1600کی سبسڈی حکومت پاکستان دیتی ہے، کیا گاڑی رکھنے والے کو سبسڈی ملنی چاہیے؟حکومت یہ بوجھ برداشت نہیں کرسکتی،انھوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کوخودمختاری دی جاچکی ہے۔

اس سال ہماری حکومت کا ٹارگٹ آئی ایم ایف پروگرام کو برقراررکھنا اور اگلے سال آگے بڑھانا ہے تاہم انھوں نے واضح کیا کہ اس سال ٹیکس ریٹ بڑھانے کا بھی کوئی ارادہ نہیں ہے اور ملک کے دیوالیہ ہونے کا بھی کوئی خدشہ نہیں ہے، غربت میں کمی کے لیے بینظیرانکم سپورٹ پروگرام میں پیسے بڑھائے جاسکتے ہیں، انھوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے کسی ملک کے ساتھ کوئی کمٹمنٹ کی ہے تو ہماری حکومت اسے پورا کرے گی کیونکہ وہ کمٹمنٹ عمران خان کی نہیں ہے بلکہ حکومت پاکستان کی ہیں۔

دوسری جانب گزشتہ روز ہی ایک پیغام میں آئی ایم ایف کے ترجمان جیری رائس نے کہاکہ توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کو جاری رکھنے کے لیے درکار پالیسیوں کے بارے میں ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر اینٹونیٹ سائی اور پاکستان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے درمیان ملاقات اچھی رہی ہے،پاکستان کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کے لیے مئی میں ایک مشن کے اسلام آباد کا دورہ متوقع ہے۔

ادھر پاکستان کے لیے آئی ایم ایف مشن چیف ناتھن پورٹر نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ پاکستان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے ساتھ ہماری بہت مثبت ملاقاتیں ہوئی ہیں،ان ملاقاتوں میں توسیعی فنڈ سہولت (EFF) پروگرام کے تحت پاکستان کی معاشی ترقی اور پالیسیوں پر تبادلہ خیال کیاگیا،ہم نے اتفاق کیا کہ سبسڈیز کو واپس لینے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے،سبسڈی کے معاملے نے 7ویں جائزے کے لیے مذاکرات کو متاثر کردیا تھا۔واشنگٹن میں حکام کے ساتھ تعمیری مذاکرات کی بنیاد پر آئی ایم ایف مئی میں پاکستان کے لیے ایک مشن بھیجنے کی توقع رکھتا ہے،مشن ساتویں EFF جائزہ کو مکمل کرنے کے لیے پالیسیوں پر بات چیت دوبارہ شروع کرے گا۔

ان خبروں اور بیانات سے یہی لگتا ہے کہ وزیرخزانہ کا دورہ کامیاب رہا ہے اور پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کا تعاون حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔اب موجودہ حکومت کی معاشی ٹیم کی قابلیت اور ذہانت کا امتحان شروع ہوچکا ہے۔

پاکستان کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔محنتی افرادی قوت موجود ہے، زرخیز زرعی زمینیں موجود ہیں۔ضرورت صرف ذہانت اور درست اور بروقت فیصلوں اور ان پر پوری تندہی سے عملدرآمد کرانے کی ہے۔اگر ایسا ہوجائے تو چند برس میں ہی پاکستان معاشی بحران سے باہر نکل آئے گا ، دنیا میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ڈیفالٹ کرجانے والے ملک کو جب ذہین اور کمیٹڈ قیادت میسر آئی تو وہ ملک چند برس میں مالیاتی اور معاشی خودمختاری اور خودکفالت کی منزل پر پہنچ گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں