انتقامی سیاست ملک کے لیے نقصان دہ

ہمارے وطن کے باسی بہت عجیب ہیں یہاں کا سسٹم اس قدر عجیب ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کب کوئی اقتدار میں آ جائے


[email protected]

چین میں ایک ارب چالیس کروڑ عوام بستے ہیں اور ہزاروں قومیں آباد ہیں، ان میں سے 80فیصد افراد چند دہائیاں قبل خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے،پھر چین نے گزشتہ چار دہائیوں میں تقریباً 80کروڑ افراد کو غربت سے نکالا ، اقوام متحدہ کے 2030کے ایجنڈے میں شامل انسداد غربت کے ہدف کو شیڈول سے 10 برس قبل مکمل کیا۔ آج چین کی جی ڈی پی 100 ٹریلین یوآن کی حد سے تجاوز کر چکی ہے۔

فی کس آمدنی میں اضافے کے ساتھ ساتھ چینی باشندے دیگر ٹھوس ترقیاتی ثمرات مثلاً بہتر تعلیم تک رسائی، طبی دیکھ بھال، بہتر حالات زندگی اور محفوظ ماحول سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ملک میں عالمی سطح پر سب سے بڑا سماجی تحفظ کا نظام فعال ہے۔ لوگوں کو روزگار کی ضمانت حاصل ہے اور اس حوالے سے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ مزید فعال پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔

یہ سب کیسے ممکن ہے؟ اور اس کا راز کیا ہے؟ یہ جاننے کے لیے اگر چینی دستاویزات کا مطالعہ کریں تو اس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ '''ہم نے ترقی پالیسیوں کے تسلسل کی وجہ سے کی ۔'' یعنی اس کا راز ملک میں پالیسیوں کا تسلسل، اعلیٰ معیاری اتحاد، رہنمائی اور حکمرانی کی مضبوط صلاحیت ہے، اس کے ساتھ ساتھ خود احتسابی اور اندرونی انضباط بھی اسے دنیا کی دیگر قوموں سے ممتاز کرتا ہے۔

اب ہم اس حوالے سے یہ کہیں گے کہ وہاں چونکہ یک جماعتی ہے' اس لیے وہاں کی پالیسیوں کو کوئی ترک نہیں کرسکتا تو لیجیے جناب امریکا کی مثال لے لیجیے۔ وہاں کا صدر دنیا کا طاقتور ترین شخص ہوتا ہے۔ لیکن اُس کے اختیارات کا ترقیاتی منصوبوں سے کوئی تعلق نہیں' خارجہ اور دفاعی پالیسی کانگریس کی منظوری سے اختیار کی جاتی ہے۔ لہٰذا پالیسیوں میں تسلسل ہی وہاں کی ترقی کا راز ہے۔

اگر صدر اوباما نے توانائی کے حوالے سے کسی پالیسی کا اعلان کیا ہے توصدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جرات نہیں کہ وہ اُسے روک سکیں۔ بلکہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ یا صدر جوبائیڈن ایسا کرنا چاہتے ہیں تو اُس کے لیے انھیں نا صرف پینٹاگون کی منظوری لینا ہوگی۔ بلکہ وہاں کی سینیٹ سے بھی منظوری لینا ہوگی۔ لیکن ان سب کو بائی پاس کرکے ڈیموکریٹک پارٹی یا ری پبلکن پارٹی سابقہ حکومت کے منصوبوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتی ہے توایسا کرنے سے صدر کی فراغت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

پاکستان میں سیاسی اختلاف کو ذاتی اور ذاتی رنجش کو قومی رنجش بنا لیتے ہیں۔ جیسے 90کی دہائی سب کو یاد ہوگی۔ اگر محترمہ کسی منصوبے کا افتتاح کرتیں تو ن لیگ کی اگلی حکومت اُسے ختم کر دیتی، پھر اگر ن لیگ کسی منصوبے کا افتتاح کرتی تو پی پی پی اس میں رخنے ڈالنے اور نت نئے مقدمات بنانے کی کوشش کرتی۔ پھر مشرف نے مارشل لاء لگایا تو کم و بیش 5سال کے لیے یہ سلسلہ رک گیا لیکن اُس کے بعد پھر وہی مسائل۔نیلم جہلم پروجیکٹ جس کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔

اگر یہ منصوبہ اپنے وقت پر شروع ہو کر وقت پر مکمل ہو گیا ہوتا تو نہ صرف لاگت بہت کم آتی،بلکہ کئی سال پہلے بجلی بھی میسر آنا شروع ہوجاتی،لیکن اب تاخیر تو اپنی جگہ ہے، پروجیکٹ کے مقام سے نیشنل گرڈ تک ترسیلی لائنوں کی تکمیل بھی ہونی ہے۔دیامر بھاشا ڈیم منصوبے کا ایک بار افتتاح جنرل پرویز مشرف نے اور دوبارہ یوسف رضا گیلانی نے کیا تھا،لیکن عملی کام اب تک شروع نہیں ہو سکا' اب دیکھیں کیا ہوتا ہے۔

اس کے بعد آپ اب ریلوے کو دیکھ لیں۔ مختلف ادوار میں کراچی سے پشاور تک ڈبل ٹریک بچھانے کے منصوبوں پر نہ جانے کتنی بار غور کیا گیا اور پھر تمام منصوبے طاقِ نسیاں پر ہی رکھ دیے گئے،یہاں تک کہ ایک زمانے میں ریلوے کے وزیر حاجی غلام احمد بلور نے کہہ دیا تھا کہ بہت سے ممالک میں تو ریلوے سرے سے ہی نہیں ہے کیا وہ دنیا کے نقشے پر موجود نہیں،اس سے ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں حکومتوں اور وزراء کی ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے ایسی ہی سوچ کی وجہ سے ریلوے کی بدحالی اتنی بڑھی کہ ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں کی ادائیگی مشکل ہو گئی۔

ب تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوگئی ہے تاہم عمران حکومت نے کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں' مثلاً عمران خان نے آٹھ کروڑ شہریوں کے لیے صحت کارڈ فراہم کرنے کا اعلان کیا۔

غریب آدمی کو علاج کی لگژری سہولیات کیا میسر آنا تھیں،عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے کم آمدن والے طبقے کے لیے سستے مکانات کا وعدہ کیا تھا۔اس منصوبے کے لیے الگ سے ''نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی'' قائم کی گئی اور ابتدائی مرحلے میں سات شہروں میں مکانات کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔حکومت نے آسان گھر اسکیم کے تحت بینکوں کو آسان شرائط پر قرضہ فراہم کرنے کی بھی ترغیب دی جس میں 20 لاکھ سے لے کر ایک کروڑ تک قرضے مختلف مدت کے لیے فراہم کرنا شامل ہیں۔

اسی کے ساتھ حکومت نے تعمیراتی شعبے کے لیے دو ایمنسٹی اسکیمیں متعارف کرائیں تاکہ اس کے ذریعے تعمیراتی شعبے کو فروغ دیکر ملک میں مکانوں کی تعمیرکے ساتھ نوکریاں بھی پیدا کی جا سکیں۔ پھر بلین ٹری منصوبہ جسے عالمی سطح پر ڈسکس بھی کیا گیا، اور سراہا بھی گیا۔ پھر احساس پروگرام اور پناہ گاہوں کو یکسر بند کر دیا گیا ۔

ان پناہ گاہوں میں قیام کے ساتھ ساتھ تین وقت کھانا بھی مفت فراہم کیا جا رہا تھا۔ساتھ ہی ساتھ خواتین کو انکم سپورٹ پروگرام میں ''کفالت'' پروگرام کے تحت بینک اکاؤنٹس، غریب اور نادار افراد میں راشن کارڈز اجرا اور تحفظ کے نام سے مالی مدد کے پروگرامز شروع کیے۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ اگر موجودہ حکومت ان تمام منصوبوں کو روک دے گی۔ اور اگلی آنے والی حکومت موجودہ حکومت کی پالیسیوں کو روک دے گی تو کیسے ممکن ہے کہ یہاں کے عوام بھی چینی عوام کی طرح خط غربت سے نکل آئیں۔

سیاستدانوں کا ظرف اعلیٰ ہوتا ہے، وہ عام آدمی سے زیادہ جلدی معاف کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن ہمارے سیاستدانوں میں بدلا لینے کی آگ بڑھکتی رہتی ہے۔ اسی حوالے سے نیلسن منڈیلا کی زندگی کا ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیںکہ اقتدار میں آنے کے بعد ایک دن وہ کہیں جا رہے تھے کہ سڑک کنارے ایک عام ہوٹل میں کھانے کے لیے رک گئے۔

ٹیبل پر بیٹھنے کے بعد کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی ان کے سامنے میز پر کھانا کھا رہا ہے کہ اچانک اس بندے کی نظر منڈیلا پر پڑی۔ اس کے حواس نے کام کرنا چھوڑ دیا اور بہت گھبرایا ہوا تھا۔ اسی اثناء میں نیلسن منڈیلا کے ساتھیوں نے پوچھا کہ یہ بندہ آخر کیوں ایسا گھبرایا ہوا ہے تو نیلسن منڈیلا نے اس بندے کو اپنی میز پر بلایا اور اپنے ساتھ کھانے پر بٹھایا، خوب کھانا کھلایا اور پھر اس کے بعد اس کو پیار محبت سے رخصت کر دیا۔ یہ سارا ماجرا نیلسن منڈیلا کے ساتھی دیکھ رہے تھے۔

بندہ کے جانے کے بعد اس عظیم شخصیت نے اپنے ساتھیوں کو مخاطب کر کے کہا کہ یہ شخص جیل میں ڈیوٹی پر تھا اور اس کو مجھے سخت سزا دینے پر مقرر کیا گیا تھا اور یہ مجھے بہت زیادہ سخت سزا دیا کرتا تھا، بہت سختی سے میرے ساتھ پیش آتا تھا۔ آج جب اس نے مجھے دیکھا تو اسے وہ ظلم اور تشدد یاد آ گیا اور یہ یہی سوچ رہا تھا کہ اب میں اس سے بدلہ لوں گا لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ایسے ہوتے ہیں عظیم لیڈر اور تاریخ کے سنہری اوراق کے پیامبر۔

لیکن اس کے برعکس ہمارے وطن کے باسی بہت عجیب ہیں یہاں کا سسٹم اس قدر عجیب ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کب کوئی اقتدار میں آ جائے ۔ لیکن ہمیں اگر ترقی کرنی ہے تو ہمیں چین کی طرز کا ایک سسٹم بنانا ہوگا، تمام لوگ اس سسٹم میں سے گزر کر آئیں گے تو یقین مانیں خود بخود انتقامی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا اور ملک ترقی کرے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں