امریکا سامراج کی مخالفت دو الگ زاویے

عمران خان سمجھتے ہیں کہ امریکا کے کہنے پر سب کچھ ہوا ہے


Dr Tauseef Ahmed Khan April 28, 2022
[email protected]

سابق وزیر اعظم عمران خان نے لاہور میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پھر اپنے بیانیہ کو دہرایا کہ امریکا نے سازش کرکے ان کی حکومت کو تبدیل کرایا ہے اور ان کے دورہ روس کا بدلہ لینے کے لیے امریکا نے سازش کی اور ایک امپورٹڈ حکومت مسلط کر دی۔

یہ بھی کہا کہ جس سے غلطی ہوئی ہے وہ اپنی غلطی درست کر لے اور عوام کو ہدایات دیں کہ عام انتخابات کے مطالبہ کو منوانے کے لیے اسلام آباد پر دھاوا بولنے کے لیے ان کی اگلی کال کا انتظار کریں۔

سابق وزیر اعظم نے یہ بات کہہ کر کہ جن سے غلطی ہوئی ہے وہ غلطی درست کرلیں لاکھوں افراد کے سامنے اپنے بیانیہ میں تضاد کو تسلیم کیا کہ ان کی حکومت اسٹیبلشمنٹ کی ناراضگی کی بناء پر ختم کی گئی ہے۔

عمران خان سمجھتے ہیں کہ امریکا کے کہنے پر سب کچھ ہوا ہے۔ امریکی سامراج مخالف امریکا کے دانشور نوم چومسکی نے اس الزام کو غلط قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کی تبدیلی میں انھیں امریکا کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔

ملک کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح نے آئین ساز اسمبلی کے دوسرے دن کے اجلاس میں اپنی اساسی تقریر میں صرف امریکا کا شکریہ ادا کیا۔ ان کی تقریر کے پہلے حصہ میں ریاست کے غیر مذہبی خدوخال کی اہمیت بیان کی گئی تھی اور دوسرے حصہ میں بدعنوانی کے خطرناک اثرات سے قوم کو آگاہ کیا گیا۔

پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے ملک کے بانی نے امریکی حکومت کو ایک خط کے ذریعہ سے ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے قرضہ دینے کی اپیل کی تھی۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے روس کی دعوت کو نظر اندازکرکے امریکا کا دورہ کیا اور پاکستان سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ میں امریکا کا اتحادی بن گیا۔ تیسرے وزیر اعظم محمد علی بوگرا کے دور میں سابق وزیر خارجہ سر ظفر اﷲ خان نے معاہدہ بغداد پر دستخط کیے۔ پاکستان کو امریکا اوریورپی ممالک سے امداد کی بارش شروع ہوئی۔ یہ امداد دفاعی شعبہ کے لیے آئی۔

تعلیم ، صحت اور زراعت غرض ہر شعبہ میں امریکا اور یورپی ممالک اور جاپان نے دل کھول کر امداد دی۔ پاکستان امریکا کا اتحادی بنا تو پھر شہری آزادیوں پر قدغن لگنا شروع ہوئیں۔ سب سے پہلے کمیونسٹ پارٹی، اس کی اتحادی تنظیموں ، انجمن ترقی پسند مصنفین اور طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن(D.S.F) پر پابندی لگا دی گئی۔

برسراقتدار حکومت نے اخبارات پر نئی نئی پابندیاں عائد کیں۔ کمیونسٹ ترقی پسند اور قوم پرست کارکنوں کی گرفتاریں عام سی بات بن گئیں۔ جنرل ایوب خان نے 1958 میں اقتدار سنبھال لیا اور 1959میں پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کو قبضہ میں لے لیا۔ سینئر صحافی آئی اے رحمن نے انکشاف کیا تھا کہ ترقی پسند اخبارات کی آواز بند کرنے کا حقیقی فیصلہ بنکاک میں ہونے والے دفاعی معاہدہ سیٹو کے اجلاس میں کیا گیا تھا۔

امریکا نے1965 کی جنگ میں غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کیا نیز جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کی امداد بند کردی گئی ، مگر امریکا نے 1971 کی جنگ میں پاکستان کی حمایت کی اور اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن نے بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو مجبور کیا کہ وہ مغربی پاکستان پر حملہ نہ کرے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت بھارتی فوج کی مغربی پاکستان پر بھی حملے کی تیاری تھی اور اندرا گاندھی کو سیزفائر کا فیصلہ کرنا پڑا۔

وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو واحد حکمراں ہیں جنھوں نے اسلامی ممالک کو متحد کیا اور عرب ممالک نے تیل کی قوت کی اہمیت کو محسوس کرکے اس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ بھٹو صاحب نے شمالی ویتنام کی حکومت کو تسلیم کیا اور اپنا سفارت خانہ کھولا۔ ملتان پیپلز پارٹی کے رہنما اشفاق احمد خان کو ویتنام میں پہلا سفیر مقررکیا گیا اور سیٹو اور سینٹو سے علیحدگی اختیار کی گئی، بعد ازاں ایٹم بم بنانے پر توجہ دی گئی۔

عمران خان کسی میر جعفر کو بھٹو کے قتل کا ذمے دار قرار دیتے ہیں مگر ان میں اتنی جرات نہیں کہ وہ اس کا نام لیں ۔ عمران خان کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد جنرل ضیاء الحق کی حامی ہے۔ ضیاء الحق امریکا کے افغانستان پروجیکٹ کا حصہ بنے۔

اس پروجیکٹ کے تحت افغانستان میں عوامی حکومت ختم ہوئی ۔ اس پروجیکٹ سے خاص طبقے کے وارے نیارے ہوگئے۔ ان کی اولادیں آج عمران خان کا بیانیہ دہرا رہی ہیں۔ انھی لوگوں نے ان کا رجعت پسندانہ بیانیہ ترتیب دیا۔

90 کی دہائی میں سوویت یونین کے بکھرتے ہی ایک نئی دنیا وجود میں آئی۔ پاکستان کی بائیں بازو کی تنظیموںنے امریکا کے سامراجی کردار کے خلاف سب سے پہلے رائے عامہ ہموار کرنا شروع کی۔ بائیں بازو کی تنظیموں کے رہنماؤں اورکارکنوں نے امریکی سامراج کی مخالفت میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔

عمران خان کے چار سالہ دورِ حکومت کے جائزہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے انھوں نے کوئی حقیقی اقدامات نہیں کیے۔ ملک ، عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی امداد سے چلایا۔ جب ملائیشیا اور ترکی نے ایک سربراہی کانفرنس منعقد کی تو ایک ملک کے دباؤ پر آخری وقت میں اس میں شرکت سے انکارکیا۔

جب سابق امریکی صدر ٹرمپ سے ملنے گئے تو اس ملاقات کو تاریخی قرار دیا اور ان کے حامیوں نے جلوس نکالے اور یہ مؤقف اختیارکیا گیا کہ عمران خان دوسرا عالمی کرکٹ ٹورنامنٹ جیت کر آئے ہیں۔ تاریخ میں گزشتہ صدی میں انڈونیشیا کے صدر سیکارنو ، مصر کے صدر جمال ناصر اور چلی کے آلنڈے امریکی سامراج کے مخالف کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ سیکارنو نے انڈونیشیا میں سوشلسٹ معیشت قائم کی تھی، جمال ناصر نے نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لیا تھا اور آلنڈے نے چلی میں تانبہ کی صنعت کو قومی تحویل میں لے لیا تھا۔

ایران کے سابق وزیر اعظم مصدق تیل کی صنعت کو قومیانا چاہتے تھے مگر عمران خان کا ایسا کوئی کارنامہ نظر نہیں آتا۔ انھوں نے تو اپنی جماعت میں شامل ہونے والے امریکی سامراج کے مخالف ساتھیوں کی زندگی مشکل کردی تھی جن کے پاس تحریک انصاف سے علیحدگی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ ان کا امریکا کی مخالفت کا مقصد ایک رجعت پسند ایجنڈا کو مستحکم کرنا ہے۔ خیبر پختون خوا میں ان کی حمایت وہ گروہ کررہا ہے جو طالبان کے نظام کو آئیڈیل قرار دیتا ہے اور وہ گروہ بھی شامل ہے جو ایران میں ملاؤں کی آمریت کو دنیا کی نجات کا راستہ سمجھتا ہے۔

بائیں بازو کا امریکی سامراج کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنا دراصل اس کے استحصالی نظام کے خلاف تھا۔ طالبان اور ایران کے نظام سے محبت کرنے والے امریکا پر اپنا جھنڈا لہرانے کے خواہاں ہیں۔ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے غربت کے خاتمہ ، غیر ملکی قرضوں سے نجات اور غیر پیداواری اخراجات ختم کیے بغیر پاکستان کبھی خود مختار پالیسی نہیں اپنا سکتا ہے۔ عمران خان امریکا اور برطانیہ کے سامراجی نظام کے خلاف نہیں ہیں، وہ محض امریکا مخالف جذبات سے کھیل کر اقتدار میں آنا چاہتے ہیں جس پر وہ یقینا یوٹرن لے لیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں