زیرو ٹالرنس
وزیر اعظم شہباز شریف کی صدارت میں گزشتہ روز اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کا اہم اجلاس ہوا
کراچی:
وزیر اعظم شہباز شریف کی صدارت میں گزشتہ روز اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کا اہم اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں امن و امان کی صورت حال پرتفصیلی غور کیا گیا اور کراچی میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی کی شدید مذمت کی گئی، وزیر اعظم شہباز شریف نے نیکٹا کا اجلاس فوری طور پر بلانے اور نیشنل ایکشن پلان کا دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت کردی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اس اجلاس میں جو فیصلے ہوئے' ان کے بارے میں میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ نے ملکی سیکیورٹی کی صورت حال کا دوبارہ جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے' اس کے علاوہ ملک بھر میں جاری مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی ہنر مندوں اور شہریوں کے حفاظتی انتظامات کابھی ازسرنو جائزہ لیا جائے گا، بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں مقیم چینی شہریوں کی فول پروف سیکیورٹی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ کراچی واقعہ کی تحقیقات کا آغاز ہو چکااورچینی سفارت خانے کو یہ تحقیقات جلد مکمل ہونے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے وزارت داخلہ کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ نیشنل ایکشن پلان کا تمام صوبوں کے ساتھ مل کر جائزہ لیں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کر کے نیکٹا کے ذریعے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جامع پلان مرتب کیا جائے۔
موجودہ حالات میں فوری فیصلوں اور ان فیصلوں پر عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں جو کچھ ہوا 'اسے بار بار دہرانے کاکوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ اب کیا کرنا ہے اور کس طرح کرنا ہے ' اس کے لیے جامع منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام ضابطے کی کارروائیوں کی نذرنہیں ہونا چاہیے بلکہ ایک ہی اجلاس میں حتمی فیصلہ کر کے اور اس پر فوری عملدرآمد کے لیے متعلقہ وزارتوںاور اداروں کومتحرک کر دیا جانا چاہیے ۔
ملک میں موجود تمام انٹیلی جنس اداروں کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے' اور ان اداروں میں افسروں سے لے کر اہلکاروں تک کی کارکردگی اور ان کے ذہنی رجحانات کا جائزہ لینا بھی ازحد ضروری ہے کیونکہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے بروقت اور درست انفارمیشن کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ انفارمیشن ملک کے انٹیلی جنس ادارے فراہم کرتے ہیں اور یہی ان کی قانونی ذمے داری ہوتی ہے اور انھی ذمے داریوں کی ادائیگی کے عوض انھیں قومی خزانے سے تنخواہیں اورمراعات دی جاتی ہیں۔
اگر ان اداروں کے افسران اور اہلکار اپنے فرائض قانون کے مطابق ادا نہ کریں یا فرض کی ادائیگی میں سستی اور بددیانتی کا مظاہرہ کریں تو ان کا سخت ترین محاسبہ ہونا چاہیے اور اس محاسبے کے لیے ابہام اور شک کے بغیر قوانین وضع ہونا چاہئیں تاکہ کوئی بھی قانون کے شکنجے سے بچ نہ سکے اور نہ ہی کوئی بے گناہ اس شکنجے میں پھنس سکے۔
کراچی میں دہشت گردی انتہائی قابل مذمت ہے' اس دہشت گردی کو ایگزیکیوٹ کرنے والی خاتون تو اپنے کیے کی سزا بھگت چکی ہے ' لیکن اس نے جو کچھ کیا ہے 'اس کے نتائج و اثرات پاکستان کے لیے اچھے نہیں ہیں۔ اس لیے اس دہشت گردی کے پس پردہ کرداروں کو بے نقاب کرنا اور انھیں قانون کے مطابق سزا دلوانا 'پاکستان کے اداروں کی اولین ذمے داری ہے۔ دہشت گردی کے پشت پناہ 'ہینڈلر اور فنانسر ز در حقیقت ریاست پاکستان اور اس کے شہریوں کے ساتھ غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
ایسے لوگوں کوکیفر کردار تک پہنچانا لازم ہے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی بھی مصلحت کو آڑے نہیں آنا چاہیے۔دہشت گردوں کے ماسفر مائنڈ اور پاکستان میں موجود ان کے سہولت کار پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
چین پاکستان کا اہم ترین اتحادی اور کاروباری پارٹنر ہے' چین کے شہری اور ہنر مند پاکستان کے مہمان ہی نہیں بلکہ پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں ' ان کو نشانہ بنانے کامقصد دونوں ملکوں کے تعلقات کو خراب کرنا ہے۔ یہی نہیں پاکستان میں کچھ بااثر طبقے امریکا اور مغربی یورپی ممالک کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات خراب کرانا چاہتے ہیں اور انھوں نے اس میں کسی حد تک کامیابی بھی حاصل کی ہے' ایسے طبقے کو ہی بیغ کنی کرنا ہی بہت ضروری ہے۔ موجودہ حکومت امریکا 'یورپ' چین اور سعودی عرب سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
یہ ایک احسن عمل اور وقت کی ضرورت ہے۔ پاکستان ایک ابھرتی ہوئی اقتصادی و معاشی طاقت ہے۔ پاکستان کے کچھ بااثر طبقات اپنے مفادات کے لیے اس کی ترقی کو روکنے والے فیصلے کرانا چاہتے ہیں۔
افغانستان کی طالبان حکومت کی بے جا حمایت پوری دنیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو متاثر کر رہی ہے۔ اقوام عالم افغانستان کی حکومت سے جو مطالبات کر رہے ہیں 'انھیں پورا کرنا یا نہ کرنا افغانستان کی حکومت کا مسئلہ ہے'پاکستان کا نہیں ہے۔ افغانستان کے اقتدار پر قابض طالبان حکومت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ افغانستان کے عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے۔ افغانستان میں بسنے والے تمام نسلی 'لسانی اور ثقافتی گروپوں کے لیے یکساں قوانین بنائے اور انھیں ترقی کرنے کے پورے مواقع فراہم کرے۔ عوام کو تعلیم 'صحت اور روز گار فراہم کرنابھی افغانستان کی حکومت کا فرض ہے۔
افغانستان میں انفرااسٹرکچر بنانا اور ملک کو ترقی دینے کے لیے پالیسی بنانا بھی افغانستان کی حکومت کی ہی ذمے داری ہے۔ اقوام عالم کے ساتھ تعلقات قائم کرنا' ان سے لین دین اور کاروبار کرنا اور مالی مدد حاصل کرنا 'یہ سب اہداف حاصل کرنا بھی طالبان حکومت کا قائم ہے۔ کوئی اور ان کے لیے یہ سارے کام کرنے کا مجاز نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اور ملک کسی دوسر ے ملک کے لیے اتنا کچھ کر سکتا ہے۔
اقوام عالم افغانستان کی حکومت سے غیر مطمئن کیوں ہیں 'اس کی وجوہات تلاش کرنا اور انھیں دور کرنا بھی افغانستان کا نظم و نسق چلانے والی حکومت کا کام ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک پسماندہ 'ناخواندہ 'غیر ہنرمند اور معاشی طور پر کنگال ملک کے حکمران امیر اور طاقتور ملکوں سے اپنے لیے امداد اور تعاون کے خواہشمند ہوں لیکن ان ممالک کے تحفظات دور کرنے سے انکاری ہوں 'انھیں کوئی ملک تسلیم نہیںکرے گا اور نہ ہی انھیں کسی قسم کی مالی مدد فراہم کرے گا۔
بہر حال کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کے مجرموں کو جلد از جلد انجام تک پہنچانا پاکستان کی ساکھ کے لیے انتہائی ضروری ہے کیونکہ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق چین نے اعلان کیا ہے کہ ہمارے شہریوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا ،دہشت گردوں کو قیمت چکانا پڑے گی۔
چین کے معاون وزیر خارجہ وو جیانگ ہاؤ نے پاکستانی سفیر کو فون کر کے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان قصور واروں کو کٹہرے میں لائے، چینی شہریوں کی حفاظت یقینی بنائے اور ایسے واقعات دوبارہ ہونے سے روکے ۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ خان بھی گزشتہ روز کراچی میں چینی قونصلیٹ گئے ہیں اورانھوں نے کراچی کے قونصل جنرل لی بیجیان سے چینی شہریوںکی ہلاکت پر اظہارافسوس کیااور وزیراعظم کا تعزیتی پیغام پہنچایا۔وفاقی وزیر داخلہ نے سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ سے بھی ملاقات کی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت سیکیورٹی معاملات پرسندھ کی صوبائی حکومت سے ہرممکن تعاون کرے گی،انھوں نے کہا کہ نیکٹا چار سال سے غیر فعالچلا آ رہا ہے ، اب وزیراعظم میاں شہباز شریف چاروں صوبوں سے مشاورت کے بعد نیکٹا کی جلد بریفنگ لیں گے اور ہمیں حفاظتی انتظامات بہتر کرناہوں گے۔ مزیدبراں چینی سفارت خانے کے نمایندوں نے جائے مقام کا دورہ کرکے ہلاک شدگان کو خراج عقیدت پیش کیا اورتباہ شدہ وین کے ساتھ گلدستہ رکھا۔
واضح رہے چاروں لاشیں نا قابل شناخت ہیں، پاکستانی ڈرائیور کے اہل خانہ کا ڈی این اے حاصل کیا جارہا ہے تاہم چینی نمونے موجود نہیں،جس کے باعث لاشیں 10روز تک لواحقین کے حوالے نہیں کی جا سکیں گی۔ پولیس نے کئی مشتبہ افراد حراست میں لے لیے،جن میں مشتبہ سہولت کار بھی شامل ہے، جائے وقوعہ کی جیوفینسنگ جاری ہے اور مشتبہ موبائل فون نمبرڈھونڈے جارہے ہیں ۔
پاکستان کے لیے دہشت گردی کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ موجودہ حکومت معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے جتنے مرضی کام کر لے لیکن جب تک دہشت گردی کے نیٹ ورک کا مکمل خاتمہ نہیں ہوتا ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری ایک خاص حد سے زیادہ بڑھ نہیں سکتی۔ پاکستان کے اداروں کو دہشت گردی اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں سرپرستوں کے خلاف زیروٹالرنس پر مبنی سخت اور بے لچک پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان ایسے ملک یا ملکوں کے مفاد کے لیے اپنے مفادات کو قربان نہیں کر سکتا جو عالمی تنہائی کا شکار ہیں۔