بلاول بھٹو زرداری کیسے وزیر خارجہ ثابت ہوں گے
اِس عمر میں پاکستان کا وزیر خارجہ منتخب ہونا پہلا منفرد اعزاز ہے
SWAT:
وزیر اعظم جناب شہباز شریف کی خواہشات اور کوششوں سے نوجوان بلاول بھٹو زرداری صاحب نے پاکستان کے وزیر خارجہ کا قلمدان سنبھال لیا ہے ۔ ماشاء اﷲ،اُن کی عمر محض 33 سال ہے۔
اِس عمر میں پاکستان کا وزیر خارجہ منتخب ہونا پہلا منفرد اعزاز ہے ۔ بلاول بھٹو کی خوش بختی ہے کہ وہ وزیر خارجہ بننے سے قبل ہی دُنیا بھر میں شہرت پا چکے ہیں۔ اِس شہرت میں اُن کا مشہور سیاسی اور مقتدر خاندان بنیادی کردار ادا کررہا ہے۔ وہ پاکستان کی ایک مقبول سیاسی جماعت کے چیئرمین ہیں۔اُن کے نانا بھی وزیر خارجہ رہے اور وزیر اعظم بھی۔ ذوالفقار علی بھٹو عالمِ اسلام کے نامور وزرائے خارجہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔
وہ بھی محض35 سال کے تھے جب جنرل صدر ایوب خان کے دَور میں سب سے بڑی اسلامی مملکت، پاکستان، کے وزیر خارجہ بنے۔ یوں دیکھا جائے تو یہ ایک دلچسپ تقابل بنتا ہے کہ نانا جان سے کم عمر میں بلاول بھٹو وزیر خارجہ بنے ہیں۔
ایسا مضبوط ، مقبول اور معروف سیاسی بیک گراؤنڈ کسے ملتا ہے جو ہمارے نَو منتخب وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا مقدر بنا ہے؟اُن کی والدہ محترمہ دُنیائے اسلام کی پہلی منتخب خاتون وزیر اعظم تھیں ۔بی بی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ خود اپنی تصنیفات میں اعتراف کر چکی ہیں کہ اُن کے والد ، زیڈ اے بھٹو، انھیں پاکستان کی وزارتِ خارجہ میں بھیجنے کے متمنی تھے۔
ایسا مگر بیٹی کے نصیب میں نہ ہو سکا کہ والد کے پھانسی پر چڑھ جانے کے بعد حالات نے یکسر سنگین پلٹا کھایا ۔بی بی صاحبہ پاکستان کی وزیر خارجہ تو نہ بن سکیں لیکن انھوں نے وزیر اعظم بن کر پاکستان کی خارجہ پالیسیوں پر جوہری اثرات مرتب کیے ۔ ہم ان نقوش کو فراموش نہیں کر سکتے۔عظیم والدہ کا بیٹا اب وزیر خارجہ بن گیا ہے۔ شہید والدہ کو اپنی تربت میں بھی سکون ہوگا اور یقین بھی کہ بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی منزل صرف وزیر خارجہ نہیں ہے ۔ وہ ابھی آگے بڑھیں گے ۔
بلاول بھٹو اِس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہیں کہ اُن کے والدِ گرامی، جناب آصف علی زرداری، پاکستان کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔یہ بھی ایک نہائت اُمید افزا منظر ہے کہ جناب بلاول بھٹو زرداری اگر وزیر خارجہ ہیں تو محترمہ حنا ربانی کھر وزیر مملکت برائے امورِ خارجہ ہیں۔
حنا ربانی صاحبہ بھی پاکستان کی وزیر خارجہ رہ چکی ہیں۔ یوں ایک تجربہ کار وزیر مملکت برائے امورِ خارجہ کا ساتھ بلاول بھٹو کے ہاتھوں کو مستحکم اور مضبوط کرے گااور اُن کے سفارتی راستوں کو روشن اور اجاگر کرنے کا سبب بھی بنے گا۔ یوں عالمی فورموں پر پاکستان کے قومی مفادات کا بھرپور تحفظ کیا جا سکے گا۔ دونوں کے ساتھ ساتھ چلنے سے خارجہ محاذ پر غلطیوں کے امکانات کم سے کم رہیں گے ۔
بلاول بھٹو زرداری ایسے ایام میں وزیر خارجہ بنے ہیں جب کئی عالمی سفارتی محاذوں پر پاکستان کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے ۔ انھیں اپنی قابلیت کے جوہر دکھانا پڑیں گے۔ اُن کے نانا جان وزیر خارجہ کی سطح سے اُٹھ کر وزیر اعظم بنے تھے۔
اب یہی مدارج بلاول بھٹو بھی حاصل اور طے کر سکتے ہیں۔ اُن کے نانا جان نے پاک چین تعلقات کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا جب کہ اُن کے والدِ گرامی نے پاک چین محبتوں کو بلندی عطا کی ۔ مثلاً: سی پیک۔جب بھی پاک چین تعلقات کی داستان کہی اور لکھی جائے گی ، زیڈ اے بھٹو اور آصف علی زرداری کی شاندار خدمات کا ذکر اوّلین صفحات میں کیا جائے گا۔
یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری صاحب کے توسط سے پاک چین تعلقات میں مزید پائیداری آئے گی۔ بلاول بھٹو کے والد صاحب کے دَورِصدارت میں پاک، ایران توانائی تجارت (گیس پائپ لائن) کا تاریخی معاہدہ ہوا تھا۔اب ہم یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ اگر امریکا بہادر نے ٹانگ نہ اڑائی تو بلاول بھٹو زرداری بطورِ وزیر خارجہ پاک ، ایران گیس پائپ لائن ایسے مفید معاہدے کو عملی شکل دے سکیں گے۔
یوں ایران کے تعاون سے پاکستان توانائی کے بحرانوں پر قابو پانے کی ایک بڑی سبیل نکال لے گا۔ بلاول بھٹو کے نانا جان نے نامور سعودی فرمانروا، جناب شاہ فیصل شہید، کو لاہور میں مدعو کرکے پاک ، سعودیہ تعلقات کی مضبوط اور تاریخی اساس رکھی تھی ۔ اب ہم اُمید رکھ سکتے ہیں کہ بلاول بھٹو خود سعودی فرمانروا، جناب شاہ سلمان اور ولی عہد جناب محمد بن سلمان، سے ملاقاتیں، مصافحے اور معانقے کرکے اپنے نانا جان کے تعلقات کی تجدید بھی کریں گے اور ان میں اضافہ بھی ۔
ہم توقع رکھتے ہیں کہ بلاول بھٹو کو عالمی سفارتی سمندروں میں کامیابی سے تیرنے کے لیے کسی خاص رہنمائی کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ گھر ہی سے سفارتکاری کا آموختہ سیکھ کر میدان میں اُترے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری عرصہ محشر میں پاکستان کے وزیر خارجہ بنے ہیں۔ انھیں کئی آزمائشوں اور محاذوں کا سامنا ہے ۔سب سے بڑا محاذ شاید ہمارے ہمسائے ، افغانستان، کا ہے۔ افغانستان کے مقتدر طالبان سے ہم نے جو توقعات اور اُمیدیں وابستہ کی تھیں، انھیں بُری طرح دھچکا لگا ہے۔ہمیں مگر اُمید ہے کہ ہماری سیکیورٹی فورسز کا شہ دماغ ، اس راستے پر، بلاول بھٹو کی راہیں روشن اور کشادہ کرے گا۔پاک، افغان راستے روشن اور پُر امن ہوں گے تو دونوں ہمسایہ اور برادر اسلامی ممالک امن اور ترقی کے راستوں پر گامزن ہو سکیں گے۔ یہ مشکل راستہ ضرور ہے لیکن اس کی منزل ناممکن الحصول نہیں۔
پاک، امریکا تعلقات میں بھی خاصا بگاڑ آ چکا ہے ۔ اب شہباز شریف کی حکومت میں کچھ بہتری کے امکانات روشن ہُوئے تو ہیں۔ واشنگٹن نے ہمارے نئے وزیر خزانہ، مفتاح اسمٰعیل صاحب، کی بذریعہ آئی ایم ایف، جو تازہ دستگیری کی ہے ، اس منظر سے پاکستان کی نئی حکومت کی ہمت افزائی ہُوئی ہے۔
تعلقات کی کشتی مگر اب بھی ہچکولے کھا رہی ہے۔ اس میں مزید یقین اور استحکام پیدا کرنے کے لیے بلاول بھٹو زرداری صاحب کو بڑی دوڑ دھوپ سے کام لینا ہوگا۔ یوں سمجھئے کہ بلاول بھٹو کی وزارت کے سامنے مسائل کا ایک پہاڑ کھڑا ہے ۔ یہ پہاڑ انھیں اکیلے ہی سر کرنا ہے۔ شاید اس مہم جوئی میں اُن کے تجربہ کار والد صاحب بھی اُن کے مددگار ثابت ہوں۔ ہمیں تو اچھے ہی کی اُمید رکھنی چاہیے ۔