سودی نظام کے خلاف ممکنہ اقدامات کیا ہو سکتے ہیں
بلاشبہ سودی نظام کے خلاف عدالت تک کوششیں جاری ہیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں تمام مذہبی طبقات و مسالک وغیرہ اس بات پر متفق ہیں کہ اس ملک سے سودی نظام کا خاتمہ ہونا چاہیے اور اس ضمن میں ایک طویل عرصے سے کوششیں بھی جاری ہیں۔
اب تک جو کوششیں کی گئی ہیں وہ ریاستی سطح یا نظام سے سودی نظام کے خاتمے سے متعلق ہیں اور اس ضمن میں کسی حد تک احتجاج اور رائے عامہ کو متحرک کرنے کے لیے مختلف تنظیموں اور جماعتوں کی اپنے طور پر کوششیں بھی شامل ہیں۔ مثلا ً تنظیم اسلامی کی جانب سے عوامی رائے کو منظم کرنے اور اہل اقتدارکی توجہ کے لیے وقفے وقفے سے پاکستان کے شہروں میں پر امن وخاموش مظاہرے بھی ہوتے رہے ہیں اور مساجد میں جمعہ کے خطبہ میں بھی اس اہم مسئلے پر بات کی جاتی رہتی ہے۔
بلاشبہ سودی نظام کے خلاف عدالت تک کوششیں جاری ہیں ، مگر اس میں ابھی تک کامیابی اس لیے نہیں حاصل ہوسکی ہے کہ سودی نظام ایک عالمگیر نظام ہے اور اس کے محافظ بھی عالمی سطح کے ہیں جو نہایت طاقتور ہیں اورکسی قیمت پر اس نظام کو ختم کرنے کی کوششوں کوکامیاب نہیں ہونے دے رہے ہیں۔ اس ملک میں جب بھی اس نظام کے خلاف کوششیں رنگ لانے لگتی ہیں کوئی نہ کوئی مسئلہ ایسا کھڑا کر دیا جاتا ہے کہ معاملات پھر سے صفر پر آجاتے ہیں۔
یہ کوششیں انشااللہ جاری رہیں گی مگر سوال یہ ہے کہ کیا جب تک ریاستی سطح پر یہ نظام ختم نہیں ہوتا ، تب تک کیا اس میں کمی کے لیے کوئی کام الگ سے بھی ہو سکتا ہے؟ جی ہاں عوامی سطح پر سود کے لین دین کو کم کیا جا سکتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ آئیے اس کا جائزہ لیں۔ سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ عوامی سطح پر عموماً لوگ مجبوری میں کس کام کے لیے سود لیتے ہیں؟ مشاہدے کے مطابق شہروں میں لوگ موٹر سائیکل وغیرہ کے لیے قسطوں پر لینے کا فیصلہ کرتے ہیں ، اسی طرح رہائش کے لیے مکان یا فلیٹ وغیرہ کی خریداری کے لیے بینک سے لون لیتے ہیں اور لوگوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو اپنے گزر اوقات کے لیے قرضے حاصل کرنا چاہتی ہے۔
یقیناً ان لون لینے والوں کو اگر بغیر انٹرسٹ (سود) کے لون لینے کا راستہ مل جائے تو ان سب کی پہلی ترجیح بغیر سود کے قرضہ یا لون حاصل کرنے کی ہوگی۔ اب اگر اس قسم کے تمام لوگوں کو بغیر سود کے قرضے مل جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس ملک میں جاری سودی قرضوں میں کمی واقع ہوئی ہے ، باالفاظ دیگر اللہ اور اس کے رسول سے جاری جنگ میں کمی واقع ہوگی۔ اب سوال یہ ہے کہ اس جنگ میں کمی کیسے واقع ہو سکتی ہے اور کون کون اس میں حصہ لے سکتا ہے۔ آئیے اس کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
1۔ ہمارے ہاں ہر مسلک کے بڑے ادارے فلاحی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں جن میں بعض کے اخراجات کی لسٹ سالانہ اربوں روپے تک کی ہوتی ہیں جن سے وہ مختلف فلاحی کام سر انجام دیتے ہیں ، اگر وہ دیگر فلاحی مقاصد کے ساتھ ساتھ کچھ رقم لوگوں کو بلاسود فراہم کردیں مثلاً چھوٹے کاروبار اور رہائش کے لیے کیونکہ یہ زندگی گزارنے کے لیے ناگزیر ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ ایسے ضرورت مند بھی ہوتے ہیں کہ جن کو پچیس سے پچاس ہزار روپے بھی دیدیے جائیں تو انھیں گزارے کے لیے ذریعہ معاش کا سلسلہ مل سکتا ہے یا سرچھپانے کو چھت بھی مل سکتی ہے۔ بڑے ادارے تو لاکھوں تک کے قرضے دے سکتے ہیں جس سے اس ملک کے مڈل کلاس جو کسی کے آگے سوال نہیں کرتی ، کے بہت سے مسائل اس حوالے سے حل ہو سکتے ہیں۔
2۔ ہمارے ہاں مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا بھی عوام میں بڑا نام ہے اور اس ملک کے کروڑوں لوگ ان کے کارکن و ہمدرد ہیں۔ ان جماعتوں میں صاحب حیثیت لوگ بھی شامل ہوتے ہیں ، اگر ہر جماعت صرف اپنی جماعت کے کارکنوں کو ذریعہ معاش ، رہائش وغیرہ کے لیے چھوٹے بڑے قرضے بلاسود دے دے تو اس سے ان کی جماعت مستحکم بھی ہوگی اور لوگوں کے مسائل بھی حل ہونگے۔ اس عمل میں قرضے کی واپسی بھی تقریباً سو فیصد یقینی ہوگی کیونکہ عموماً ہمارے ہاں لوگ اپنی جماعت اور مسلک کے نام پر جان تک قربان کرنے کو تیار ہوتے ہیں ، لہٰذا وہ کوشش کریں گے کہ اپنے محسن کا قرضہ بروقت واپس کر دیا جائے۔
3۔ سرکاری اور نجی اداروں میں بھی ان کی انجمنیں یا یونینیں اسی طرح کے کام کر سکتی ہیں مثلاً مختلف بینکس، بڑی کاروباری شخصیات سے رابطہ کر کے ، ایسے معاہدے اپنے ملازمین کے لیے کرواسکتی ہیں جن میں ملازمین کو سواری کے لیے گاڑی یا رہنے کے لیے مکان وغیرہ کے لیے بلاسود قرض دیا جا سکے۔ اس ضمن میں اداروں کے مابین معاہدے کے بعد قرض دینے والے مطمئن ہوسکتے ہیں کہ انھیں ان کی رقم واپس مل جائے گی چنانچہ یہ اطمینان و ضمانت دلانے کا کام اداروں کی انجمنیں اور یونینیں با آسانی کر سکتی ہیں۔
4۔ ہمارے ہاں بہت سی صاحب حیثیت شخصیات صدقہ وخیرات وغیرہ کرنے کے لیے سوچتی ہیں کہ کس مستحق کو دیا جائے ، ایسی شخصیات لاکھوں نہیں کروڑوں روپے کی خیرات وغیرہ کرتی ہیں ، اگر ایسے لوگوں اپنی فلاحی رقم یا اس کا کچھ حصہ محض اس نیت سے الگ کرلیں کہ وہ یہ رقم کسی بھی ضرورت مند کو بطور قرض دے دیں گے تو اس طرح دوست و احباب ، گلی محلے وغیرہ میں بہت سے سفید پوش اور عزت دار مل جائیں گے کہ جنھیں پیسوں کی اشد ضرورت ہوگی مگر وہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے مثلاً کسی کی بیٹی کی شادی ہے تو وہ قسطوں پر جہیز لے لیتا ہے ، کوئی رائیڈرکی جاب کرنے کے لیے قسطوں پر موٹر سائیکل لے لیتا ہے۔
چنانچہ اگر ہم بطور قرض الگ کر لیں اور ایسے ضرورت مندوں کو قرض دے دیں تو ان کی ضرورت بھی پوری ہو جائے گی اور وہ سود سے بھی بچ جائیں گے ، پھر جب کوئی قرض کی رقم واپس کردے تو یہ رقم کسی اور ضرورت مند کو دے دی جائے۔ اس طرح وہ رقم جو کسی فلاحی مقصد کے لیے صرف ایک دفعہ دے کر ختم ہو جاتی ہے وہ مسلسل ضرورت مند لوگوں کے کام آتی رہے گی اور ایک طرح سے صدقہ جاریہ بن جائے گی۔
ہمارے ایک دوست نے اپنے کسی دوست کو رقم اسی طرح دی اورکہا کہ اگر تم مجھے واپس کرتے وقت مجھ سے رابطہ نہ کر سکو تو بلا اجازت یہ رقم کسی اور ضرورت مند کو یہی بات کہہ کر دے دینا ، اسی طرح یہ رقم مسلسل سود کے خلاف جنگ میں حصہ بنتی رہ گئی اور اس کا دہرا اجر یعنی قرض دینے اور سود کے خلاف جنگ کرنے کا اجر بھی مجھے ملتا رہے گا۔
5۔ قرض دینے کا یہ عمل ہرکوئی انفرادی سطح پر اپنی حیثیت کے مطابق بھی کر سکتا ہے ، آج کل اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو کئی لوگ ایسی مل جائیں گے جو عزت دار ہونگے ، کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے ان سے تھوڑی سی گفتگوکریں تو ان کی مالی مشکلات پتہ چل جائے گی ، مثلاً کسی کو بچوں کی فیس ادا کرنے کا مسئلہ ہوگا ، کسی کی بیٹی کی شادی کے اخراجات سر پر کھڑے ہوں گے ، کسی کو ملازمت شروع کرنے کے لیے موٹر سائیکل کی ضرورت ہوگی وغیرہ ، اگر ایسے ضرورت مندوں کو قرضہ مل جائے تو ان کی مالی مشکلات کم ہو سکتی ہیں اور وہ سود کے چکر سے بھی بچ سکتے ہیں۔
آئیے ! تھوڑا سا اس مسئلے پر غور کریں اور سود کے خلاف جنگ میں اپنا کر دار ادا کریں۔