اوور سیز پاکستانی وزیراعظم کے پاس دل جیتنے کا بہترین موقع

سالانہ 30ارب ڈالر بھیجنے والے سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کا مسئلہ جسے شاید ہی کوئی حل کرنا چاہتا ہے


[email protected]

پاکستان میں ہر مسئلہ دریا جتنا بڑا ہو جاتا ہے، اگر مسئلے کو نہ حل کرنا ہوتو اسے سمندر بنا دیا جاتا ہے۔ جیسے سالانہ 30ارب ڈالر بھیجنے والے سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کا مسئلہ جسے شاید ہی کوئی حل کرنا چاہتا ہے۔

پچھلی حکومت نے اس حوالے سے اسمبلی سے بل بھی پاس کرا لیا مگر سوال پھر وہیں کا وہیں کہ ووٹنگ کیسے ہو؟اس حوالے سے الیکشن کمیشن ہاتھ کھڑے کر نے ہی والا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوگئی اور اس بل کی مخالفت کرنے والی ''اپوزیشن'' جماعتیں اقتدار میں آگئیں۔ اب اوور سیز پاکستانی مایوسی کا شکار نظر آرہے ہیں۔

موجودہ شہباز حکومت اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے بجائے پارلیمنٹ میں نشستیں مختص کرنے پر غور کررہی ہے۔''مخصوص نشستوں '' سے مراد پارلیمنٹ میں یہ افراد منتخب ہو کرنہیں آتے بلکہ پارٹی کی طرف سے ان کا چناؤ کیا جاتا ہے، جیسے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کے لیے جنرل مشرف نے خواتین کے لیے مخصوص نشستیں متعارف کرائیں۔

اس کے مقاصد اور اس کی روح کے برعکس اس قانونی شق نے روایتی سیاسی اور نئے دولت مند گھرانوں کی خواتیں کے لیے منتخب پارلیمنٹ میں داخل ہونے کے دروازے کھول دیے۔لہٰذااوورسیز پاکستانیوں کے لیے مخصوص سیٹیں ہوں گی اور برسراقتدار لوگ اپنے منظور نظر اوور سیز پاکستانی کو نامزد کردیں گے ہوگا۔ وفاقی وزیر قانون نے کہا ہے کہ ہم غریب ملک ہیں پوری دنیا میں پولنگ اسٹیشن قائم کر کے ووٹنگ نہیں کر اسکتے نہ ہی سفارتخانوں میں اتنے بڑے پیمانے پر اوورسیز ووٹنگ ممکن ہے۔

حالانکہ دنیا کے 100 سے زیادہ ممالک اپنے بیرون ملک رہنے والے شہریوں کو مختلف طریقوں سے ووٹ ڈالنے کا حق دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر برطانیہ کا کوئی شہری اگر ملک سے باہر رہتا ہے تو وہ انتخابات میں ووٹ ڈال سکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ بیرون ملک رہنے والے برطانوی شہری کے طور پر رجسٹرڈ ہو اور ایسا وہ پندرہ سال ملک سے باہر رہنے تک ہی کر سکتا ہے۔

ماضی میں پندرہ سال کی شرط کو ہٹایا گیا تھا لیکن اورسیز الیکٹرز بل کی مدت پوری ہونے کے بعد یہ شرط پھر نافذ ہو گئی اور ابھی تک اسی شکل میں ہے۔امریکا میں بھی ایک ریاست کا قانون دوسری ریاست سے مختلف ہے لیکن زیادہ تر ریاستوں نے بیرون ملک رہنے والوں کو ملک میں ووٹ ڈالنے کا حق دیا ہوا ہے۔انڈیا نے بھی بیرون ملک رہنے والے شہریوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ دہری شہریت نہ ہو۔

انڈیا دہری شہریت کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ جن کی دہری شہریت ہے انھیں ایک اوورسیز سیٹیزن آف انڈیا کی پاسپورٹ نما دستاویز دی گئی ہے جس کی مدد سے وہ ملک میں ویزے کے بغیر آ جا سکتے ہیں، پراپرٹی خرید سکتے ہیں، لیکن نہ تو ووٹ ڈال سکتے ہیں اور نہ ہی انتخابات میں بطور امیدوار کھڑے ہو سکتے ہیں۔

مغربی ممالک میں فرانس وہ واحد ملک ہے جس نے کبھی بھی بیرون ملک مقیم فرانسیسی شہریوں کے فرانس میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے کوئی شرائط نہیں رکھیں اور بیرون ملک رہنے والا ہر فرانسیسی شہری ملک میں ووٹ ڈالنے کا حق رکھتا ہے۔کینیڈا میں 2019 سے پہلے تک کچھ شرائط تھیں لیکن اب انھیں ختم کر دیا گیا ہے اور ان کے بیرون ملک رہنے والے شہری اب انتخابات میں ووٹ ڈال سکتے ہیں۔

اٹلی میں بھی ایسا ہے، لیکن اگر اطالوی شہری کسی ایسے ملک میں رہ رہا ہے جہاں اطالوی حکومت کا کوئی سفارتی نمایندہ نہیں ہے تو اسے اٹلی آ کر ووٹ ڈالنا ہوگا اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اطالوی حکومت اس کے سفر کے 75 فیصد اخراجات برداشت کرتی ہے۔

لہٰذایہ کہنا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حق دینا مشکل مرحلہ ہوتا ہے، یہ درست نہیں ہے۔ پاکستان بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق ایک کروڑ 13 لاکھ پاکستانی روزگار کے سلسلے میں پاکستان سے باہر مقیم ہیں۔

( یہ وہ پاکستانی ہیں جو حکومت پاکستان کے رجسٹرڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کے ذریعے بیرون ملک گئے ہیں۔ دیگر طریقوں سے باہر گئے افراد کا اس میں شمار نہیں کیا گیا۔)تو انھیں ووٹ کا حق دینے سے یا اُن کے مسائل سمجھنے سے یقینا وزیر اعظم شہباز شریف کا سیاسی قد اونچا ہوگا۔

اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل ایسے بھی نہیں ہیں کہ انھیں حل نہ کیا جا سکے۔ پاکستان میں تمام ایئرپورٹس پر اوور سیز پاکستانیوں کو پریشانی ہورہی ہے، امیگریشن حکام ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے ۔ جن کے تعلقات ہوتے ہیں ، وہ '' سفارشی کلچر'' کی بدولت پروٹوکول لگوا لیتے ہیں حالانکہ یہ انتہائی غلط پریکٹس ہے۔ پھر اوور سیز پاکستانیوں کو پاکستان کی ایمبیسی سے بہت شکایات ہوتی ہیں، وہاں تک پہنچنا پاکستان کے خارجہ آفس میں پہنچنے سے زیادہ مشکل ہے، اوور سیز پاکستانیوں کا اپنے ایمبیسی آفس میں ملنا حد درجے مشکل ہو چکا ہے، حالانکہ اس حوالے سے سابقہ حکومت نے احکامات جاری کیے مگر مسائل جوں کے توں رہے۔

پھر ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ایک نئی ایپ متعارف کرا دی گئی ہے، کہ جو ایپ ڈاؤن لوڈ کریں اور اُس کے دیے گئے پروسس پر عمل کرے تو وہ فلائی کر سکتا ہے، اس حوالے سے بھی کہیں کوئی آگہی مہم شروع نہیں کی گئی، پھر اکثر پاکستانیوں کو وہ ایپ پڑھنی بھی نہیں آتی، اسی لیے بیشتر پاکستانیوں کو ایئرپورٹ سے ہی گھروں کو لوٹنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ گزشتہ سال جب میں امریکا سے پاکستان کے لیے فلائی کرنے والا تھا، ایک دن پہلے مجھے میرے دوست نے اس ایپ کے متعلق بتایا، اگر مجھے نہ بتایا جاتا تو میں بھی لاہور کے لیے فلائی نہیں کر سکتا تھا۔

ہمارے ہاں اوورسیز پاکستانیوں کے پلاٹس پر قبضے کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جن کی طرف سابقہ حکومت نے ضرور توجہ کی مگر اب بھی ہزاروں درخواستیں التوا میں پڑی ہیں۔

بہرکیف شہباز حکومت کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہے کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کے لیے کچھ کریں۔ کیوں کہ یہ لوگ دن رات محنت کر کے اربوں ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان کو بھیجتے ہیں، جن سے پاکستان کی معیشت میں بہتری آتی ہے۔ الغرض ابھی بھی بہت سے مسائل حل طلب ہیں جنھیں دور کر کے حکومت اوور سیز پاکستانیوں کا دل جیتا جا سکتا ہے۔ ٹھیک ہے کہ ووٹنگ کا مسئلہ مشکل ہے کیوں کہ اس میں ایک بڑا خطرہ ہیکنگ کا ہے۔

رازداری کو یقینی بنانا اور جبر سے پاک ووٹنگ ایک اور بڑا چیلنج ہے۔ لہٰذا شہباز حکومت اس چیلنج کو قبول کرے اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹنگ کے حق سے محروم نہ کرے ورنہ وہ اپنا ہاتھ کھینچ لیں گے اور پاکستان معاشی طور پر مزید کمزور ہو جائے گا۔ اور رہی بات کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو پاکستان کے اصل مسائل کا بھلا کیا علم؟ تو خدارا یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جتنا بیرون ملک پاکستانیوں کو پاکستان کے بارے میں علم ہوتا ہے، اتنے شاید ہمیں معلوم نہیں ہوتا۔ میں خود بھی جب بیرون ملک جاتا ہوں تو پاکستان کے حوالے سے خبروں میں زیادہ دلچسپی لیتا ہوں، کیوں کہ یہ ایک فطری عمل ہے۔

اس لیے اس مسئلے کو سمندر سے بڑا بنانے کے بجائے حل کرنے کی طرف پیش قدمی کی جائے اور ووٹ سیمپلنگ کے لیے ایک آدھ ملک کا انتخاب کرلیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔میرے خیال میں سب سے پہلے ووٹنگ برطانیہ کا انتخاب کیا جائے ، کیوں کہ وہاں حالات سازگار بھی ہیں اور بہترین بھی ! اس لیے وہاں ٹیسٹنگ ووٹنگ بھی ہو جائے گی اور حکومت کا بھرم بھی رہ جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں