بہتری کے مثبت اشارے

موجودہ وزیراعظم اور ان کی اتحادی قیادت ملک کی معیشت کو سامنے رکھ کر قدم اٹھا رہی ہے اور یہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے


Editorial May 02, 2022
موجودہ وزیراعظم اور ان کی اتحادی قیادت ملک کی معیشت کو سامنے رکھ کر قدم اٹھا رہی ہے اور یہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD: ملک میں حالیہ سیاسی محاذ آرائی کی وجہ سے، حکومت سازی میں جو آئینی رکاوٹیں پیدا ہوئیں' وہ بتدریج آئینی پروسیجر کے ذریعے ہی دور ہوتی جا رہی ہیں اور امور مملکت کی انجام دہی میں روانی پیدا ہو رہی ہے۔

وفاق میں بھی خاصی رکاوٹیں پیدا ہوئیں لیکن وہ بغیر کسی دیر کے دور ہوگئیں اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے شہباز شریف سے وزارت عظمیٰ کا حلف لے کر آئینی عمل مکمل کیا، اسی طرح قومی اسمبلی کے اسپیکر کا حلف بھی چیئرمین سینیٹ نے لیا اور راجہ پرویز اشرف اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوگئے اور اس کے بعد وفاقی کابینہ کا حلف صدر مملکت نے لیا، یوں وفاق میں انتقال اقتدار کا آئینی عمل مکمل ہوگیا، البتہ پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے حوالے سے بحران جاری تھا۔

یہ بحران بھی گزشتہ روز عدالتی فیصلے کی روشنی میں ختم ہو گیا اور نو منتخب وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا، لاہورہائیکورٹ کے حکم پر اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے نومنتخب وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز سے حلف لیا۔

حلف برداری کی تقریب گورنر ہاؤس لاہورکے لان میں منعقد ہوئی جس میں اہم شخصیات نے شرکت کی۔ حکومتِ پنجاب نے وزیرِ اعلیٰ حمزہ شہباز کے حلف اٹھانے اور عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ۔ یہ نوٹیفکیشن چیف سیکریٹری پنجاب کامران علی افضل نے جاری کیا۔ یوں پنجاب میں بھی انتقال اقتدار کا عمل مکمل ہوگیا اور صوبے میں کئی روز سے جاری انتظامی بحران اختتام پذیر ہوگیا۔

وزیراعلیٰ حمزہ شہباز اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد وزیراعلیٰ آفس پہنچے اور وہاں موجود افسروں اور عملے سے ملاقات کی اور انھیں ان کے فرائض کے حوالے سے ہدایات دیں۔ حمزہ شہباز شریف وفد کے ہمراہ پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین کے گھر بھی گئے ، وہاں جہانگیر ترین گروپ کے پارلیمنٹیرنز بھی موجود تھے۔ اطلاعات کے مطابق حمزہ شہباش نے جہانگیر ترین سے حکومت سازی کے معاملات پر بات چیت کی گئی۔ جہانگیر ترین گروپ نے وزارت اعلیٰ کے انتخاب میں حمزہ شہباز کا ساتھ دیا تھا۔

بہرحال ایک جانب یہ خوش کن اور حوصلہ افزا منظرنامہ ہے تو دوسری طرف محاذ آرائی کا منظر نامہ بھی نظر آتا ہے کیونکہ گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے ہفتے کو نومنتخب وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کے حلف سے پہلے عثمان بزدار کا بطور وزیر اعلیٰ استعفی آئینی اعتراض لگا کر مسترد کر دیا۔اعتراض یہ لگایا گیا ہے کہ عثمان بزدار کا استعفیٰ آئین کے آرٹیکل 130 کے سب سیکشن 8 کے تقاضے پورے نہیں کرتا، عثمان بزدار نے اپنا استعفیٰ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے نام لکھا تھا جو آئینی طورپر غلط ہے کیونکہ استعفیٰ گورنر کو بھیجا جاتا ہے۔

گورنرپنجاب نے عثمان بزدار کا استعفیٰ مسترد کرکے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ کو خط لکھ دیا۔گورنر کی جانب سے استعفیٰ مسترد ہونے کے بعد عثمان بزدار نے پنجاب کابینہ کا اجلاس پنجاب اسمبلی میں بلالیا 'میڈیا کی اطلاعات کے مطابق کابینہ کے اجلاس میں گورنر ہاؤس میں پیدا شدہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا گیا کہ گورنر پنجاب کے آئینی احکامات کی موجودگی میں حمزہ شہباز کا حلف صوبے میں مزید آئینی بحران پیدا کرے گا، اجلاس میں تحریک انصاف کے ارکان پنجاب اسمبلی کی جانب سے ہائیکورٹ میں زیرسماعت انٹرا کورٹ اپیل پر بھی غور کیا گیا۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اس آئینی بحران سے بچنے کے لیے ہمیں عدالتی احکامات کا انتظار کرنا چاہیے۔ یوں دیکھا جائے تو سیاسی محاذ آرائی آئینی و قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر لڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اصولی طور پر پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو آئینی اور قانونی بحران پیدا کرنے کی پالیسی ترک کر کے سیاسی لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے کیونکہ یہ طے ہے کہ وہ جن پہلوؤں کو سامنے رکھ کر آئینی اور قانونی لڑائی لڑ رہے ہیں' ان کا نتیجہ ان کا حق میں آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔

نیا حکومتی سیٹ اپ تیزی سے اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔نئے وزیراعظم شہباز شریف سعودی عرب کے دورے کے بعد متحدہ عرب امارات پہنچے ہیں جب کہ ان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے وفد کے ہمراہ امریکا پہنچے اور واشنگٹن میں آئی ایم ایف حکام کے ساتھ کامیاب مذاکرات کیے۔حکومتی ذمے کا دعوے ہے کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور ان کا وفد اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

وزیراعشم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کو بھی کامیاب کہا جارہا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو حکومت کی معاشی مشکلات میں کمی آئے گی اور وہ ایک بہتر بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

ادھر ایف بی آر کی جانب سے رواں مالی سال 2021-22کے پہلے دس ماہ(جولائی تا اپریل) میں حاصل کردہ عبوری ٹیکس وصولیاں4858 ارب روپے سے تجاوز کرگئی ہیں جو 4619 ارب روپے کے مقررہ ہدف سے239ارب روپے زیادہ ہیں، اپریل 2022میں ایف بی آر نے 480ارب روپے کی عبوری ٹیکس وصولیاں کی گئی ہیں جو اپریل کے لیے مقرر کردہ485 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں پانچ ارب روپے کم ہے۔

ایف بی آر حکام کاکہنا ہے کہ اگلے چند روز میں ٹیکس وصولیوں کے حتمی اعدادوشمار موصول ہونے پر اپریل کی ٹیکس وصولیوں میں مزید اضافہ ہوگا اور امکان ہے کہ اپریل2022 کے لیے مقرر کردہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف بھی حاصل ہوجائے گا۔

دوسری جانب ایف بی آر کی جانب سے رواں مالی سال 2021-22 کے دس ماہ کے لیے عبوری ٹیکس وصولیوں کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ایف بی آر نے رواں مالی سال کے دس ماہ کے دوران 4858 ارب روپے کی ٹیکس وصولیاں کی ہیں جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں حاصل ہونے والی 3778 ارب روپے کی ٹیکس وصولیوں کے مقابلے میں 28.6 فیصد زیادہ ہیں ایف بی آر نے اپریل میں480 ارب روپے کے محصولات اکھٹے کیے جو کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں حاصل کردہ ریونیو کے مقابلے میں 24.9 فیصد زیادہ ہیں۔

ایف بی آر کا مزید کہنا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس صفر کرنے سے 45 ارب کے محصولات کا نقصان ہوا، فارماسیوٹیکل، کھاد، خوردنی تیل و گھی پر 28 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے،وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کو اپنے سیاسی مقاصد اور معیشت کی بحالی کے درمیان توازن قائم کرنے کے لیے ایک مشکل چیلنچ کا سامنا ہے۔ نئی اقتصادی ٹیم اور آئی ایم ایف کے درمیان سمجھوتے کے باوجود وزیراعظم یکم مئی سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کر سکے۔

ایف بی آر کے یہ اعدادوشمار بھی حوصلہ افزا ہیں اور نئی حکومت کے لیے اطمینان بخش ہیں۔ بلاشبہ اگر عوام کے منتخب نمایندے پوری توجہ اور محنت سے اپنے آئینی فرائض ادا کریں اور بیوروکریسی کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے اچھے مشورے دیں اور بیوروکریسی پر قانون کے مطابق نگرانی کا عمل جاری رکھیں تو اچھے نتائج نکل سکتے ہیں۔

سابق حکومت کے دور میں بیوروکریسی خاصی مشکلات کا شکار رہی ہے جس کی وجہ سے بیوروکریسی کی کارکردگی متاثر ہوئی۔نیب کی کارروائیوں کی وجہ سے کاروباری طبقہ اور بیوروکریسی دونوں متاثر ہوئے'یوں یہاں سرکاری امور کے انجام دہی میں سست روی دیکھنے میں آئی وہاں کاروباری سرگرمیاں بھی بہت کم رہیں' اس پر کورونا وباء کے اثرات بھی مرتب ہوئے۔

یہ امر خوش آیند ہے کہ اب صورتحال بہتر ہو رہی ہے اور موجودہ وفاقی حکومت بہتر مالیاتی نظم اور عوام دوست اقتصادی و معاشی پالیسی اختیار کرے تو ملک میں کاروباری سرگرمیاں تیز ہو سکتی ہیں۔ جس سے روز گار کے مواقع بڑھیں گے اور معیشت کا پہیہ رواں دواں ہو جائے گا۔

بہر حال یہ امر خوش آیند ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کے مابین ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی'اس ملاقات میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر اعظم اپنا تین روزہ دورہ سعودی عرب مکمل کر کے ہفتے کو اپنے وفد کے ہمراہ متحدہ عرب امارات پہنچ گئے۔ یوں دیکھا جائے تو پاکستان کے لیے بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں۔

یہ امر بھی خوش آیند ہے کہ موجودہ وزیراعظم اور ان کی اتحادی قیادت ملک کی معیشت کو سامنے رکھ کر قدم اٹھا رہی ہے اور یہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ملک کی معیشت بہتر ہو گی تو عوام کے لیے ریلیف کی صورت نکل سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں