یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے
دماغ کو گروی رکھنے کے بجائے کچھ نہ کچھ اپنے طور پر بھی پڑھنے یا سمجھنے کی زحمت کیجیے
کراچی:
اگر آپ آج بھی کسی قصبے میں پرانے چائے خانے، حجامت مرکز، دودھ دہی، کریانے یا دھوبی کی دوکان پر چلے جائیں تو شاید آپ کو کسی دیوار پر لکھا مل جائے کہ یہاں فضول بیٹھ کر اپنا وقت ضایع کرنا یا سیاسی گفتگو منع ہے۔
غالباً ان دوکانوں پر اس طرح کی ہدایات مارشل لائی حکومتوں کے خوف سے نمودار ہوئیں تاکہ سیاسی بحث بازی اور ممکنہ گرما گرمی کے سبب کہیں دوکان دار اور اس کے کاروبار کی ہی شامت نہ آ جائے۔
یا پھر اس طرح کے نوشتہِ دیوار سن ستر کی انتخابی مہم کا نتیجہ ہیں جب دائیں بائیں کی نظریاتی تقسیم پر مشرقی و مغربی پاکستان کا ہر کس و ناکس سیاسی بحث و مباحثے کے ذریعے اندر دبا غبار نکال رہا تھا۔
رفتہ رفتہ جب چائے خانہ کافی کارنر میں ، نائی کی دوکان اسٹائلسٹ اسٹوڈیو میں ، دودھ دہی کی دوکان ملک شاپ میں ، کریانہ شاپ مشتاق میگا اسٹور میں اور دھوبی کی دوکان کلینرز لیب میں تبدیل ہوئی تو دیواروں پر لکھی ہدایات بھی معدوم ہونے لگیں۔ گفتگو کے موضوعات بھی غیر نظریاتی و غیر سیاسی و غیر منطقی ہوتے چلے گئے۔
جن جن دوکانوں کا میں نے ذکر کیا وہاں رفتہ رفتہ موبائیل فون کا کاروبار قبضہ کرتا چلا گیا۔ ساٹھ، ستر اور اسی کے دہائی کے نوجوان کے برعکس موبائیل گزیدہ نسل کے لیے سب سے زیادہ سببِ فکر مندی یہ ہو گیا کہ کون سا نیا ماڈل سستا مگر کول ہے ، کس میں ڈبل سم لگتی ہے۔
کون سے نیٹ ورک کا نائٹ بنڈل پیکیج کس نیٹ ورک سے زیادہ منٹ دیتا ہے۔پانچ سو روپے کے ایزی لوڈ میں کتنے گھنٹے کا ٹاک ٹائم موجود ہے۔ کون سی میم ہٹ ہے، کون آج زیادہ ٹرینڈ کر رہا ہے۔میری پوسٹ پر اب تک کتنے ہٹس آئے اور انھیں کون سا نیا مصالحہ ڈال کے انھیں بڑھایا جا سکتا ہے۔کتنے سبسکرائبرز ہوں تو چینل مونیٹائز ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ۔
یہ وہ نیا نشتر پارک، ناصر باغ، لیاقت باغ، سوئیکارنو چوک ، قلعہ قاسم باغ ، گھنٹا گھر ، پیپلز چورنگی ، فیض آباد اور ڈی چوک تھا جو خود چل کے ہمارے گھروں تک آ گیا۔جلسے روائیتی تاریخِی میدانوں سے اٹھ کر ٹویٹر سپیس اور فیس بک لائیو پر چلے گئے۔اگر روائتی جلسہ گاہوں میں پچیس پچاس ہزار کی گنجائش تھی تو ڈجیٹل جلسہ گاہ میں لاکھوں لوگ شریک ہونے لگے۔
جنھوں نے ان مقاماتِ آہ و فغاں پر پہلے قبضہ کر لیا اب وہ آگے آگے ہیں اور باقی آج تک پریس کانفرنس، میگا فون، کارنر میٹنگ، ورکرز کنونشن ، ڈور ٹو ڈور رابطے ، افطاری اجتماعات و کھلی کچہریوں کے کلچر میں پھنسے پڑے ہیں۔
پچاس برس پہلے کا سیاسی و نظریاتی بیانیہ بس اور ویگن پر سفر کرتا تھا۔آج کا نیم سیاسی ادھ کچا پکا بیانیہ بلٹ ٹرین پر چڑھ گیا ہے۔پہلے کیا جھوٹ ہے کیا سچ ہے اگلے دن اخبار کے ذریعے گھر قاری اور دھوبی کی دوکان تک پہنچتا تھا اور پھر اس پر بحث شروع ہو جاتی تھی جو کئی دن چلتی تھی۔
اب جھوٹ ، سچ ، آدھا سچ ماؤس کے ایک کلک کی مار ہے۔سلم سٹارٹ کول سڈول مصالحے دار رسیلا چمکیلا جھوٹ کلک ہونے کے چند منٹ بعد ہی آؤٹ آف اسٹاک ہو جاتا ہے اور سچ اپنا ریڑھا بھرے بازار میں کھینچتا ہوا آواز بٹھا رہا ہوتا ہے۔
اگر آپ آج کے پاکستانی شہری گھر یا فلیٹ کے مکینوں کی مصروفیات دیکھیں تو آپ کو بنیادی کہانی سمجھ میں آ جائے گی۔ٹی وی پر چالیس چینل ، ہاتھ میں ریموٹ ، جتنے مکین اتنے موبائیل ، دماغ کی بورڈ ، انگلیاں کی بورڈ کی غلام، چلتے پھرتے بیٹھتے اٹھتے نگاہیں چھوٹی یا بڑی اسکرین کی جانب ، کھانا پینا بھی ایپ پر دستیاب ، جسمانی نقل و حرکت آدھی ، پڑوسی سے محض نام و شکل کی حد تک تعلق اور سیڑھیاں اترتے چڑھتے یا آمنا سامنا ہوتے ہوئے دعا سلام۔
بیٹھک یا تھڑے یا ہماچے کا کلچر صرف بے روزگار نوجوانوں یا فارغ بڈھوں کی منڈلیوں تک محدود ہو کے رہ گیا ہے۔ان منڈلیوں میں بھی غیر سیاسی انداز میں جو سیاسی گفتگو ہوتی ہے وہ شخصیت پرستی و شخص کشی کے تنگ دائرے سے باہر نہیں نکل پاتی۔میں کیوں کسی کو پسند کرتا ہوں ٹھیک سے نہیں معلوم بس پسند کرتا ہوں۔میں کیوں کسی کو ناپسند کرتا ہوں ٹھیک سے نہیں معلوم بس ناپسند کرتا ہوں۔
کیا آپ کی رائے آپ کی اپنی ہی ہے یا فیشن میں چل رہی رائے کو آپ نے اپنی رائے کے طور پر اپنا لیا ہے ؟ کیا آپ کے دلائل آپ کے اپنے دماغ کی پیداوار ہیں یا کسی کے دلائل کو آپ نے اپنا پاجاما پہنا کر اپنا لیا ہے ؟ ٹھیک سے نہیں معلوم۔بس فلاں فلاں کہہ رہا ہے تو ٹھیک ہی کہہ رہا ہوگا۔اور فلاں فلاں کہہ رہا ہے تو جھوٹ ہی بول رہا ہوگا۔ مگر آپ اس نتیجے پر کیسے پہنچے ؟ پتہ نہیں۔
پچاس برس پہلے سیاسی و نظریاتی پولرائزیشن کیوں تھی؟ یہ تب کی نسل کو کسی حد تک معلوم تھا۔کیونکہ بھانت بھانت کے سیاسی و نظریاتی کارکن پائے جاتے تھے اور غیر سیاسی یا عام لوگ ان کی باتیں دھیان سے سن کر اپنی جیسی کیسی رائے بناتے تھے۔ اور اس رائے میں انسان سے انسان کے رابطے کا رشتہ جھلکتا تھا۔
آج جو بھی آپ کی اچھی بری ، ادنی اعلیٰ دماغ سازی کر رہا ہے اس کی شاید آپ نے کبھی شکل بھی نہ دیکھی ہو نہ ہی دیکھنے کا امکان ہے۔ہو سکتا ہے کہ وہ جس نام سے اسکرین پر چھایا ہوا ہے وہ اس کا اصل نام بھی نہ ہو۔یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کوئی انسان ہی نہ ہو بلکہ لوگارتھم مشین ہو یا کسی اصل کا ڈیپ فیک ہو۔
مگر یہ ورچوئل شخص یا اس کی ورچوئل ٹیم یا لوگارتھم یا ڈیپ فیک آپ کی ورچوئل اسکرین پر ورچوئل ریئلٹی کو اصل کے بھاؤ بیچ رہے ہیں اور آپ کا دماغ اسے اصل سمجھ کے منہ مانگے ذہنی دام دے کر خرید بھی رہا ہے۔اور اس کی بنیاد پر قصیدہ خواں یا ہجو گو بن کے اتراتا پھر رہا ہے۔
اگر آپ واقعی اسے کوئی سنگین مسئلہ سمجھتے ہیں تو اس کا بس ایک ہی توڑ ہے۔دماغ کو گروی رکھنے کے بجائے کچھ نہ کچھ اپنے طور پر بھی پڑھنے یا سمجھنے کی زحمت کیجیے۔ہو سکتا ہے بعض حقائق آپ کی بنی بنائی رائے سے متصادم ہوں۔انھیں قبول کر کے آہستہ آہستہ اپنی حقیقی رائے تشکیل دینے کی کوشش کیجیے۔
سنیں سب کی مگر کریں اپنی لیکن اپنی پروسیسنگ مشین میں ڈال کے۔ایک باخبر رائے ہی آپ کو ذاتی یا اجتماعی بحران کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔بے خبر رائے کے ساتھ کسی فیصلے یا نتیجے پر پہنچنا اور نیند میں چلنا ایک ہی بات ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)