صحت کا شعبہ سندھ حکومت کی ناکامی
ایک آفت تو آگ لگنے سے برپا ہوئی جس کی وجوہات ابھی تک پتہ نہیں چل سکیں
LONDON:
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے آبائی علاقہ دادو سے فیض محمد دریانی چانڈیو ولیج زیادہ دور نہیں ہے۔ گزشتہ ماہ اس گوٹھ کے ایک مکان کے باورچی خانہ میں آگ لگ گئی اور تیز ہوا نے آگ کے شعلوں کو مزید بھڑکایا اور کچے مکانات میں قیامت برپا ہوئی۔
آگ سے نو کے قریب افراد اور بہت سے مویشی خاکستر ہوگئے۔ گھروں میں موجود تمام سامان جل گیا، حتیٰ کہ غلہ اور جانوروں کا چارہ بھی بھسم ہوا۔ ایک شخص نے اپنی بربادی کا حال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اچانک شور سے نیند سے بیزار ہوا۔ میری نظر اپنے چھوٹے بھتیجے پر پڑی، میں نے اس کو آگ سے نکالا۔ جب میں اپنے بھتیجے کو محفوظ مقام پر چھوڑ کر اپنے دو بچوں کی تلاش میں آیا تو آگ کے شعلے آسمان تک پہنچ گئے تھے ، بچے اور مال مویشی سب جل کر راکھ بن گئے۔
ایک خاندان کے چار بچے اس آگ کی نذر ہوگئے۔ ایک آفت تو آگ لگنے سے برپا ہوئی جس کی وجوہات ابھی تک پتہ نہیں چل سکیں مگر اس سے بڑی آفت انتظامیہ کی بے حسی اور انسانی جانوں سے عدم دلچسپی کی بناء پر ہوئی۔
نشر اور شایع ہونے والی اطلاعات سے واضح ہوتا ہے کہ آتش زدگی کی جگہ پر فائر بریگیڈ 12 گھنٹے بعد پہنچا جب کہ اس گاؤں کا شہر سے فاصلہ صرف 30کلومیٹر دور ہے۔ علاقہ کے لوگوں نے آتشزدگی کی فوٹیج ضلع انتظامیہ کو فوراً بھیجنی شروع کردی تھیں، مگر فائر بریگیڈ کے پہنچنے کے آٹھ گھنٹے بعد اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر موقع پر تشریف لائے۔ ایک کالم نگار لکھتے ہیں کہ ضلع انتظامیہ اور میہڑ تعلقہ اسپتال کے پاس ایمبولینس دستیاب نہیں تھیں اور علاقہ کے منتخب اراکین کی مسلسل کوششوں کے بعد زخمیوں اور لاشوں کو پولیس موبائل میں اسپتال منتقل کیا گیا۔
صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ بات غلط ہے کہ ضلعی انتظامیہ اس سنگین حادثہ سے آگاہ نہیں تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے آتش زدگی کے فوٹیج ضلع افسروں کو فوراً بھجوانے شروع کیے تھے۔ متعلقہ تھانہ اور ضروری اعلیٰ افسران کو پیغام ترسیل کیے گئے۔ علاقہ میں تعینات اسسٹنٹ کمشنر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر جائے حادثہ پر پہنچے تھے مگر ضلع میں فائر بریگیڈ دستیاب ہی نہیں اور نہ ہی اسپتال میں ایمبولینس ہیں۔
کالم نگار کا استدلال ہے کہ فیض محمد دریانی چانڈیو گوٹھ تعلقہ میہڑ کا حصہ ہے اور میہڑ ضلع دادو میں شامل ہے۔ ضلع دادو کی آبادی 17 لاکھ کے قریب ہے۔ دادو کے شہر کی زبوں حالی ، ایمبولینس کی نایابی اور فائر بریگیڈ دستیاب نہ ہونا پیپلز پارٹی کے سندھ کی ترقی کے دعوؤں کی حقیقی تردید ہے۔
صحافیوں نے لکھا ہے کہ سندھ کی حکومت نے امدادی سامان اور معاوضہ کے چیک بھجوائے تو علاقہ ڈیوٹی پر تعینات پولیس اہلکاروں نے یہ سامان لوٹ لیا۔ گو کہ حکومت سندھ نے فوری اقدام کرتے ہوئے پولیس اہلکاروں کی لوٹ مار کی تحقیقات کرائیں اور 11 اہلکاروں کو برطرفی کا سامنا کرنا پڑا۔
آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے بعد قومی مالیاتی ایوارڈ کی ازسرنو تشکیل ہوئی۔ سندھ کی آمدنی میں کئی سو فیصد اضافہ ہوا۔ سندھ میں فیاضی کی شرح خاصی معقول ہے۔ کراچی میں سرکاری شعبہ میں تین بڑے اسپتال سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (S.I.U.T) ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی نگرانی میں کام کررہا ہے۔
امراض قلب کا قومی انسٹی ٹیوٹ N.I.C.V.D ڈاکٹر قمر کی نگرانی میں اور گمبٹ کا گردوں کے امراض کا اسپتال ڈاکٹر بھٹی کی نگرانی میں برسوں سے کام کررہے ہیں۔ اسی طرح کراچی میں نجی شعبہ میں قائم ہونے والا انڈس اسپتال ہے جہاں کیش کاؤنٹر نہیں ہے اور ڈاکٹر باری اس اسپتال کے روح رواں ہیں۔ ان اسپتالوں کو حکومت سندھ امداد فراہم کرتی ہے مگر ان اسپتالوں کے کھربوں روپے کے اخراجات نجی شعبہ کی فیاضی سے پورے ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں صحت کا شعبہ پسماندگی کا شکار رہا اور اب یہ مزید ابتری کی طرف بڑھ رہا ہے۔
سکھر اور حیدرآباد تک کسی اسپتال میں برنس وارڈ نہیں ہے۔ گھوٹکی سندھ کا سرحدی شہر ہے وہاں سے حیدرآباد تک اگر کوئی مریض 10-20 فیصد سے زیادہ جل جائے تو اس کی زندگی بچانے کے لیے کراچی کے سول اسپتال کے برنس انسٹی ٹیوٹ تک منتقلی کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
اس انسٹی ٹیوٹ میں مریضوں کا دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اندرون سندھ سے آنے والے مریضوں کو اس اسپتال میں جگہ نہیں ملی کہ مریضوں کے لواحقین اپنے پیاروں کی جان بچاتے، لہٰذا انھیں نجی اسپتالوں میں منتقل کرنا پڑتا ہے جہاں اسٹیٹ آف آرٹ سہولتیں موجود ہیں مگر ان اسپتالوں کا آئی سی یو کا بل چار سے پانچ ہندسوں تک پہنچ جاتا ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر مریض کا 30فیصد حصہ جل جائے تو اس کے لیے فوری طور پر آئی سی یو میں منتقل کرنا لازمی ہوتا ہے۔ دوسری صورت میں مریض کا موت کے منہ میں جانا یقینی ہوجاتا ہے۔ اس حادثہ کے مریض کو فوری طور پر آئی سی یو میں منتقلی کے بعد کوئی راستہ نہیں ہے۔ دوسری صورت میں مرنے والے افراد کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔
گزشتہ عیدالاضحی کے موقع پر حیدرآباد کے معروف علاقے لطیف آباد میں شدید گرمی کی بناء پر جنریٹر پھٹ گیا اور علاقہ میں آگ لگ گئی تھی۔ اس حادثہ میں خاصے افراد جھلس گئے۔ حیدرآباد شہر میں ایمبولینس آسانی سے دستیاب نہیں ہوتی۔
نجی اداروں کی ایمبولینس نے زخمیوں کو کراچی کے اسپتالوں میں منتقل کیا مگر 11 افراد اس حادثے کی نذر ہوئے۔ ان میں سے کچھ اسپتال منتقلی کے دوران جاں بحق ہوئے اور کچھ اسپتالوں میں کئی دن زیر علاج رہنے کے بعد جاں بحق ہوئے۔
سوال یہ ہے کہ بلاول بھٹو جن اسپتالوں پر فخر کرتے ہیں ان کی ترقی کا زیادہ تر دارومدار نجی شعبہ سے ہے۔ حکومتِ سندھ کا صحت کا بجٹ 14 سال میں کہاں خرچ ہوا ہے، اگر سندھ کی حکومت پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19-A کی پیروی کرتے ہوئے اطلاعات کے حصول کا ٹرانسپرنسی کمیشن قائم کردے تو ویسے ہی حقائق سامنے آئیں گے جیسے عمران خان کے توشہ خانہ کیس میں سامنے آئے ہیں۔
پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے امدادی کاموں کو مربوط کرنے کے لیے ریسکیو 1122 قائم کیا تھا۔ اس ریسکیو اسکواڈ میں جدید ایمبولینس اور جدید طبی امداد فوری فراہم کرنے والا طبی عملہ شامل ہوتا ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ریسکیو 1122 کو مزید ترقی دی۔ یوں پنجاب کے شہروں اور گاؤں میں اب امدادی کاموں اور ایمبولینس کی دستیابی میں خاصی آسانی پیدا ہوگئی ہے مگر سندھ میں ابھی تک ایسا کوئی ادارہ قائم نہیں ہوسکا ہے۔
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اس حادثہ کے بعد متاثرہ گوٹھ پہنچے، وہ پہلے دادو اور پھر دادو سے متصل شہر لاڑکانہ گئے۔ لاڑکانہ کے صحافیوں نے ایمبولینس اور فائر بریگیڈ کی عدم دستیابی ، سرکاری اسپتالوں میں تعینات عملہ کے نام پر موجود نہ ہونے کے بارے میں وزیر اعلیٰ کو تفصیلی بریفنگ دی مگر مراد علی شاہ نے اس بریفنگ کے دوران یہ کہہ کر معاملہ کو داخل دفتر کیا کہ یونین کونسل کی سطح پر امدادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے فزیبلٹی تیار کرنے کے احکامات جاری ہوچکے ہیں۔
انھوں نے اس المناک حادثہ میں فائر بریگیڈ کے فوری بعد موقع پر نہ پہنچنے، ایمبولینس دستیاب نہ ہونے اور ضلع افسروں کی عدم دلچسپی کے واقعات کی تحقیقات کرانے کے بارے میں کچھ نہیں کیا، گووزیر اعلیٰ سندھ نے متاثرہ گوٹھ کا دروہ کیا مگر وزیر صحت نے اتنی زحمت بھی نہیں کی اور نہ کسی افسر کے خلاف کارروائی کے احکامات دیے۔ پیپلز پارٹی کے مرد آہن آصف زرداری عمران خان کی نااہل حکومت کی برطرفی کا کریڈٹ لے رہے ہیں مگر ان کی حکومت جو سندھ میں کر رہی ہے ،وہ کس کا کریڈٹ ہے۔