سچا اور کھرا انسان محبوب علی
آج محبوب علی تن تنہااسپتال میں موت کی سسکیاں لےرہا ہے۔مگراتنی بڑی پارٹی کےغریب رہنما کو پوچھنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔
آج وہ بستر مرگ پر سول اسپتال میرپور خاص کے سرجیکل وارڈ میں موت سے جنگ لڑ رہا ہے جب وہ 1970 میں پارٹی کے فیصلے کے تحت کل وقتی (ہول ٹائمر) کارکن کے تحت 45 برس کی عمر میں تھرپارکر کے علاقے میرپور خاص آیا تھا۔ بڑے جوش جذبے ہمت کے ساتھ اس شہر میں ہاریوں، مزدوروں، غریب لوگوں کے لیے کام کر رہا تھا اس نے شہر میں جننگ فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کی یونین تشکیل دی۔ ملوں، شوگرملوں، بلدیہ میرپورخاص بینکوں میں یونینز کی بنیاد رکھی، اخباروں میں نامہ نگار کی حیثیت سے کام کیا۔ اور پھر میرپور خاص شہر ہی میں ریلوے اسٹیشن کے قریب تھر بک اسٹال کھول دیا۔ یہ وہ دور تھا جب ایوب خان کی حکومت ختم ہوگئی تھی اور عنان حکومت پر ایک دوسرے جنرل یحییٰ خان کی حکومت قائم تھی۔ چین نواز کمیونسٹ پارٹی سے اس کا تعلق تھا جس نے فیصلہ کیا تھا ملک میں جمہوریت کی بحالی اور الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو (شہید) کی پارٹی بنائی جائے اور اس کا ساتھ دیا جائے۔
جس کی بنیاد 1967میں کراچی میں طے کرنے کے بعد لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر دسمبر 1967 میں رکھ دی گئی تھی۔ جس میں پاکستان بھر کے تمام ترقی پسند روشن خیال، لبرل، سیاسی کارکنوں، دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، مزدوروں، کسانوں اور کچلے ہوئے عوام کے لیے ایک نئی سیاسی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے وجود میں آئی ۔تو چین نواز گروپ جس کے سرخیل طفیل عباس تھے نے فیصلہ کیا کہ ہم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کام کریں گے۔ کراچی سے معراج محمد خان، اظہر عباس، احمد علی سومرو، عبدالستارگبول، امداد حسین شاہ، عبدالحفیظ پیرزادہ، عبدالوحید عرشی سمیت طالب علموں کی تنظیم NSF این ایس ایف اور DSF ٹریڈ یونینز کے نمایندے ریلوے کی یونین PIA کی یونین سمیت دیگر ترقی پسند ٹریڈ یونینز بھی شامل تھیں۔ اس تحریک اور پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے جب کہ پنجاب بھر سے خورشید حسن میر، بابائے سوشلزم شیخ رشید احمد، ڈاکٹر مبشر حسن، ڈاکٹر غلام حسین سمیت دیگر رہنما بھی شامل ہوگئے۔ ہماری پارٹی نے فیصلہ کیا کہ اندرون سندھ بھی پارٹی کارکن پیپلز پارٹی کے لیے کام کریں۔ سو پارٹی نے کامریڈ محبوب علی جوکہ ملیر کالا بورڈ کے رہائشی تھے کے بارے میں فیصلہ کیا کہ محبوب علی میرپورخاص میں پارٹی اور پیپلز پارٹی کی تنظیم میں کام کریں گے اس طرح محبوب علی میرپورخاص آگئے۔
1970 ہی میں پیپلز پارٹی کے تحت ایک بڑا جلسہ عام گاما اسٹیڈیم میرپورخاص میں منعقد ہوا۔ جلسہ عام سے ذوالفقار علی نے خطاب کرنا تھا اس جلسہ عام کو منظم کرنے میں محبوب علی نے اہم کردار ادا کیا پھر ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت بھی ایسی تھی کہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا ہجوم جلسہ گاہ میں موجود تھا۔ جلسہ گاہ میں راقم بھی موجود تھا اور اس روز پیپلز پارٹی میں سندھ کا ایک جاگیردار غلام محمد وسان بھی شامل ہوا تھا۔ بھٹو نے جلسے میں اعلان کیا کہ غلام محمد وسان بھی پارٹی میں آگیا ہے میں وسان کو کسان بناؤں گا۔ اس طرح پورے سندھ اور تھرپارکر میں پیپلز پارٹی ایک مقبول جماعت بن گئی، قصہ مختصر ملک میں انتخاب ہوئے بعدازاں ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ بنگلہ دیش بن گیا۔ باقی پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن گئی۔ محنت کشوں، کسانوں میں ایک نیا ابھار آگیا۔ ملوں اور کارخانوں پر محنت کش قبضہ کرنے لگ گئے۔ ہڑتالیں شروع ہونے لگیں۔ نئی نئی یونینز بننے لگ گئیں کسان اور ہاری بھی بغاوت پر اتر آئے۔ 1974 میں بھٹو نے یو ٹرن لے لیا۔ مزدوروں کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں کئی ترقی پسندوں کو جیلوں میں بند کردیا گیا بعد میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی لگا دی گئی بلوچستان اور خیبرپختونخوا (سرحد) کی حکومتیں توڑ دی گئیں۔ معراج محمد خان سمیت کئی دیگر پیپلز پارٹی کے رہنما بھی جیل چلے گئے ریلوے یونین کے مجھ سمیت کئی رہنما، PIA یونین کے رہنما طفیل عباس سمیت ایک کاٹن ملز یونین کے رہنما سمیت عثمان بلوچ بھی جیل چلے گئے۔
چین نواز کمیونسٹ پارٹی سمیت دیگر ترقی پسند رہنما بھٹو کے اس اقدام پر حیران تھے مگر محبوب علی پیپلز پارٹی کے ساتھ رہے اور کمیونسٹ پارٹی والوں کو انتہاپسند کہنے لگے اور اپنے مشن پر ڈٹے رہے ۔ اخبارات میں کالم بھی لکھتے، ہفت روزہ الفتح جس کے مدیر ارشاد راؤ تھے اور وہاب صدیقی بھی ان کے ساتھ وہ میرپورخاص کے بیوروچیف تھے اخبار کا اسٹال بھی چل رہا تھا۔ ٹریڈ یونین میں کام بھی کر رہے تھے اور کرائے کے ایک کمرے کے مکان میں رہتے تھے۔ان کا تعلق پیپلز پارٹی کے بانی رکن (MNA) علی بخش تالپور (مرحوم) سے بھی تھا۔ محبوب علی ، بھٹو کی پھانسی پر علیل رہے۔ ضیا الحق کے خلاف جلسہ جلوس نکالے گرفتار ہوئے مگر کراچی نہیں آئے۔ میرپورخاص ہی کے ہوکر رہ گئے۔ محترمہ بے نظیربھٹو کے دور میں محترمہ نے انھیں پارٹی خدمات کے عوض اسلام آباد میں ایک عدد پلاٹ دینے کا اعلان کیا مگر انھوں نے لینے سے انکار کردیا۔ ضلع میرپورخاص کے تمام رہنما اور مزدور ان کا بڑا احترام کرتے ہیں خود جب میں میرمنور تالپور (MNA) سے اسلام آباد میں ملا ۔ ملاقات میں محبوب کا ذکر کیا تو انھوں نے کامریڈ محبوب کی بڑی عزت کی۔ آج محبوب علی شدید بیمار ہے اس کے پاس رہنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ کھانے پینے کا کوئی انتظام نہیں ہے، معاشی حالات بہت خراب ہیں۔ پچھلے 5 سالوں سے بیمار ہے پچھلے چھ ماہ سے وہ پیپلز پارٹی میرپورخاص کے دفتر میں رہتا ہے۔ 5 سال قبل حادثے میں پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی چلنے پھرنے سے قاصر ہے۔
دو سال سے وقفے وقفے سے اسپتال کے بستر پر پڑا ہوا ہے آج بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے۔ کامریڈوں سے لڑتا ہے۔ بھٹو اور محترمہ کو یاد کرتا ہے۔ میں نے اس سلسلے میں کئی مرتبہ پیپلز پارٹی کے دوستوں سے بات کی سندھ کے جنرل سیکریٹری تاج حیدر کو بتایا۔ میرمنور تالپور کو بتایا۔ خادم علی شاہ سے ذکر کیا۔ مگر کوئی توجہ نہیں ہے ابھی تین روز قبل میں پھر میرپورخاص گیا اور سول اسپتال میں محبوب سے ملا میں اسے دیکھ کر پہچان نہ سکا انتہائی کمزور، سفید بڑے بڑے بال شیو بڑھی ہوئی تھی، میلے کچیلے کپڑے کوئی موبائل فون چھین کر لے گیا۔ کھانے پینے کو محتاج ! اس کے بیڈ پر میں زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکا میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ بھی رو پڑا میں نے کہا کہ کوئی پارٹی کے دوست نہیں آئے۔ بولا سب کو معلوم ہے پر کوئی نہیں آتا بس اب میرا آخری وقت آچکا ہے مجھے معاف کرنا میں اٹھ کھڑا ہوا باہر آکر خوب رویا۔ فوراً ہی میرمنور تالپور MNA کو 24فروری کو فون کیا ان کے سیکریٹری جن کا نام علی محمد خاصخیلی ہے فون پر بات ہوئی بولے صاحب اسلام آباد گئے ہوئے ہیں یہ نمبر ان کا ہے میں آپ کا پیغام دے دوں گا۔ پھر میں نے کراچی میں جنرل سیکریٹری جناب تاج حیدر کو فون کیا اور محبوب علی کی مدد کرنے کو کہا۔ تاج حیدر نے کہا کہ میں ابھی میر صاحب سے بات کرتا ہوں سول اسپتال میں سرجن سے بھی بات کرتا ہوں۔ میں نے کہا اسپتال کی بات نہیں آپ کسی پارٹی رہنما کو بھیج دیں اس کی مدد کرے۔ دیکھ بھال کرے۔
آج محبوب علی تن تنہا اسپتال میں موت کی سسکیاں لے رہا ہے۔ مگر اتنی بڑی پارٹی کے غریب رہنما کو پوچھنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ بڑے بڑے پارٹی کے پروگرام ہو رہے ہیں۔ ہے کوئی پارٹی کا جیالا وزیر، جیالا سینیٹر، سینئر رہنما جو محبوب علی کو دیکھ سکے۔ اس کی بات سن سکے۔ اس کے دکھ درد کم کرسکے۔ اس کی دیکھ بھال کرسکے۔ جیالو! جلدی کرو، ابھی محبوب علی زندہ ہے، کہیں دیر نہ ہوجائے۔بقول ندیم سبطین
آئے گا جب عوام کو شعور زیست کا
قبروں میں دفن ہوگی پھر قبروں کی حکومت