لیاری کی تاریخی بستی بہار کالونی
بہار کالونی کی زمین کو شہر کراچی کا کچرا ڈال کر اونچا کیا گیا تھا
لیاری میں چاکیواڑہ (ٹرام پٹہ ) ،کمہار واڑہ ، کلری ،کھڈہ ،شیدی ولیج ،بغدادی ،کلاکوٹ ،رانگی واڑہ، میرا ناکہ ،سیفی لین ،سنگو لین ،شاہ بیگ لین ،نوکیں لین، ریکسر لین ،گل محمد لین ،بہار کالونی ،آگرہ تاج کالونی ،لی مارکیٹ ،موسیٰ لین ( کنکری گرائونڈ ) وہ علاقے ہیں، جو قدیم ترین ہیں ، جب کہ لیاری کے نئے علاقوں میں دریا آباد ، کھڈہ میمن سوسائٹی ، لیاقت کالونی، علامہ اقبال کالونی اور دیگر بہت سے علاقے شامل ہیں۔ لیاری کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہاں ہم بہار کالونی کا تذکرہ کررہے ہیں ۔
تقسیم ہند سے چند ماہ قبل، ہندوستان کے صوبے بہار میں ہونیوالے سنگین ہندو مسلم فسادات کے بعد فروری 1947میں پہلی خصوصی ریل گاڑی کے ذریعے وہاں کے متاثرین کو کراچی لایا گیا تو لیاری کے اس علاقے میں انھیں آباد کیا گیا ۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی ہدایت کیمطابق آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنما مولانا عبداللہ قدوس بہاری نے ان متاثرین کو اس وجہ سے یہاں آباد کیا تھا کہ شہر سے قریب ہونے کے سبب انھیںضرورت کی تمام اشیا ء باآسانی حاصل ہو جائیں اس طرح بہار سے آئے ہوئے لوگوں کی وجہ سے یہ علاقہ ( بہار کالونی ) کے نام سے موسوم ہوا ۔
بہار کالونی کی زمین کو شہر کراچی کا کچرا ڈال کر اونچا کیا گیا تھا۔اس بات کا پس منظر یہ ہے کہ لیاری کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں بہار کا لونی کافی نشیب میں تھی اور برسات کے موسم میں سیلاب کے خطرے کے ساتھ ہی برساتی پانی کافی دنوں تک گلیوں میں کھڑا رہتا تھا ۔چنانچہ 1964 میں بہار کالونی کے بعض بی ڈی ممبران اور خصوصا بی ڈی چیئر مین سید فضل الرحمان جعفری (مرحوم ) کی تجویز پر پورے شہر کا کچرا بہارکالونی کی گلیوں اور سڑکوں پر ڈال کر اس کی سطح کو اس حد تک بلند کردیاگیا کہ آیندہ برساتی پانی جمع نہ ہوسکے۔
اب لیاری ندی کے کنارے لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر کے بعد بہارکالونی کے لیے سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ ہوگئی ہے ۔ جو لوگ بہار (بھارت ) سے ہجرت کرکے لیاری کراچی آئے ان لوگوں کی 80فیصد تعداد تعلیم سے بہرہ ور تھی چنانچہ 14اگست کو قیام پاکستان کے بعد یہاں کے رہنے والے لوگوں نے سرکاری ملازمتیں اختیار کیں اور دیگر افراد نے پیٹ پالنے کی غرض سے بہار کالونی کے اندر ہی چھوٹی بڑی پرچون کی دکانیں اور جنرل اسٹور ز کھول لیے۔
بہار کالونی کے مکانات اس انداز میں تعمیر کیے گئے تھے کہ گلی کے کونے پر کھڑے ہوکر بہارکالونی کا آخری حصہ بھی دیکھا جاسکتا تھا ۔ کالونی کے درمیان کھیل کا ایک بڑا میدان اور میدان سے متصل ایک جامع مسجد بنائی گئی تھی ۔ یہ جامع مسجد اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ اس کی بنیاد 14اگست 1947کو علامہ شبیر احمد عثمانی نے رکھی تھی۔اس مسجد میں شیخ الحدیث حضرت مولانا قاری رعایت اللہ نے طویل عرصہ تک وعظ وامامت فرمائی ۔اسی مسجد کے قریب ہی سرکاری اسکول قائم کیا گیا تھا جس میں دو شفٹوں میں تعلیم دی جاتی تھی۔
پرائمری اسکول میں مخلوط تعلیم جب کہ سیکنڈری کی سطح پر صرف طلباء تعلیم حاصل کیا کرتے تھے ۔چند سال بعد لڑکوں کے لیے کالونی سے باہر کوئلہ گودام موجودہ گلستان کالونی میں سرکاری اسکول تعمیر ہوجانے کے بعد اس اسکول کو صرف طالبات کے لیے مخصوص کردیا گیا۔ جامع مسجد سے متصل اس کھیل کے میدان کو عید گاہ کی حیثیت حاصل تھی مگر 1971 میں کے ایم سی نے اس میدان کو اپنی تحویل میں لے لیا ۔ 2011 میں اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر لیاری ٹاؤن محمد ریئسی کی ہدایت پر اس پارک کو ماڈل پارک بنایا گیا جسے فیملی پارک کا درجہ دیا گیا۔
ایک عرصہ تک کراچی کی مشہور فٹ بال ٹیمیں اس میدان میں بہار کالونی کی واحد ٹیم الیون اسٹار سے میچ کھلتی تھیں اور یہ میچز اس قدر دلچسپ ہوتے تھے کہ ہر دن فٹبال کا میدان تماشائیوں سے بھرا ہوتا تھا ۔ بہار کالونی کے قیام کے وقت سرکاری طور پر نقشہ میں مرزا آدم خان روڈ سے متصل پارک کی جگہ مختص کی گئی تھی جہاں اب کے الیکٹرک کا دفتر قائم ہوچکا ہے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بہار کالونی کے ہر گھر سے مغرب کے بعد بچوں کے سبق پڑھنے کی آوازیں آتی تھیں اور مغرب کے بعد کسی بچے کا تنہا گھر سے نکلنا معیوب سمجھا جاتا تھا لڑکوں کو صرف عصر تا مغرب گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی جاتی تھی جو اس بات کی دلیل تھی کہ بہار کالونی تعلیم یافتہ لوگوں کا علاقہ رہا ہے۔
1959 میں شدید بارشوں کے سبب سیلاب آیا جس وجہ سے جانی مالی نقصانات ہوئے۔ بعض مالی طور پر مستحکم افراد نے پہلی دفعہ کالونی سے منتقلی کا آغاز کیا اور بہار مسلم ہاؤسنگ سوسائٹی کے نام سے ایک علاقہ آباد کیا۔ 1965میں پاک بھارت جنگ کی وجہ سے کئی لوگ خوف زدہ تھے اسی جنگ کی وجہ سے کئی گھرانے ایک دفعہ پھر کالونی سے منتقل ہوگئے۔ 1971کی پاک بھارت جنگ کے دوران بھارتی طیاروں نے کالونی اور لیاری ندی میں چار پانچ بم گرائے ۔تقریبا تین سو سے زائد افراد شہید ہوگئے تھے اور کئی مکانات ملبے کا ڈھیر بن گئے تھے اس طرح بمباری کے خوف سے بھی کالونی سے ایک بڑی تعداد کراچی کے دیگر علاقوں میں منتقل ہوگئی۔
بعد ازاں یہاں دوسری قوموں کے لوگ آباد ہوتے گئے اور کاروباری ثمرات کے لیے یہ کالونی پرکشش بنتی چلی گئی۔ قبل ازیں 1957 میں بہار کالونی میں بجلی کی فراہمی کا کام شروع ہوا تھا اور کالونی کے اندر ایک سب اسٹیشن تعمیر کیا گیا مگر بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب بجلی کا نظام تعطل کا شکار رہا۔ 1985 میں بہار کالونی میں پانچ چھ منزلوں پرمشتمل فلیٹوں کی تعمیر کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا جو کہ آج بھی جاری ہے ۔بلند و بالا عمارتوں میں بزریعہ موٹر پانی اوپر کی ٹینکوں تک پہنچانے کی وجہ سے مکینوں کو پینے کے پانی کا مسئلہ بھی درپیش رہتا ہے۔
بہار کالونی میںنکاسی آب کا مسئلہ 1947سے 1979 تک انتہائی تکلیف دہ رہا لیکن 1983 میں اس وقت کے کونسلر عبدالودود کی کوششوں سے یہ مسئلہ نئی سیوریج لائن ڈالنے کے بعد حل کیا گیا۔انھی کے دور میں بہار کالونی کی گلیوں اور سڑکوں کو پہلی مرتبہ پختہ کیے گئے۔ روزانہ کی بنیاد پر گلی کے تمام مین ہولوں کی صفائی کی جاتی تھی۔ اس طرح گندے پانی کی نکاسی میں کوئی رکاوٹ نہ پڑتی تھی ۔ یہ بات بہار کالونی کے لیے قابل فخر ہے کہ یہاں بڑے بڑے عالم ،ادیب ،شاعر ،محقق ،پروفیسر ،صحافی اور ڈاکٹر رہائش پذیر رہے ہیں، جن کی فہرست طویل ہے۔