دعا نمرہ معاملہ زبان کا استعمال احتیاط سے کیجئے

اگر آپ کی بہن، بیٹی پر کوئی اس طرح تنقید کرے تو آپ کے دل پر کیا بیتے گی؟


سوشل میڈیا کی آزادی کا فائدہ اٹھا کر لوگ جو ذہن میں آرہا ہے بے دریغ لکھ رہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

TURKEY: رات دھیرے دھیرے اپنے اختتام کی جانب گامزن تھی۔ تارے اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں تھے، اور چاند جیسے ان کی رہبری کررہا تھا۔ آسمان پر چاند کی رہبری تھی اور زمین پر اس سمے وہ میری رہبری کا منتظر تھا۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے کیا جواب دوں؟ اور جواب بھی ایسا ہوکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔

اچانک بجلی کی چمک کی طرح ایک خیال میرے ذہن میں آیا، جس نے لمحوں میں لفظوں کی شکل اختیار کی اور میں بے اختیار مسکرادیا۔ اسے لگا کہ شائد مسئلہ حل ہوگیا ہے۔

''جی بھائی؟'' وہ سکوت توڑتے ہوئے بولا۔

''آپ کو معلوم ہے میں خود فلمی رسالے پڑھنے والا بندہ ہوں۔ مذہبی، معاشرتی مسائل کا ماہر نہیں ہوں۔ لیکن آپ نے پوچھ ہی لیا ہے تو میں آپ کو ایک پیمانہ دیتا ہوں، اس پر اپنے حالات کو رکھ کر خود فیصلہ کرلیجئے کہ آپ جو کرنے جارہے ہیں وہ درست ہے یا نہیں؟ اگر برا لگے تو معذرت۔'' میں نے حفظ ماتقدم کے طور پر پیشگی معذرت بھی کرلی۔

''جی ضرور''۔ اس نے جواب دیا۔

''اگر یہ سب کچھ آپ کی بہن کے ساتھ ہوتا تو کیا آپ اس لڑکے کے فعل کو درست سمجھتے؟ اگر ہاں تو آپ بھی درست ہیں، اور اگر نہ، تو پھر آپ بھی باز آجائیے، مزید پیش قدمی نہ کیجئے۔'' میری بات سن کر وہ لاجواب ہوگیا، اور پھر اس نے اپنی اچھی تربیت کا ثبوت دیتے ہوئے اس لڑکی سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔

بات آگے بڑھانے سے پہلے بتاتا چلوں کہ آج سے برسوں قبل میرے دوست کے چھوٹے بھائی کو ایک لڑکی سے عشق ہوگیا۔ قبل اس کے کہ وہ اس سے کورٹ میرج کرتا، اس نے شب برأت کی رات احباب کی محفل سے مجھے نکالا اور تنہائی میں ساری داستان کہہ ڈالی اور مدد کی درخواست کی۔ اس موقع پر میرے اندر کا بڑا بھائی جاگ گیا اور میں اسے صرف یہ کہہ کر روکنے میں کامیاب ہوگیا کہ کیا آپ پسند کریں گے کہ آپ کی بہن کے ساتھ بھی ایسا ہو؟

یہ واقعہ دعا، نمرہ کی گمشدگی اور بعد ازاں پسند کی شادی کے معاملے پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر تنقید کے بعد یاد آیا۔ جو احباب ان لڑکیوں پر تنقید کرکے ان کی زندگی خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ چند لمحے کےلیے یہ سوچ لیجئے کہ اگر آپ کی بہن، بیٹی پر کوئی اس طرح تنقید کرے تو آپ کے دل پر کیا بیتے گی؟ آپ کا کیا ردعمل ہوگا؟

انسان کی فطرت ہے کہ وہ خود اپنی اولاد پر تنقید باآسانی کرلیتا ہے، اسے برا بھلا بے دھڑک کہہ ڈالتا ہے۔ لیکن اگر دوسرا ایسا کرے تو اس سے برداشت نہیں ہوتا۔ آپ کی تنقید ان لڑکیوں کے والدین کو ایسے ہی بری لگ رہی ہوگی۔

یہاں ایک بات واضح کردوں کہ دعا، نمرہ یا پھر دیگر لڑکیاں جو ایسا کررہی ہیں، گھر سے بھاگ کر دائمی خوشیاں کھو کر، وقتی خوشیوں کو ترجیح دے رہی ہیں، ان کا یہ عمل کسی بھی لحاظ سے قابل دفاع نہیں ہے۔ ان کی کسی بھی طرز کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ہم لوگ معاشرے کے ایس ایچ او بن جائیں۔ پرائی بہن، بیٹیوں پر اپنی بے لگام زبان کااستعمال کرنا شروع کردیں۔ میڈیا کی آزادی کا غلط استعمال کرتے ہوئے طنز کے تیر برسائیں۔

ایسی لڑکیوں پر تنقید، جزا و سزا کا حق صرف اور صرف ان کے والدین کا ہے۔ ان کے نام تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ ہمارا کردار صرف اور صرف اتنا ہے کہ گم ہوجانے کی خبر پر افسوس کا اظہار کریں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے حکومت سے اس وقت تک اپیل کریں جب تک معاملہ بخیر و عافیت انجام پذیر نہ ہوجائے۔ معاملہ حل ہوجانے پر خدائے بزرگ و برتر کا شکر بجالائیں اور سنہرے مستقبل کےلیے دعاگو ہوں۔

لیکن بدقسمتی سے ہم بہن، بیٹیوں کو سانجھی نہیں سمجھتے اور ایسی خبروں کا گویا انتظار کررہے ہوتے ہیں۔ خبر آجائے تو حکومت پر تنقید شروع کرتے ہیں۔ اگر سیکیورٹی ادارے ہمارے دباؤ میں آکر ذمے داری کا مظاہرہ کریں تو متاثرہ خاندان کی زندگی اجیرن کردیتے ہیں۔ ایسا نہ کریں تو سیکیورٹی اداروں کا جینا حرام کردیتے ہیں۔

ہمارا یہ رویہ صرف عام زندگی تک محدود نہیں، سیاست کے میدان میں بھی ہم اسی دہرے معیار یا یوں کہہ لیجئے منافقت کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ دن پہلے تک عمران خان ہمارا ولن تھا۔ لیکن جیسے ہی اسے اس کے کیے کی سزا ملی اور وہ تخت سے سڑکوں پر آیا تو ہمارا ہیرو بن گیا۔ لاہور اور کراچی کا جلسہ اس کی مثال ہے۔ کل تک فوج آدھی قوم کی ہیرو تھی، آج وہ لوگ فوج کو اس قدر برا بھلا کہہ رہے ہیں کہ خود ان کے لیڈر کو وہ خطرناک محسوس ہورہے ہیں۔ کل تک ہم بجلی کی قیمتیں نہ بڑھنے پر پریشان تھے، آج ہم بڑھنے پر پریشان ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اعتدال کا رویہ اختیار کریں۔ ہم اپنی حدود کو کراس نہ کریں۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی حدود میں رہے، اسی میں ہماری بقا ہے۔ بصورت دیگر وہ وقت دور نہیں جب ہم قوم سے ہجوم کی شکل اختیار کرلیں گے۔ ایک ایسا ہجوم جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی، جس کی کوئی آہ اثر نہیں رکھتی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں