قصہ جنونی بیانیے کا
ہم در اصل ایسے شرفا کے رحم و کرم پر ہیں جنھوں نے پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان بننے کے بعد یہی کام کیا ہے
آج کل فرح خان یا فرح گجر صاحبہ کے چرچے عام ہیں،یہ خاتون کون ہے، کیا کرتی ہے، کس طرح دبئی روانہ ہوئی ، مبینہ طورکتنے ارب مالیت کی زمین کروڑوں میں لے کر بیچ دی، کتنے کروڑوں روپے اس کے بینک اکاؤنٹس میں آئے، انھیں عثمان بزدار کی جگہ بے نامی وزیر اعلیٰ کیوں کہا جارہاہے؟
ان تمام باتوں سے ہٹ جو اہم بات ہے کہ یہ انکشافات اب کیوں ہورہے ہیں اور کون کرارہا ہے۔ وہ سابقہ خاتون اول کی گہری سہیلی اور رازدار تھی۔ خان صاحب نے اپنے نکاح کے لیے جو گھر چناوہ انھی کا گھر ہے،مگر کوئی بھی پی ٹی آئی کا بندہ سوالات کا جواب دینے کو تیار نہیں، سب کے سب لب سی کے بیٹھے ہیں۔
خیر اب تو نیب نے بھی نوٹس لے لیا ہے ، یہ سب ورق کھلتے جائیں گے اور شاید پہلی مرتبہ ہوکہ ان کے پاس ان باتوں کو عدالت میں غلط ثابت کرنا بھی مشکل ہو، میں نہیں سمجھتا کہ میاں صاحب اور زرداری صاحب اس مرض سے پاک ہیں، مگر ان کے خلاف چیزیں ثابت کرنا مشکل تھیں۔ خان صاحب کے خلاف تو بہت سے ٹھوس حقائق منظر عام پر آئیں گے اور آرہے ہیں۔
اب کے شاید کوئی سلائی مشین کا عذر بھی نہ ملے ،جس کے پیچھے سب کچھ چھپایا جاسکے۔ اگر یہ سارے الزامات یا باتیں سچ ہیں تو یہ سب کچھ خان صاحب کی ناک کے نیچے ہورہا تھا اور خان صاحب باہر'' لگے رہو منہ بھائی ''این آر او نہیں دوں گا، کا راگ آلاپ رہے تھے ۔ کیا اسٹرٹیجی ہے ۔
ہمارے حکمران طبقے کے بیانیے میں جو بھیانک چیزیں تھیں اور آمریتوں نے ڈرافٹ کرایا، آئین کا حصہ بنایا ، فوجداری قوانین میں ترمیم واضافے کیے اور اس بیانئے کونصاب کا حصہ بنایا۔ خود حب الوطن اور اپنے مخافین کو ملک دشمن قراردینے کا بیانیہ، جو صوبائی خودمختاری کی بات کرے، وہ غدار اور جو چمچہ گیری کرے، یس سر کہے ، اس میں چاہیے جتنی بھی برائیاں ہوں، وہ محب الوطن اور ایماندار ۔ یہ وہی کام تھا جو انگریز ہمیں غلام بنانے کے لیے کرتا تھا۔
انگریز حاکموں نے متحدہ ہندوستان میں ایسا بے ضمیر اور مراعات یافتہ طبقہ شرفاء کی تخلیق اور ترتیب کی جو انگریز سرکار کا مخبر بھی تھا ، بااختیار بھی تھا،ہر جائز وناجائز فرائض کی بجاآوری کے لیے تیار رہتا تھا، ان شرفاء کا ایک حصہ راجائوں، مہاراجائوں، نوابوں ، سرداروں پر مشتمل تھا، کسی کو رائے بہادر کا لقب دیا ، کوئی خان بہادر کہلایا،کسی کو ''سر'' کا خطاب ملا اور ان کو مفت میں جائیدادیں بھی الاٹ کیں ۔ آئی سی ایس افسران اور رائل انڈین آرمی کے دیسی افسران یہ ایک الگ طبقہ اشرفاء تھا،یہ طبقہ لائف اسٹائل میں انگریز تھا۔
آزادی کے بعد یہی طبقہ پاکستان کا حکمران بنا ۔یعنی ہم غلامی سے نکلے تو حکمران بن بنے ، اسی وجہ سے آزادی کے بعد مسلم لیگ ایسٹ پاکستان میں شکست کھا گئی ۔ یوں کہیے کہ اس طبقہ کے ارکان جہاں جہاں اقتدار کی ڈوریں گئیں، یہ وہیں خود بہ خود پہنچ گئے۔ جیسے ہی اقتدار کی ڈوریں کٹیں یہ وہاں سے چلے آئے۔ ان کا دین دھرم سب جاہ وحشمت تھا۔
باقی جو بیانیہ وقت کا سکہ تھا اس کو انھوں نے خوب گایا اور استعمال کیا، ایوب دور میں سوٹڈ بوٹڈ تھے تو جنرل ضیاء الحق کے زمانوں میں شلوار قمیص اور واسکٹ پہن لی، جو وقت کا بھیس تھا، وہ پہنا ان کا شیوا رہا۔ جیسے ہی وقت بدلا ، انھوں نے اپنا تن، من، ذہن، لباس بدلنے میں ذرا دیر نہیں لگائی مگر اس بار یہ بیچارے عمران خان کے پیچھے لگ گئے، اب ان کا آخری سہارا بھی یہی ہے۔ دیکھتے ہیں کب تک؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھٹو اور خان صاحب کا موازنہ کہیں سے نہیں بنتا۔ چاہے کتنے پرچے، وہ جلسوں میں گھماتے پھرینگے کہ ان کے خلاف سازش ہوئی ہے۔
پیوٹن بہت پریشان تھے یوکرین اور جارجیا میں جمہوریت کو دیکھ کر، انھیں یہ ڈر تھا کہ کہیں یہ روس تک بھی نہ پہنچ جائے، انھوں نے پھر آہستہ آہستہ ایک مخصوص بیانیہ تیار کیا، ہمارے شرفاء کی طرح ۔ ماسکو میں جب چند لوگ بنیادی حقوق کے لیے باہر نکلے تو پیوٹن نے اسے روس کے خلاف جانا ، پھر بڑے بڑے میوزک بینڈ آئے جنھوں نے آزادی اظہار کی بات کی، جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات کی، ان کے خلاف روسی ریاست حرکت میں آئی، اپوزیشن انھوں نے امریکا کا ایجنٹ قرار دے دیا اور روسی قوم کو ''سازشی'' بتی کے پیچھے لگا دیااور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اس کے اندر پیٹر دی گریٹ کی روح آگئی ہے اور روسی قوم جو دنیا کی عظیم قوم ہے وہ اپنا کھویا ہوا وقار واپس لے گی۔ ایسے آمریتی ذہن اگر طاقت پکڑ لیں تو وہ پوری دنیا کو تباہی کے دہانے پر لاکے کھڑا کرسکتے ہیں۔
یہ کون سی آزاد خارجہ پالیسی تھی جس کی خان صاحب بات کرتے تھے اور اس دن ماسکو جا پہنچے جس دن پیوٹن نے آزاد ریاست یوکرین پر حملہ کرنا تھا ۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہے ، ہمیں بہت ذمے داری سے کام لینا تھا۔ دنیا کا کوئی بھی سربراہ اس گھڑی ماسکو نہ جاتا یہاں تک کے اس کا دوست اور حلیف چین کا حکمران بھی نہ جاتا مگر خان صاحب وہاں پہنچے، ان کے لیے یہ آزاد خارجہ پالیسی کی شروعات تھی، شروعات تھی یا تباہی؟ آزاد خارجہ پالیسی کیا ہوتی ، عمران خان اور ان کے چند خواری اس کی مبادیات سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔ خارجہ پالیسی کا مطلب ہوتا کہ جاری حالات میں ملک و عوام کا مفاد کہاں ہے؟ ۔
کہاں سے ہمیں تجارت کے دروازے کھلے ملتے ہیں اور کہاں سے امداد ، عطیات اور بوقت ضرورت قرض ملتا ہے ، کون مشکل وقت میں تیل فراہم کرتا، ہمارے اسٹرٹیجک مفادات کہاں ہیں؟ ان کو ہماری معاشی مفادات کے ساتھ توازن میں ہونا چاہیے، یہی کسی ملک کی آزاد خارجہ پالیسی کہلاتی ہے۔
مگر خان صاحب یہ منجن اس لیے بیچ رہے تھے کہ ا ن کے پاس کارکردگی کے حوالے سے کچھ بھی نہیں، ان چار سالوں میں خاطر خواہ کام گنوانے کے لائق ہی نہیں۔ اب تو خان صاحب ایسی باتیں کررہے ہیں جیسے ان کے پاس کوئی غیبی طاقت ہے ۔ دیر آید درست آید، یہ وقت ہے سوچنے کا اور یہ سبق حاصل کرنے کا، سیاست کو فطری انداز میں بڑھنے دو، اس میں انجینئرنگ مت کرو۔ یہ سیاستدان کرپشن سے پاک نہیں مگر کرپشن اداروں کی مضبوطی اور اور غیر مبہم قوانین سے کم ہوگی، ختم تو خیر کبھی بھی نہ ہو لیکن اتنے بڑے اربوں اور کھربوں والے میگا اسکینڈل نہیں بن سکتے۔
ہم در اصل ایسے شرفا کے رحم و کرم پر ہیں جنھوں نے پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان بننے کے بعد یہی کام کیا ہے، انھیں سرکاری کی ملکیت زمینیں چاہیں، ان کے بچوں کے لیے ترقی یافتہ ملکوں کی نیشنیلٹی چاہیے، اعلیٰ سرکاری عہدے چاہیے، ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کسی سرکاری ادارے کی سربراہی چاہیے اور یہ سب کچھ کرنے کے باوجود ایمانداری اور فرض شناسی کا سرٹیفکیٹ بھی چاہیے۔ ان شرفاء اور ان کے خاندانوں کو پالتے پالتے ریاست کنگال ہوگئی، عوام کے سر سے چھت غائب ہوگئی، روزگار ختم اور فاقے مل گئے ہیں۔ ہماری سیاست کے اکھاڑے میں بھی انھی شرفاء کی نسل ہے جب کہ اربن مڈل کلاس کبھی خان کی تو کبھی الطاف بھائی کے نرغے میں آجاتی ہے۔
ایسے ہی ہمارے سندھی قوم پرست بھی ہیں اور مڈل کلاس سیاست کرنیوالے جو ابھی تک اس منزل تک بھی نہ پہنچ سکے ہیں کہ اپنی قومی سیاست کو ملک جمہوری سیاست کے ساتھ جوڑ سکیں۔ 75 سال کے بعد کم از کم خان صاحب آپ کا شکریہ کہ آپ نے بیانیے کی جو آخری کڑی تھی اسے بھی استعمال کردیااور اب لوگوں کو بہت کچھ سمجھ آگیا ہے اور اس طرح اب کے شاید بتی کے پیچھے وہ کبھی بھی نہ لگ سکیں۔شکریہ خان صاحب ، آپ کا شکریہ، آپ نے انتہا پسندی کی جو مشعل اٹھائی ہے ،اس انتہا تک اب سے پہلے کوئی بھی نہیں گیا ۔ بس اب اس انتہا کے بعد واپسی ہی بنتی ہے۔