لینن ‘یوم مئی اورافغان انقلاب

انقلاب کی ناکامی سماج کو پسماندگی کی گہری کھائیوں میں دھکیل دیتی ہے


جمیل مرغز May 02, 2022
[email protected]

CHICHAWATNI: احسن اقبال نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ''ہم کیوبا یا شمالی کوریا نہیں بننا چاہتے اور ہم ملائیشیاء اور ترکی کی طرح ترقی کرنا چاہتے ہیں'شاید انھیں کیوبا کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں 'کیوبا کے پاس تیل و گیس کے ذخائر نہیں ہیں لیکن فیڈرل کاسترو کی صورت میں ایک عظیم قیادت ملی اور انقلابی نظام ملا جس کی بدولت کیوبن عوام اور انقلابی حکومت سابقہ غربت کے نظام میں بھی اپنے پائوں پر کھڑے رہے۔

امریکی سامراج سے 90کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہونے کے باوجود اس عالمی طاقت کو للکارتے رہے 'ان کی صحت اور تعلیم کے نظام دنیا کے لیے مثال ہیں'ہر شہری کو مفت تعلیم' مفت صحت اور روزگار کی سہولت حاصل ہے' پاکستان میں ایسا نظام رائج ہوجائے تو اور ہمیں کیا چاہیے؟اسی انقلابی نظام کی مخالفت میں پوری سرمایہ دار دنیا متحد ہے کیونکہ وہ محنت کشوں کی حکومت نہیں چاہتے، دنیا کی مختلف اقوام سوشلسٹ انقلاب کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ایک عوام دوست نظام قائم ہو سکے 'انقلابوں اور انقلابی شخصیات کی تاریخ کافی طویل ہے۔

اس سلسلے میں اپریل کے آخری عشرے میں تین ایسے واقعات رونما ہوئے' جنھوں نے تاریخ کا رخ تبدیل کردیا 'ان تینوں واقعات کا تعلق محنت کش اور غریب طبقوں کی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف اپنے حقوق کی جنگ سے ہے 'طبقاتی جنگ کی یہ کہانی ابتدائے آفرینش سے انسانی معاشرے کا بنیادی جز ہے۔

عظیم انقلابی رہنما اور سوویت انقلاب کے بانی اور قائد ولادی میر ایلچ لینن کا یوم پیدائش 22اپریل (1870)' افغانستان کا ثور انقلاب 27اپریل (1978) اور محنت کشوں کا عالمی دن یوم مئی(1886) تینوں انقلابی واقعات ایک ہی نظریے اور جنگ کا حصہ ہیں' اس لیے ان تینوں واقعات کا ذکر میں نے ایک ہی کالم میں کرنا مناسب سمجھا۔

یکم مئی 1886کو شکاگو کے ''Hay market''چوک سے شروع ہونی والی تحریک دنیا میں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے اور اسی طرح سرمایہ دار' زرعی اور قبائلی جاگیردار اور سامراجی ریاستی مشینری کا استحصال کرنے کا عمل آ ج تک جاری ہے' آج اسی یکم مئی کے جذبے سے حاصل کردہ شعور کی بنا پر افغان ثور انقلاب کو بھی یاد کرتے ہیں جو 27اپریل 1978کوبرپا ہوا۔

یکم مئی 1979کو ثور انقلاب کی پہلی سالگرہ کے موقعے پر کابل میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کے رہنماء اور افغان انقلاب کے سربراہ نور محمد ترکئی نے اپنی تقریر میںکہا تھا کہ ''ثور انقلاب صرف افغانستان کے محنت کشوں اور انقلابی سپاہیوں کا انقلاب نہیں'یہ پوری دنیا کے محنت کشوں اور محکوموں کا انقلاب ہے'اس نے 1917 کے اکتوبر انقلاب سے رہنمائی اور شکتی حاصل کی ہے اور ایک بار پھر پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دے گا ۔''

افغان انقلاب نے واقعی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا' سامراج نے سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے اور انقلاب ثور کو ختم کرنے کے لیے جو تیار کیا تھا 'وہ آج تک اس کے گلے میں پھنسا ہواہے۔

افغان انقلاب کو افغانستان کے حکمران طبقوں نے تاریخ کے اوراق سے کھرچ دینے کی پوری کو شش کی ہے'طالبان کا ذکر چھوڑیں ، حامد کرزئی اور اشرف غنی کے بظاہرجمہوری دور میں بھی افغانستان کا کوئی بھی ٹی وی چینل ہو ' اس پر میروس نیکہ اور احمد شاہ ابدالی سے لے کر حامد کرزئی اور اشرف غنی تک تمام حکمرانوں کا ذکر ہوگا لیکن نور محمد ترکئی'حفیظ اللہ امین 'ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب کا ذکر تک نہیں ملتا ہے' لیکن افغانستان کے انتہاپسند طالبان اور خود ساختہ جمہوری حکمران طبقے27اپریل 1978سے لے کر 12اپریل 1992کو ڈاکٹر نجیب کے استعفا دینے تک کے 14سالوں کو تاریخ کے صفحات سے کیسے کھرچ سکتے ہیں؟

ثور انقلاب ایک تاریخی واقعہ ہے اور تاریخ کو مٹایا نہیں جا سکتا ' افغانستان کے سامراجی حکمران طبقے، دائیں بازو کے دانشور اور سرکاری تاریخ دان اس انقلاب سے پہلے اور بعد میں جنم لینے والے واقعات کو مسخ کرکے عوامی شعور سے مٹا دینے کی سعی میں جھوٹ اور منافقت کی ہر حد تک گئے ہیں۔ثور انقلاب کی میراث آج بھی مذہبی بنیاد پرستی'سامراجیت اور جرائم پر مبنی سرمایہ داری نظام کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کے مینار کا درجہ رکھتی ہے۔

سامراجی طبقے کے تاریخ دان اور دانشور دانستہ طور پر ثور انقلاب کو سوویت یونین کی فوج کشی کے ساتھ گڈ مڈ کردیتے ہیں حالانکہ ثور انقلاب 27اپریل 1978کو برپا ہوا اورسوویت فوجیں 18ماہ بعد، 29دسمبر 1979کو افغانستان میں داخل ہوئی تھیں ' انقلابی حکومت کے پہلے دو سربراہان نور محمد ترکئی اور حفیظ اللہ امین کے دور تک سوویت فوج کو مدد کے لیے نہیں بلایا گیا گیا تھا' افغان انقلاب کے خلاف بیرونی سازشیں شروع ہوئیں، جہادی تنظیموں کی مسلح جدوجہد کو سامراج نے پروان چڑھایا تو ببرک کارمل نے سوویت یونین سے مدد طلب کی۔

افغان انقلاب فوج میں قائم پارٹی کے ساتھیوں نے برپا کیا تھا اور اس کی فوری وجہ استاد امیر اکبر خیبر کا قتل اور انقلابی رہنمائوں کی گرفتاری بنی۔ افغان فوجی انقلابی کونسل کے نافذ کیے گئے انقلابی قوانین ثور انقلاب کی حقیقی روح اوراساس کو واضح کرتے ہیں' انقلابی حکمنامے کے ذریعے مندرجہ ذیل اقدامات کیے گئے٭۔ غریب کسانوں کے ذمے سود خوروں اور جاگیرداروں کا تمام واجب الاداقرضہ سود سمیت منسوخ کردیا گیا۔٭۔قانون کی نظر میں خواتین اور مردوں کی برابری کو یقینی بنانے کی بات کی گئی تھی 'پیسے کے بدلے لڑکیوں کی شادی' زبردستی کی شادی اور بیوہ کی دوبارہ شادی کی راہ میں رکاوٹ بننے والی قبائلی رسم و رواج کو جرم قرار دیا گیا' بچپن کی شادیوں پر پابندی لگادی گئی ۔٭۔جاگیرداروں اور شاہی خاندان کی تمام تر زمین کو بغیر کسی معاوضے کی ریاستی ملکیت میں لیتے ہوئے بے زمین کسانوں میں تقسیم کردیا گیا۔ ٭۔انقلابی حکومت کے دوسرے اقدامات میں پانی کی منصفانہ تقسیم اور کسانوں کی اشتراکی انجمنوں کا قیام شامل تھا ۔٭۔ناخواندگی کے خاتمے کے لیے مہم شروع کی گئی اور 1979سے 1984تک 15لاکھ ان پڑھ لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا گیا۔ افغان انقلابی حکومت نے ان تمام اقدامات کا آغاز سوویت فوجوں کی آمدسے قبل کیا تھا ۔

ثور انقلاب کی وجہ سے واشنگٹن 'لندن'ریاض اور اسلام آباد تک طاقت کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں' خطرہ محسوس ہونے لگا، کہیں افغانستان کا انقلاب اردگرد کے ممالک کو لپیٹ میں نہ لے لے'چنانچہ انقلاب ثورکو کچل دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے '' جہاد''کی پالیسی ترتیب دی گئی 'امریکی سی آئی اے نے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے خفیہ ''آپریشن سائیکلون'' کا روسی فوجوں کی آمد سے چھ ماہ قبل آغاز کردیا تھا۔

پٹرو ڈالر (PetroDollar)کے ایندھن سے بنیاد پرستی 'فرقہ واریت'جرائم 'اور دہشت گردی کی وہ آگ بھڑکائی گئی جس میں افغانستان ہی نہیں بلکہ پورا خطہ آج بھی جل رہا ہے 'جہادی ضروریات پوری کرنے کے لیے منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ کا وسیع نیٹ ورک تشکیل دیا گیا ' ہیروئن بنانے کی تکنیک سب سے پہلے یہیں متعارف کرائی گئی 'منشیات اور جرائم کے کالے دھن کا دودھ پی کر وہ گینگ جوان ہوئے جو آج افغانستان پر قابض ہیں اور پاکستان کی ریاست کی بنیادوں کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

انقلاب کی ناکامی سماج کو پسماندگی کی گہری کھائیوں میں دھکیل دیتی ہے'افغانستان میں یہی ہواسامراج کی رد انقلاب جنگ نے ان 42برسوں میں افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عوام کو بھی برباد کرکے رکھ دیا 'جس کے نتائج آج بھی ہم بھگت رہے ہیں۔

یہ سمجھنا غلطی ہوگا کہ انقلاب کا خاتمہ ہوگیا'جب تک دنیا میں طبقات موجود ہیں ' لینن کی تعلیمات 'یوم مئی اور ثور انقلاب کا جذبہ زندہ رہے گا' افغان انقلاب کو امریکی ڈالروں کی مدد سے ختم کرنے کے لیے جو جھتے تیار کیے گئے تھے' وہ آج پاکستان کی ریاست کو چمٹ گئے ہیں'جس کی پیشنگوئی ڈاکٹر نجیب نے کی تھی۔ڈاکٹر صاحب کے یہ الفاظ تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔ ''جو آگ آج افغانستان میں بھڑکائی گئی ہے 'یہ آگ کل ہمسایوں کو بھی جلاکر بھسم کردے گی۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں