ایچ ای سی نئے قانون کی ضرورت
سابقہ حکومت نے پورے ملک میں یکساں نصاب کے نعرے کی آڑ میں رجعت پسندانہ مواد نصاب میں شامل کرایا
MIRPURKHAS:
عمران خان کی حکومت نے جہاں عدلیہ اور ذرایع ابلاغ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی، وہاں تعلیم کے شعبے کو بھی برباد کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سابقہ حکومت نے پورے ملک میں یکساں نصاب کے نعرے کی آڑ میں رجعت پسندانہ مواد نصاب میں شامل کرایا۔
طالب علموں کے ذہنوں کو سائنسی سوچ کے تحت ارتقاء کے لیے شامل کیے گئے مواد کو خارج کیا۔ اس حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے شعبے پر بھی طبع آزمائی کی۔ پہلی مالیاتی سال کے آغاز پر اعلیٰ تعلیم کے بجٹ کو کم کردیا گیا۔
وزیر اعظم ہاؤس نے تمام یونیورسٹیوں کو ہدایات جاری کیں کہ اپنی قیمتی اراضی کو فروخت کریں، فیسوں میں اضافہ کریں تاکہ وفاق سے یونیورسٹیوں کو ملنے والی کم امداد کا ازالہ ہوسکے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن ایک وفاقی ادارہ ہے جس کا بنیادی فریضہ یونیورسٹیوں کی مالیاتی اعانت کرنا ، یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کے معیار کو بلند کرنے اور یونیورسٹیوں میں تحقیق کے معیار کو جانچنے کے لیے قواعد و ضوابط تیار کرنا اور اساتذہ کے تقرر کے معیار کو طے کرنا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری نے وزیر اعظم ہاؤس کی ان ہدایات کے نقصانات پر مبنی رپورٹ تیار کی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یونیورسٹیوں کی اراضی فروخت کرنے سے نئے اسکینڈل بنیں گے۔ قومی احتساب بیورو کو مداخلت کا موقع ملے گا۔ ڈاکٹر بنوری کا کہنا تھا کہ وفاق کو یونیورسٹیوں کے بجٹ میں خاطرخواہ اضافہ کرنا چاہیے تاکہ یونیورسٹیوں کا پسماندہ انفرااسٹرکچر بہتر ہوسکے اور تحقیق کے کاموں میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ ایچ ای سی نے پبلک یونیورسٹیوں اور ان کے خودمختار اداروں کے آڈٹ کے لیے اقدامات کیے۔
یونیورسٹیوں کے اکاؤنٹس کا آڈٹ ایچ ای سی کی بنیادی ذمے داریوں میں شامل ہے۔ ڈاکٹر طارق بنوری کے اختلاف کا حق وزیر اعظم اور وفاقی وزیر تعلیم کو پسند نہ آیا۔ ایک آرڈیننس راتوں رات تیا رہوا۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے اس آرڈیننس کا مطالعہ کیے بغیر دستخط کر دیے۔ اس آرڈیننس کے تحت ایچ ای سی کے چیئرمین کی مدت ملازمت کم کر کے دو سال کردی گئی، یوں ڈاکٹر بنوری کو ایچ ای سی سے بے دخل کرنے کا سستا نسخہ وفاقی حکومت کے ہاتھ لگا۔
ڈاکٹر بنوری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس آرڈیننس کے اجراء کے خلاف عرضداشت داخل کی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس آرڈیننس کو بدنیتی پر مبنی قرار دے کر اس پر عملدرآمد روک دیا۔
طارق بنوری نے ایچ ای سی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا تو ایچ ای سی کے اراکین کے اجلاس میں ایک قرارداد کے تحت چیئرمین کے تمام اختیارات معطل کردیے گئے اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو چیئرمین کے اختیارات سونپ دیے گئے، یوں گزشتہ فروری سے ایچ ای سی کا کام معطل ہوا۔ رواں مہینہ عمران خان کی حکومت رخصت ہوئی اور موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا۔ حکومت نے فوری طور پر ایچ ای سی کے چیئرمین کے تمام اختیارات بحال کیے اور اب یہ متنازعہ آرڈیننس تاریخ کے کوڑے دان میں کہیں کھوگیا۔
پاکستان میں تعلیم کبھی ریاست کی اولین ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ 1972تک ملک میں یونیورسٹیوں کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ بھٹو حکومت نے یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کا ادارہ قائم کیا جس کی بنیادی ذمے داریوں میں یونیورسٹیوں کی گرانٹ میں اضافہ کے لیے اقدامات اور نئی یونیورسٹیوں کے قیام کے لیے تجاویز مرتب کرنا تھا۔
اس پالیسی کے تحت بلوچستان میں پہلی یونیورسٹی قائم ہوئی اور باقی صوبوں میں ٹیکینکل یونیورسٹیوں سمیت نئی یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں آیا۔ سابق صدر پرویز مشرف نے سرکار ی شعبے میں نئی یونیورسٹیوں کے قیام اور نجی شعبہ کی نئی یونیورسٹیوں میں پالیسی مرتب کرنے کے لیے ایک ٹاسک فور س قائم کی۔ اس ٹاسک فورس کی سفارشات کے تحت یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کا ادارہ ختم ہوا اور ہائر ایجوکیشن کمیشن HEC کے نام سے ایک مکمل خود مختار ادارہ قائم ہوا۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن اس کے پہلے چیئرمین مقرر ہوئے اور ان کا عہدہ وزیر مملکت کے برابر کردیا گیا۔ ایچ ای سی کے قانون کو بنانے والے ماہرین نے اس کے وفاقی تشخص کو مدنظر نہیں رکھا، نہ ہی یونیورسٹی کی خودمختاری کے اصول کو اہمیت دی گئی۔ پاکستان میں یونیورسٹیوں کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈڑز یعنی اساتذہ کو نمایندگی نہیں دی گئی، نہ طلبہ کی رائے کو اور نہ ہی اس ادارے کی پالیسیاں مرتب کرنے میں مدد دینے کے لیے کوئی شق شامل ہوئی۔ ایچ ای سی کو عالمی مالیاتی اداروں نے خاطرخواہ امداد دی جس کے نتیجہ میں صرف سرکاری شعبہ میں یونیورسٹیوں کا جال بچھ گیا۔
ایچ ای سی نے بہت ساری پالیساں بنائیں۔ ان میں سے کچھ اچھی تھیں اور کچھ سے نئے تضادات ابھرے جس کی بناء پر سرکاری یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ 2010 میں 18ویں ترمیم منظور ہوئی، اس ترمیم کے تحت تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہوا۔ پنجاب اور سندھ نے اپنے اپنے ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کیے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت نے18ویں ترمیم کی منظوری کے وقت قانونی پیچیدگیوں کو مدنظر نہیں رکھا جس کی بناء پر ایچ ای سی کی حیثیت کی تبدیلی سے متعلق معاملات عدالتوں میں گئے۔
بہرحال اب وقت آگیا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو حقیقی وفاقی شکل دے اور اساتذہ اور طلبہ کو نمایندگی دینے کے بارے میں حکومت فیصلہ کرے۔ تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون میں اس طرح تبدیلی ہونی چاہیے کہ یونیورسٹی کی خودمختاری کا اصول مستحکم ہو اور ایچ ای سی کے انتظامی بورڈ میں صوبوں کی نمایندگی یقینی ہوجائے۔
ہر صوبہ کے ایچ ای سی کا چیئرمین اس انتظامی بورڈ میں شامل کیا جائے۔ یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی نمایندگی کو یقینی بنانے کے لیے اساتذہ کے پاس مختلف تجاویز ہیں۔ ایک تجویز یہ ہے کہ چاروں صوبوں کی سرکاری یونیورسٹیوں کے پروفیسرز کے لیے انتظامی بورڈز میں ایک نشست مختص کی جائے۔
اسی طرح پرائیوٹ یونیورسٹیوں کے انتظامی سربراہوں اور پروفیسرز کی نمایندگی کو یقینی بنانا چاہیے، اگر اس طرح کی نمایندگی ممکن بنائی جائے اور پھر اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کے لیے نئی پالیسیوں پر صوبہ اور یونیورسٹی کے اساتذہ متفق ہوںگے اور اساتذہ کو اپنے حق کے لیے سڑکوں پر احتجاج نہیں کرنا پڑے گا، ان تمام مسائل کا حل ایچ ای سی کے نئے قانون میں تبدیلی میں مضمر ہے۔