پرانی باتیں یاد آ رہی ہیں اور نیا پاکستان
کئی دنوں سے ملک کے بدلتے سیاسی حالات وواقعات ٹی وی پر دیکھ رہا تھا
کئی دنوں سے ملک کے بدلتے سیاسی حالات وواقعات ٹی وی پر دیکھ رہا تھا۔ اخبارات کے کالم پڑھ رہا تھا ملک میں تبدیلی دیکھ رہا تھا، خیر عمران حکومت تو اپنے دور اقتدار میں کوئی تبدیلی نہ لا سکی ، البتہ متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی تبدیلی ضرور آگئی ہے۔
اب دیکھتے ہیں ہمارے پاکستان میں کیا خاص تبدیلی آئے گی۔ مجھے کچھ پرانے پاکستان کے بارے میں یاد آ رہا ہے جب میں 1945 میں ریلوے کالونی کراچی سٹی میں پیدا ہوا تھا تو برطانیہ کا راج تھا۔ میرے والدین ایسٹ پنجاب دہلی کے قریب ایک قصبے اور دیہات کلیانہ سے تعلق رکھتے تھے، میرے دادا علی محمد خان 1928 میں ایک بحری جہاز کی کمپنی میں ملازم تھے میرے والد 1939 میں کراچی آگئے تھے اور 1940 میں ریلوے میں ملازم ہوگئے تھے۔
ان کی 1942 یا 1943 میں شادی ہوگئی تھی اور میری پیدائش 1945 میں ہوئی تھی مجھے معلوم نہ تھا پاکستان کب بنا تھا مگر ابا نور محمد خان نے مجھے بتایا کہ جب 1947 میں پاکستان بن رہا تھا تو میں تمہیں لے کر کلیانہ گیا تھا۔ خیر میں اپنی دادی کے ساتھ ہی رہتا تھا اور انھی کی چارپائی پر ان کے ساتھ سوتا تھا۔ پھر ایک دن جب تین یا ساڑھے تین سال کا تھا تو میری دادی اور اماں اپنے گھر میں زور زور سے رو پیٹ رہی تھیں میں نے دادی سے پوچھا کیا ہوا ہے کون مرگیا ہے۔ میری دادی نے کہا کہ بیٹا جس لیڈر نے پاکستان بنایا تھا محمد علی جناح صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔
میں چپ رہا پھر تین سال بعد یعنی 1951 میں ایک مرتبہ پھر دادا دادی اور اماں رو رہی تھیں اب میں 6 سال کا ہو گیا تھا۔ میں نے پھر پوچھا اب کون مر گیا ہے، روتے ہوئے بولیں ملک کے وزیر اعظم نواب لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں جلسہ عام میں گولی مار کر شہید کردیا گیا ہے۔
اس روز کے بعد سے میں سوچتا ہی رہ گیا کہ ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے اور پھر سکندر مرزا، جنرل ایوب خان کا مارشل لا لگ گیا اور یوں پاکستان میں غیر جمہوری راج آگیا اور شاید اب تک بقول عمران کے ہمارے ہی کچھ چاہنے والے ہم سے ناراض ہوگئے اور امریکا نے میری حکومت کو گرانے میں بڑی سازش اور مداخلت کی ہے۔
خیر یہ تو کچھ پرانی باتیں ہوگئیں جو اب تک میرے ذہن سے نہیں نکلی ہیں۔ پھر مسجد مدرسہ ، اسکول کا رخ کرنا پڑا۔ پہلے پاکستان چوک پر ایک اسکول حاجی سر عبداللہ ہارون اسکول میں چوتھی کلاس تک تعلیم حاصل کی اور پھر سندھ مدرسۃ الاسلام 5 ویں جماعت تا میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ کیا زمانہ تھا کتنے اچھے ہمارے استاد، ہیڈ ماسٹر اور پرنسپل ہوا کرتے تھے۔ سندھ مدرسہ کے پرنسپل محمد ناصر خان نہایت گورے چٹے تھری پیس سوٹ اور سرخ ٹائی لگائے ہوئے ہاتھ میں ایک اسٹک یا چھڑی پکڑے ہوئے دو منزلہ اسکول کی تمام کلاسوں کا دورہ کرتے پھرتے تھے سب پر ایک خوف طاری رہتا تھا۔
خیر آگے بڑھتے ہیں ہماری ریلوے کالونی اور ریلوے کا بہتر ٹرینوں کا نظام تھا، ریلوے کالونی میں ہی اسکول، ڈسپنسری، سستے راشن ڈپو، بڑے بڑے گراؤنڈ ہوتے تھے میرے سامنے بجلی یا الیکٹرک سب سے پہلے ریلوے میں آئی۔
اس سے قبل صرف لال ٹین ہوتی تھی اور پھر اسٹیشن پر لال اور لائٹ والی لال ٹین چلتی تھی۔ میرا ذہن اور دل و دماغ علم، ادب شاعری وہ بھی سامراج مخالف یا پھر فلمی دنیا کی طرف تھا جوان ہوا تو 1966 میں ابا نے ریلوے میں ملازم رکھوا دیا۔ ریلوے میں پہلے سے ٹریڈ یونین تھی کچھ چین نواز گروپ خاص کر پی آئی اے کے طفیل عباس کا گروپ کر رہا تھا وہ میرے رابطے میں آگئے منشور رسالہ نکلتا تھا اور ماؤزے تنگ کی ریڈ بک بھی ہاتھ میں ہوتی تھی۔
ایوب خان کے خلاف پورے ملک میں بغاوت تھی 1967 میں ریلوے میں مکمل ہڑتال ہوگئی۔ 13 دن گاڑیاں بند رہیں مجھے بھی ہڑتالی لیڈر پکڑ کر کینٹ اسٹیشن کے ساتھ انجن شیڈ کے ہڑتالی مزدوروں کے جلسے میں لے گئے اور لیڈران کرام تقریریں کرکے تھک چکے تھے چار دن ہڑتال کو ہوچلے تھے پھر اسٹیج سے کسی نے اعلان کیا کہ ایک نوجوان منظور رضی آپ کو ایک انقلابی نظم سنائیں گے ، میں بڑا حیران اور پریشان ہوگیا میرا اس ہڑتال اور یونین سے کوئی تعلق نہ تھا مگر پھر مجھے زبردستی اسٹیج پر چڑھا دیا گیا۔
میرے پاس اس سلسلے میں کچھ مواد اور شاعری نہ تھی البتہ میں نے ویت نام پر امریکی سامراج کے خلاف ایک نظم لکھی تھی جو میں سنا رہا تھا کہ ایک دم فوج آگئی اور انھوں نے چونکہ میں اسٹیج پر تھا مجھ سمیت 13 افراد کو گرفتار کرلیا، میرا کوئی قصور نہیں تھا اور فریئر تھانہ میں بند کردیا یہ میری پہلی گرفتاری تھی اور پھر 14روز ریمانڈ کے بعد کراچی سینٹرل جیل بھیج دیا گیا اور ایک ماہ بعد رہائی ملی۔ لیڈروں سمیت مجھے بھی ملازمت سے نکال دیا گیا۔
قصہ مختصر اس عرصے میں کافی حد تک ترقی پسند لیڈرشپ اور کمیونسٹ لٹریچر پڑھ چکا تھا اور ایوب خان کو جانا پڑا اور یحییٰ خان حکومت میں آگئے۔ مقدمات ختم ہوئے اور میں دوبارہ کمرشل گروپ میں بحیثیت بکنگ کلرک بھرتی ہو کر لاہور والٹن ٹریننگ اسکول چھ ماہ کے لیے چلا گیا جہاں میں نے ریلوے اسکول سمیت میکسم گورکی کی موٹی کتاب ماں پڑھ ڈالی جس نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ اور اس کے بعد میں نے ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا اور مرزا محمد ابراہیم کی ریلوے ورکرز یونین کا حصہ بن گیا اور سیاسی شعور سے لیس ہو کر انقلابی تحریک کا حصہ بن گیا۔
پاکستان میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی جس کی ممبر شپ چار آنے تھی اس کا بانی بنا، اس طرح ذوالفقار علی بھٹو کا پہلا نعرہ تھا روٹی، کپڑا اور مکان۔ سوشلزم ہماری معیشت، اسلام ہمارا دین اور طاقت کا سرچشمہ عوام، 1970 میں الیکشن ہوئے۔ پھر بھٹو صاحب نے 1974 میں یو ٹرن لیا اور ہم سب جیل چلے گئے بعد کی کہانی پھر کبھی سہی۔ یہ لکھتے ہوئے میری انگلیاں تھک گئی ہیں ساڑھے آٹھ مہینے جیل کاٹی۔ کراچی جیل، حیدرآباد جیل، خیرپور جیل اور سکھر جیل کی یاترا کی اور پھرذوالفقارعلی بھٹو جب وزیر مواصلات بنے تو رہائی ملی اور ان کی طرف سے بلائی گئی سہ فریقی لیبر کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ ملا جس میں ہمارے صدر حسین الدین لودھی، جو زین الدین لودھی کے بڑے بھائی اور میرے نام کا دعوت نامہ اور پھر مری میں تین روزہ کانفرنس میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی تین لیڈروں سے بھٹو صاحب ملاقات کرتے تھے۔ ہمارے وفد میں بشیر احمد بختیار، لودھی صاحب اور میں تھا ہم نے اپنے مقدمات اور ملازمت سے نکالے جانے کے مطالبات پیش کیے بھٹو صاحب نے فوری طور پر حکومت سندھ اور ریلوے انتظامیہ کو احکامات جاری کیے اور اس طرح ہم مقدمات سے بری اور ملازمت پر بحال ہوئے۔
بھٹو صاحب نہایت ذہین خوبصورت اور خوش لباس تھے اور پھر ہر روز دعوتیں ہوتی رہیں آخری دن بھٹو صاحب نے تمام مزدور لیڈروں سمیت حکومت اور صنعت کاروں کو بھرپور دعوت استقبالیہ دیا اور ازخود پہلے مزدور لیڈروں کا ہاتھ پکڑ کر کھانے کی میز کی طرف لے گئے بعد میں حکومت اور سرمایہ کاروں کو کھانے کی میز کی طرف بلایا گیا اور ایک پرتکلف استقبالیہ رات گئے ختم ہوا۔ خیر اب کیا ہو رہا ہے۔
کیا نئی حکومت مہنگائی پر کنٹرول کرسکے گی، کیا تیل پٹرول کی قیمتیں کم ہوں گی، کیا بجلی اور گیس کا بحران ختم ہوگا، کیا بے روزگاری ختم ہوگی، کیا دواؤں کی قیمت کم ہوگی، کیا بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ ہوسکے گا، کیا ہمیں پھر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پاس جانا ضروری ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ کوئی ممکن ہے یا نہیں؟ امید ہے نئی حکومت جو اعلانات کر رہی ہے اس پر کچھ نہ کچھ ضرور عمل ہوگا۔ ہمارے قومی اداروں کی نجکاری کو بھی روکنا بہت ضروری ہوگا۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ نئی حکومت سرکاری زمین عام کسانوں اور بے گھروں میں تقسیم کرنے کی قرارداد ہی پیش کردے، اور ہر پارٹی کم ازکم33 فیصد مزدوروں اور کسانوں کو پارٹی ٹکٹ دے کر صوبائی، قومی اور سینیٹ میں کچھ سیٹیں دے۔ اگر ایسا ہوگیا تو شاید ملک میں کوئی تبدیلی آسکے ورنہ بڑا مشکل ہوگا۔ ورنہ چند اشیائے ضرورت سے ترستے ہوئے لوگ، آخری جنگ کا اعلان تو کرسکتے ہیں۔