مہنگائی مارچ سے الیکشن مارچ تک
کسی بھی عہدے ، منصب اور مقام کو حاصل کرنا یقیناً ایک دشوار ، کٹھن اور مشکل ترین کام ہے
کسی بھی عہدے ، منصب اور مقام کو حاصل کرنا یقیناً ایک دشوار ، کٹھن اور مشکل ترین کام ہے لیکن جو لوگ مستقل مزاجی کے ساتھ جدوجہد کرتے رہتے ہیں وہ کامیابی کی منزل حاصل کرلیتے ہیں۔ لگن ، جستجو ، خواہش اور منزل کے حصول کا جنون انھیں کہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا تاوقت یہ کہ وہ اپنے عزم صمیم کے ذریعے کامرانی کا ذائقہ نہ چکھ لیں۔
جہاں کسی منصب ، عہدے اور مقام کا حصول ایک صبر آزما ، تحمل، برداشت اور استقلال کا متقاضی ہے بعینہ منصب کے حصول کے بعد اس کے تقاضوں ، نزاکتوں اور آزمائشوں کو سمجھنا اور اسے اس کے وقار کے مطابق قائم رکھنا ، حصول منزل کی جدوجہد کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکل مرحلہ ہے بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ مسند پر جلوہ افروز ہونے کے بعد اس کی شان و نزاکتوں کے مطابق اس کا حق ادا کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے کرکٹ کے میدان میں ایک طویل سفر طے کیا ، ان کی شبانہ روز محنت ، لگن، جدوجہد اور کرکٹ کا جنون رنگ لایا اور ورلڈ کپ جیتنے کی صورت میں انھیں اپنے شوق کا صلہ مل گیا ، پھر انھوں نے سیاست کے میدان میں قسمت آزمانے سے پہلے سماجی شعبے میں خدمت کا بیڑہ اٹھایا اور کینسر اسپتال بنانے کا مشن مکمل کیا اور شوکت خانم اسپتال کی صورت میں ان کی محنت رنگ لائی۔ میدان سیاست میں 22 سال جدوجہد کی۔
ہر انتخاب میں حصہ لیا۔ ان کی جماعت پی ٹی آئی نے ایک سیٹ جیتنے سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا پھر پہلے مرحلے میں انھیں کے پی کے میں حکومت سازی کا موقعہ ملا۔ بعدازاں عمران خان کی سیاسی جدوجہد رنگ لائی اور وہ اپنی خواہش کے مطابق وزیر اعظم کے منصب تک جا پہنچے۔ جس لگن، محنت اور جدوجہد سے انھوں نے یہ مقام حاصل کیا تھا تو اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ایک ایسی مثالی حکومت قائم کرتے جو آئین ، قانون اور جمہوری اقدار کا مظہر ہوتی۔
ریاست مدینہ کا نام لینے والے حکمران کو حقیقی معنوں میں ویسی ہی ریاست کی عملی شکل بھی پیش کرنا چاہیے تھی ، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عمران خان نے صبر آزما اور طویل سفر کے بعد من چاہا منصب تو حاصل کرلیا اور خواہش کے مطابق وہ ایک بلند مقام پر تو پہنچ گئے لیکن اس کے تقاضوں ، نزاکتوں اور باریکیوں کو نہ سمجھ سکے۔
اپنی افتاد طبع کے باعث پے درپے غلطیاں کرتے چلے گئے۔ ان کے نو رتنوں نے انھیں جو مشورے دیے وہ ان کے اقتدار کی کشتی میں مزید سوراخ کرنے کا سبب اور ڈوبنے کی وجہ بنے جس کا فائدہ مخالف سیاسی قوتوں نے اٹھایا اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے انھیں گھر بھیج دیا۔ اب وہ سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔ اب ملک میں نئے الیکشن کا انعقاد ان کی منزل ہے۔ پشاور، کراچی اور لاہور میں تین بڑے اور کامیاب جلسے کرنے کے بعد وہ اب لوگوں کو اسلام آباد لانگ مارچ کی کال دینے والے ہیں۔ اب وہ عوامی رابطہ مہم میں عوام کو اس بات پر آمادہ اور تیار کرنے جا رہے ہیں۔
اسلام آباد میں دھرنا ہوگا اور ایک ہی مطالبہ نئی شہباز شریف حکومت کے سامنے رکھا جائے گا کہ فی الفور ملک میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف الیکشن کا اعلان کیا جائے اور جب تک '' غلطی '' کرنے والے '' حلقے '' نئے الیکشن کے انعقاد میں اپنا کردار ادا کرکے '' ازالہ'' نہیں کریں گے تب تک دھرنے سے نہیں اٹھیں گے۔ گویا عید کے بعد ملک میں حکومت اور عمران خان کے درمیان ایک نئی سیاسی کشمکش اور محاذ آرائی کے روشن امکانات نظر آ رہے ہیں جس سے جمہوریت کی ناؤ پھر منجدھار میں ڈولتی نظر آ رہی ہے۔
کیونکہ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب یہ فرما چکی ہیں کہ ملک میں نئے انتخابات مقررہ وقت یعنی 2023 میں ہوں گے۔ یعنی اتحادی حکومت اسمبلیوں کی بقایا مدت تک اپنا اقتدار برقرار رکھنا چاہتی ہے۔
تیرہ جماعتوں کے حکمران اتحاد نے ساڑھے تین سال جدوجہد کی اور عمران حکومت کے خلاف لانگ مارچ سے لے کر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے اور تحریک عدم اعتماد تک مختلف آپشن پر غور کرتے اور عمران حکومت کے خاتمے کی تاریخیں دیتے رہے لیکن انھیں یہ خوف بھی دامن گیر تھا کہ '' فون کالز'' اور '' اشاروں'' کے بغیر نہ تو ان کا لانگ مارچ کامیاب ہوگا اور نہ ہی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا کوئی امکان ہے۔
اس باعث اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم بار بار حکومت کے خاتمے کی تاریخیں دینے کے بعد یو ٹرن لیتا رہا۔ یہاں تک کہ پیپلز پارٹی جیسی بڑی سیاسی قوت اختلافات کے باعث پی ڈی ایم سے علیحدہ ہوگئی۔ پھر کیا تھا کہتمام اپوزیشن سیاستدانوں کے ایک دوسرے کے خلاف روایتی مخالفانہ بیان بازی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ الزامات در الزامات لگا کر ایک دوسرے کو ان کا ماضی یاد دلایا جانے لگا۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) دونوں ایک دوسرے کی سیاسی میدان میں مخالف ہیں۔ کل بھی تھیں اور آج بھی ہیں۔
جب دونوں جماعتوں کو ''فون کالز'' اور ''اشاروں'' کی کھڑکیاں بند ہونے کا یقین دلایا گیا تب عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور شہباز شریف کی مسند اقتدار پر جلوہ افروزی ان کا مقدر بنی۔ کل یہی جماعتیں اپوزیشن میں تھیں، حکومت اور اسمبلیوں کو جعلی کہتی اور نئے شفاف انتخابات کرانے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ آج اسی اسمبلی سے منتخب ہو کر اقتدار میں آئی ہیں اور اب جب عمران خان نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں تو یہ حکمران اتحاد ان اسمبلیوں سے ڈیڑھ سال تک اقتدار کے مزے لوٹنا چاہتا ہے۔
اپوزیشن اتحاد نے اقتدار تو حاصل کرلیا لیکن بات وہی ہے کہ کیا وہ منصب کے تقاضوں سے عہدہ برآں ہو سکیں گے۔ کیا انھیں معاشی، سیاسی اور عوامی سطح پر جن مسائل اور سنگین چیلنجز کا سامنا ہے وہ ان سے کماحقہ نمٹ سکیں گے؟ کیا آئی ایم ایف کے چنگل سے قوم کو نجات دلا سکیں گے؟ افسوس کہ ان سوالات کا جواب ہاں میں نہیں دیا جاسکتا۔ آئی ایم ایف کے تازہ حکم نامے کے مطابق پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانی پڑیں گی جس سے لامحالہ مہنگائی کا ایک نیا طوفان آئے گا۔ کیا اب اپوزیشن اتحاد ماضی قریب کی طرح مہنگائی مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد کا رخ کرے گا یا عمران خان کے الیکشن مارچ کا انتظار کرے گا؟