مسلم لیگ کا سیاسی سفر
ہماری سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مخالفین کی فتح کو قبول نہیں کیا جاتا
ISLAMABAD:
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی ابتدا اور تنظیم کی تاریخ متحدہ ہندوستان سے عبارت ہے۔
1857 کی جنگ آزادی کے بعد جب ہندوستان کے سیاسی اکابرین نے یہ محسوس کرلیا کہ انگریزوں کو طاقت کے زور پر اس ملک سے نہیں نکالا جاسکتا تو دوسرا راستہ یہ باقی تھا کہ ان کے خلاف سیاسی جدوجہد کی جائے۔ اس نظریے کے طفیل دسمبر 1885 میں انڈین نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں آیا۔
ابتدا میں ہندوستان کے مسلمان اور ہندو دونوں اس جماعت کے ساتھ مشترکہ جدوجہد پر آمادہ تھے لیکن جلد مسلمانوں نے یہ محسوس کر لیا کہ بنیادی طور پر انڈین نیشنل کانگریس ہندوؤں کے مفادات و حقوق کی محافظ ہے۔ چنانچہ ہندوستان کے مسلمانوں نے 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی ڈھاکہ میں بنیاد رکھی جو دو قومی نظریے (ہندو و مسلمان) پر قائم کی گئی۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ نے اپنا سفر آگے بڑھایا۔ مارچ 1940 میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر اپنے لاہور کے اجلاس میں مسلم لیگ نے قرارداد پاکستان منظور کی اور محض سات سال کی شبانہ روز جدوجہد کے بعد اگست 1947 میں قائد اعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنا مقصد اور منزل یعنی ایک آزاد اسلامی ملک کا قیام حاصل کرلی، یوں 14 اگست 1947 کو قائد اعظم کی قیادت میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور آل انڈیا مسلم لیگ نے پاکستان کی بانی سیاسی جماعت ہونے کا منفرد اعزاز حاصل کرلیا۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ آل پاکستان مسلم لیگ میں تبدیل ہوگئی اور اس نے مرکز اور صوبوں میں حکومتیں تشکیل دیں۔
قائد اعظم کی وفات اور ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان مسلم لیگ کا وقار اور اعتبار جاتا رہا۔ اس کے پاس عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی جامع اور مسلمہ پروگرام نہ تھا اسی باعث یہ عوام کے سامنے کوئی واضح نصب العین رکھنے میں ناکام رہی۔
مسلم لیگ میں شامل اکثر اکابرین قوم کی خدمت کے جذبے سے سرشار نہ تھے بلکہ ان کے دلوں میں جاہ و منصب کی تمنا اور انفرادی و ذاتی مفادات کا حصول کروٹیں لے رہا تھا، پھر یوں ہوا کہ مسلم لیگ پر جاگیرداروں اور زمینداروں نے غلبہ حاصل کرلیا اور جماعت میں اپنی طاقت منوانے اور اپنی مرضی چلانے کے چکر میں ایک دوسرے کے خلاف ہی سازشیں شروع کردیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم لیگ کے اندرونی اختلافات نے اس کی وحدت کو برباد کردیا اور وقفے وقفے سے آل پاکستان مسلم لیگ جس نے پاکستان کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا مختلف دھڑوں اور گروہوں میں تقسیم ہوتی چلی گئی۔
اقتدار سے معزولی اس کا مقدر بن گئی۔ جب جنرل ایوب خان نے اپنے آمرانہ اقتدار میں ایبڈو (EBDO) قانون کے تحت اہم مسلم لیگی رہنماؤں کو نااہل قرار دیا تو پھر آل پاکستان مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہوکر کنونشن مسلم لیگ اور قیوم مسلم لیگ کی شکل میں عوام کے سامنے آئی۔
1970 کے انتخابات میں کنونشن لیگ کو بری طرح سیاسی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس کیسیاست ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی جب کہ قیوم مسلم لیگ نے 1970 کے انتخابات میں 9 نشستیں اور 1977 کے انتخابات میں صرف ایک سیٹ جیتی اور یوں اس کی سیاسی حیثیت بھی ختم ہوکر رہ گئی۔ 1977 میں جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی اور جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر اپنا تسلط قائم کرلیا۔ پھر انھوں نے 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے اور 1973کے آئین کو آٹھویں ترمیم کے ساتھ بحال کردیا۔
پارلیمنٹ اگرچہ غیر جماعتی بنیاد پر وجود میں آئی تھی لیکن جلد ہی یہ سرکاری اور آزاد گروپ میں تقسیم ہوگئی۔ سرکاری گروپ کو پاکستان مسلم لیگ کے نام سے موسوم کرکے اس کو نیا جنم دیا گیا۔ جب محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے تو سرکاری مسلم لیگ ایک نئے نام یعنی مسلم لیگ جونیجو گروپ سے سامنے آئی۔ 29 مئی 1988 کو جنرل ضیا الحق نے اسمبلیاں توڑ کر جونیجو حکومت کو برطرف کردیا تو مسلم لیگ مزید دو نئے گروپوں جونیجو گروپ اور فدا محمد گروپ میں تقسیم ہوگئی۔ فدا گروپ کو جنرل ضیا الحق کی سربراہی حاصل تھی۔
اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور جنرل ضیا کے محبوب نظر میاں محمد نواز شریف کو مسلم لیگ فدا گروپ کا جنرل سیکریٹری بنا دیا گیا۔ جنرل ضیا کی فضائی حادثے میں ہلاکت کے بعد ملک میں جمہوریت بحال ہوئی اور پیپلز پارٹی کو اقتدار ملا اور مسلم لیگ اپوزیشن میں بیٹھی جمہوریت کی گاڑی آہستہ آہستہ لڑکھڑاتی، ہچکولے لیتی آگے بڑھتی رہی، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کو دو دو مرتبہ اقتدار ملا۔ 12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ کا اقتدار ختم کردیا اور میاں نواز شریف کو اہل خانہ سمیت ایک معاہدے کے تحت 10 سال کے لیے سعودی عرب بھیج دیا۔
میاں نواز شریف صاحب کی رخصتی کے بعد مسلم لیگ پھر تقسیم ہوکر (ق) لیگ یعنی قائد اعظم لیگ اور نواز لیگ کی شکل میں سامنے آئی۔ جنرل پرویز مشرف 2008 میں رخصت ہوئے اور پیپلز پارٹی اقتدار میں آگئی۔ 2013 میں پھر مسلم لیگ (ن) کو اقتدار ملا اور نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن گئے لیکن پانامہ لیکس میں عدالت نے انھیں نااہل قرار دے دیا۔ اقتدار سے معزولی کے بعد بغرض علاج آج کل وہ لندن میں قیام پذیر ہیں، وہیں سے بیٹھ کر وہ پاکستان میں اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کی باگیں ہلا رہے ہیں۔
میاں صاحب نے سیاست میں اپنے سب سے بڑے حریف پیپلز پارٹی سے ایسا گٹھ جوڑ کیا کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو گھر بھیج دیا۔ اگرچہ بڑے میاں صاحب کے چھوٹے بھائی شہباز شریف وزیر اعظم بن چکے ہیں لیکن یہ پی پی پی اور دیگر اتحادیوں کے طفیل ممکن ہوا ہے۔ بعینہ پنجاب میں بھی وزیر اعظم کے صاحب زادے حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں کامیاب تو ہوگئے ہیں لیکن وہاں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) ان کے انتخاب کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کے باوجود ان کی بہ حیثیت وزیر اعلیٰ پنجاب حلف برداری کو آئینی موشگافیوں میں الجھا کر صدر، گورنر پنجاب اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان پنڈولم بنانے کی کوشش کی گئی۔ بالاخر 30اپریل ہفتہ کے روز حمزہ شہباز سے اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے حلف لیا اور اس طرح حمزہ شہباز وزیر اعلی پنجاب بن گئے۔
ہماری سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مخالفین کی فتح کو قبول نہیں کیا جاتا۔ کامیابی کو فریق دوم مختلف حیلوں بہانوں اور الزامات در الزامات سے متنازعہ کردیا جاتا ہے۔ آج سوشل میڈیا کا دور ہے، سیاسی اکابرین کے آپس کے اختلافات اور نفرتیں ان کے کارکنوں اور عوام تک منتقل ہو کر ماحول کو دو آتشہ کر رہی ہیں جس کا تازہ اظہار وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ سعودی عرب میں دیکھا گیا جب ان کی کابینہ کے ارکان کو مسجد نبوی جیسی مقدس جگہ پر پی ٹی آئی کارکنوں کی طرف سے آداب مسجد کو پامال کرتے ہوئے نامناسب سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔