الوداع اے ماہِ رمضان الکریم
اس جمعۃ الوداع کے بعد رمضان المبارک ہم سے بچھڑنے کو ہے
ISLAMABAD:
اس جمعۃ الوداع کے بعد رمضان المبارک ہم سے بچھڑنے کو ہے۔ رمضان کے بعد دیکھتے ہیں کہ آپ کم کھاتے، کم سوتے، کم بولتے اور کیا اپنے نفس کی چوکی داری کرتے ہیں یا پہلے کی طرح پھر ویسے ہی زندگی گزارنا شروع کر دیتے ہیں۔۔۔۔ ؟
یاد رکھیے! اﷲ تعالی نے سورہ العمران میں ارشاد فرمایا ہے کہ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ تم اپنی پسندیدہ ترین چیز اﷲ کی راہ میں نہ دے دو۔ کھانا، پینا، آرام اور نفس کی بے لگام آزادی سے بڑھ کر انسان کی پسندیدہ چیز اور کیا ہوگی۔۔۔ ؟
کم کھانے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مطلوبہ ضروری غذائیت کو ہی فراموش کر بیٹھیں۔ کم کھانے کا مطلب یہ کہ آپ نفس کے اندر موجود، زیادہ سے زیادہ کھانے کے ندیدے پن اور اس حوالے سے حرام و حلال دولت اکٹھا کرنے کی ہوس کو لگام ڈالتے ہیں یا نہیں ؟
ضرورت کے مطابق مال و دولت کا تو حکم ہے مگر دراصل یہ مال و دولت کی بے لگام ہوس ہے جو اﷲ انسانی زندگی سے منہا کرنا چاہتے ہیں۔ جب ایک انسان پورا مہینہ بہت کچھ نہ کھا کر اور نہ پی کر بھی زندہ رہ سکتا ہے تو زیادہ سے زیادہ کی ہوس کیا معنی رکھتی ہے؟ کم سے کم سونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ جسمانی آرام کو اپنی زندگی سے خارج ہی کر دیں بل کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے نظام الاوقات کو کس طرح بہترین استعمال کرکے عبادت میں اہتمام کرتے ہیں اور اﷲ کی خاطر کس قدر اپنے آرام اور بے سروپا محفلوں سے دامن بچا تے ہوئے، اﷲ کے سامنے حاضر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
سورہ مزمل آیت6، مفہوم: '' بے شک رات کا اٹھنا دل جمعی کے لیے انتہائی مناسب اور بات کو بالکل درست کر دینے والا ہے۔'' سورہ ہود آیت114، مفہوم: ''دن کے دونوں سروں پر نماز قائم کرو اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی۔'' سورہ الذاریات آیات16,17,18، مفہوم: ''ان کے رب نے انہیں جو کچھ عطا فرمایا اسے لے رہے ہوں گے وہ تو اس پہلے ہی نیک تھے وہ راتوں کو بہت کم سویا کرتے تھے اور صبح کے وقت استغفار کیا کرتے تھے۔''
کم بولنا زیادہ غور کرنے سے عبارت ہے۔ روزے کے دوران، شدید بھوک اور پیاس ہمیں خود بہ خود خاموش کرا دیتی ہے۔ رمضان المبارک میں اعتکاف میں بیٹھنا کیا مطلب سموئے ہوئے ہے ؟ دراصل اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ دنیا و مافیہا سے الگ اپنے اﷲ سے لو لگا لیتے ہیں اور اس دنیا اور اخروی دنیا سے متعلق سوالات پر غور کرتے ہیں اور اپنی اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے نفس کی چوکی داری کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔
غور کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ جیسے رمضان المبارک میں اپنے روزے کی حفاظت کے لیے اس بات کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہیں کہ آپ سے کوئی ایسا کام نہ ہو جائے جو اﷲ کو ناپسند ہو مبادا آپ کا روزہ ضایع ہو جائے بالکل اسی طرح غیر ِ رمضان آپ اپنے نفس کی اسی طرح کی چوکی داری کرتے ہیں یا نہیں ؟ سورہ یوسف ؑ آیت 23، مفہوم: ''اس عورت نے کہ جس کے گھر میں یوسف تھا، یوسف کو ورغلانا شروع کیا کہ وہ اپنے نفس کی نگرانی چھوڑ دے اور دروازہ بند کر کے کہنے لگی آ جاؤ یوسف۔''
اسی طرح کی نفس کی نگرانی اﷲ تعالی نے آپ کو تمام رمضان میں سکھائی ہے۔ نفس کی نگرانی کی پورے مہینے عملی مشق کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ غیر ِ رمضان اپنی زندگی کے لمحات کیسے گزارتے ہیں۔۔۔؟
سورہ النازغات آیت37 تا 40، مفہوم: ''تو جس شخص نے سرکشی کی ہوگی اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی ہوگی اس کا ٹھکانا جہنّم ہی ہے مگر ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا۔''
حضرت معاذ ؓ سے ابن ماجہ کی حدیث3973 میں مروی ہے کہ آپؐ نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا: اس کو روک رکھو۔ میں نے عرض کیا: اے اﷲ کے نبیؐ! جو گفت گو ہم عام طور پر کرتے ہیں کیا اس پر بھی مواخذہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اے معاذ! لوگوں کو جہنم میں اوندھے منہ گرانے کا باعث صرف ان کی زبان کی کھیتیاں (غیبت، بہتان، گالیوں بھری باتیں) ہی تو ہوں گی۔''
سورہ بنی اسرائیل آیت 32 میں اﷲ تعالی ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ''زنا کے قریب بھی مت جاؤ کیوں کہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ ہے۔'' تفاسیر کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قریب جانے سے مراد ان افعال، حالات اور افراد سے دور رہنا ہے جو زنا کا باعث بن سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ رمضان المبارک نے آپ کو نفس کی جس چوکی داری کا درس دیا ہے آپ زبان اور زنا کے حوالے سے کس قدر اہتمام کے ساتھ اس کی خبر رکھتے ہیں کہ وہ لوگ کون ہیں جو آپ کو غیبت، گالی، بہتان، فحش گفت گو اور لایعنی باتوں میں الجھا کر آپ کے وقت اور مستقبل دونوں کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔۔۔ ؟
رمضان المبارک نے آپ کو یہ درس بھی تو دیا ہے کہ بھوک، پیاس اور مادی آسائشوں کی کمی انسانی زندگی پر کس قدر شدید اثرات مرتب کرتی ہے؟ یوں آپ کو اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ بہتر رویّوں اور احسان کی روش قائم رکھنے کا امتحان شروع ہونے کو ہے۔ سورہ العمران آیت186، مفہوم: یقیناً تمہارے اموال اور نفس سے تمہاری آزمائش کی جائے گی۔ آپؐ کی حدیث کے مطابق تو ایمان مکمل ہی تب ہوتا ہے جب ہم اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کریں جو اپنے لیے کرتے ہیں۔
ہماری زندگی کا مقصد حقوق اﷲ اور حقوق العباد کی معیاری تکمیل ہے۔ حقوق اﷲ اور حقوق العباد واضح ہیں اور آپؐ کی صورت ان حقوق کی ادائی کا معیار بھی واضح ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو ان دو قسم کے حقوق کی تکمیل کے حوالے سے دنیاوی زندگی میں اپنے اختیار اور شیاطین کی موجودی میں، ایک آزمائش سے دوچار کردیا گیا ہے۔
علوم ِ قرآن و حدیث کا مقصد یہی ہے کہ ان کے ذریعے حقوق اﷲ اور حقوق العباد کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ عام لوگوں کو یہ صراط ِ مستقیم، ان کی اپنی اپنی زندگی کے تناظر میں بالکل صاف نظر آئے اور یوں زندگی میں پیش آمدہ کسی دو راہے پر صراط ِ مستقیم طے کرنے کا امکان میسر رہے۔ لیکن صراط ِ مستقیم پر چلنے کے بعد بھی کام یابی اﷲ کی مرضی پر منحصر ہے۔ ہم مسلمان، بچپن سے لڑکپن اور جوانی سے ادھیڑ عمر تک اور پھر بڑھاپے تک، صراط ِ مستقیم کو طے کرنے کے عمل سے دوچار رہتے ہیں اور یہ سب تدریجاً ہوتا ہے۔
درس ہائے رمضان المبارک بے شمار ہیں مگر ان سب کا مقصد و منتہا یہی ہے کہ آپ انہیں کس قدر اہتمام اور شوق سے اپنی عملی زندگی میں جاری کرتے ہیں ۔۔۔ ؟ اس سلسلے میں آپ تدریج کا راستہ بھی اپنا سکتے ہیں مگر پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ شیطان بھی کہیں تدریج کے ساتھ آپ کو اپنے راستے پر نہ لے جائے۔ سورہ اعراف آیات 16,17,18، مفہوم: ''پھر شیطان نے کہا کہ مجھے تو تُونے ملعون کیا ہی ہے، میں بھی تیرے سیدھے رستے پر ان (انسانوں) کو گم راہ کرنے کے لیے بیٹھوں گا، پھر ان کے آگے سے اور پیچھے سے، دائیں سے اور بائیں سے آؤں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گذار نہیں پائے گا۔ اﷲ نے فرمایا: یہاں سے نکل جا مردود ۔ جو لوگ ان میں سے تیری پیروری کریں گے میں ( ان کو اور تم سب کو) جہنم میں بھر دوں گا۔''
جب بڑے بڑے شیطان رمضان کے بعد آزاد ہوں گے تو ایسی صورت میں ہمیں اپنے اپنے نفس کی زبردست نگرانی کرنا ہوگی یوں ہمارا امتحاں اور بھی سخت اور محتاط رویوں کا متقاضی ہوگا ۔