سیاسی وسماجی تقسیم اور خطرناک رجحانات
یہ رجحانات خطرناک بھی ہیں اور مستقبل کی سیاست اور سماجیات کے تناظر میں خطرے کی گھنٹی بھی ہیں
کراچی:
پاکستانی معاشرہ ایک تقسیم شدہ معاشرہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ تقسیم سیاسی ، علاقائی ، لسانی ، فرقہ وارانہ اور مذہبی بنیادوں پر موجود ہے اور اس میں تواتر کے ساتھ شدت اور انتہا پسندی کے رجحانات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
یہ رجحانات خطرناک بھی ہیں اور مستقبل کی سیاست اور سماجیات کے تناظر میں خطرے کی گھنٹی بھی ہیں کیونکہ مختلف نوعیت پر مبنی معاملات پر تقسیم شدہ معاشرہ انتشار اور عدم برداشت کے کلچر کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ عمل لوگوں کو معاشرے میں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کے بجائے ان کو تقسیم کرنے کا سبب بنتا ہے جو داخلی سطح پر ریاستی عمل کو کمزور کرنے کا سبب بھی بنتا ہے ۔
سیاست ، جمہوریت اور اخلاقی تربیت کا نظام سمیت ہماری مذہبی تعلیم کا بنیادی نقطہ ہی ایک دوسرے کی سوچ اور فکر کا احترام کرنا اور رواداری کے کلچر کو تقویت دے کر ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنا ہوتا ہے۔یقینی طور پر ہر فرد یا ادارے کی سوچ اور فکر ایک دوسرے سے مختلف ہی ہوتی ہے۔لیکن اس مختلف سوچ اور فکر میں اختلافات کے باوجود لوگوں کو مل جل کر رہنا اور ایک دوسرے کے خیالات کو باہمی احترام دینا ہی معاشرے کا حقیقی حسن ہوتا ہے۔
لیکن عدم برداشت کے کلچر نے ہماری مجموعی قومی سوچ کو ہی یرغمال بنا لیا ہے اور ہم سب یا تو خود کو عقل کل سمجھتے ہیں یا اپنے سچ کو ہی مکمل سچ سمجھتے ہیں۔ دوسروں کے خیالات یا سوچ وفکر کو ہم جھوٹ سمجھ کر ان کے خلاف اپنے اندر منفی خیالات کو جنم دیتے ہیں ۔یہ عمل ہمارے اندر ایک دوسرے کے بارے میں ٹکراؤ کی سیاست کو پیدا کرتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس عمل کو ہمیں طاقت کے زور پر کمزور کرنا یا ختم کرنا چاہیے ۔اسی سوچ کی بنیاد پر انتہا پسند رجحانات معاشرے میں پرتشدد سیاست کو پیدا کرتا ہے۔
اس وقت پاکستانی معاشرے میں مختلف خیالات کے بارے میں تقسیم بڑھ رہی ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہم اختلافا ت کو ختم کرنے پر کم اور اس میں مزید شدت پیدا کرنا میں زیادہ کردار ادا کررہے ہیں۔ ہماری علمی و فکری مجالس ہوں یا سیاسی ومذہبی تقریبات یا معاشرتی و سماج سطح پر موجود سرگرمیاں ہر سطح پر یہ تقسیم گہری بھی ہے اور اس کے واضح اشارے ہمیں ٹکراؤ کی سیاست کی بنیاد پر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
ہم کسی کی حمایت یا مخالفت میں مذہبی کارڈ کھیل کر معاشرے کو اور زیادہ تقسیم کرنے کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔مذہبی کارڈ ایک خطرناک کھیل ہے لیکن جس دیدہ دلیری سے یہ کھیل کھیلا جارہا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے اور ان معاملات پر ریاستی اداروں کی خاموشی بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔
معاشرے میں جو تقسیم پیدا ہورہی ہے وہ صرف افراد یا جماعتوں تک محدود نہیں بلکہ اب اس کا براہ راست نشانہ ہمارے ریاستی ادارے بھی ہیں۔ معاشرے میں کسی بھی فرد یا ادارے پر تنقید سب کا بنیادی حق ہے اور یہ حق اسے آئین بھی دیتا ہے اور یہ اس کا جمہوری وسیاسی حق بھی ہے۔ لیکن بظاہر یہ لگتا ہے کہ مجموعی طور پر سماج میں تنقید اور تضحیک کے درمیان فرق کہیں گم ہوکر رہ گیا ہے ۔ لوگ تنقید کم اور تضحیک کے کھیل میں زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں۔
معاشرے میں بالخصوص نوجوانوں میں یہ شدت پسندی یا انتہا پسندی پر مبنی رجحانات کیونکر مضبوط ہوئے ہیں ان کا بھی تجزیہ کیا جانا ضروری ہے۔ نوجوانوں کے ردعمل میں جو ہمیں غصہ ، نفرت، تعصب ، بغاوت، تشدد ، لاقانونیت کے مسائل نظر آرہے ہیں۔
اس کی بڑی وجوہات میں ہمارا سیاسی ، سماجی ، معاشرتی ، قانونی اور معاشی نظام ہے ۔ یہ نظام نوجوانوں کو دیوار سے لگارہا اور ان کو لگتا ہے کہ ان کے لیے چاروں اطراف سے گھیرا تنگ کردیا گیا ہے۔ معاشی بدحالی اور بے روزگاری سمیت عدم انصاف کے نظام نے ان کے حکومت اور اداروں پر اعتماد کو کمزور کردیا ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ مجموعی طو رپر جو سیاست، انصاف، جمہوریت اور عوام کے نام ہورہا ہے وہ سوائے ان کو استحصال کے کچھ نہیں دے رہا ۔
یہ بات بجا کہ یہاں ریاستی اداروں پر ہونے والی تنقید یا جھوٹ پر مبنی بیانیہ پر کافی تشویش پائی جاتی ہے مگر یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ اس مرض کا علاج محض قانون سازی یا انتظامی نوعیت کا نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے معاشرے میں خاص طور پر نوجوانوں کو طاقت بنا کر جو بیانیہ کی جنگ علمی وفکری بنیادوں پر لڑی جانی ہے اسے نظرانداز کرکے یا اس سے کوتاہی کرکے ہم معاشرہ میں انتہا پسندی یا شدت پسندی کو ختم نہیں کرسکیں گے۔
یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ریاست اور حکمرانی کا نظام مجموعی طو رپر منصفانہ ہو اور یہ نظام لوگوں کی توقعات کے مطابق ہو ، وگرنہ دوسری صورت میں نوجوانوں میں ردعمل یا غصہ کی سیاست کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔بیانیہ کی یہ جنگ ہمیں عملی طور پر رسمی و غیر رسمی تعلیم اور میڈیا کے نصاب سے جوڑنا ہوگی۔ ایسا نصاب جو نوجوانوں میں رواداری کے کلچر کو پیدا کرے اور عملاً ایک دوسرے کے لیے احترام کا رشتہ قائم کرے۔
لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ صرف یہ کام نوجوانوں کو محض سیاسی ومذہبی واعظ سے ہی ممکن نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے پہلی شرط اوپر کے طبقات یا طاقت ور یا فیصلہ ساز طبقات کو خود کو بھی تمام سطحوں پر جوابدہی کے لیے پیش ہونا ہوگا تاکہ عام آدمی اور طاقت ور طبقہ کے درمیان اعتماد سازی کا ماحول بن سکے ۔
یہ جو تقسیم معاشرے میں پیدا ہورہی ہے اور اس کے پیچھے داخلی و خارجی دونوں عوامل ہیںاس کا علاج محض رسمی یا فرسودہ یا پرانی سوچ اور فکر کی بنیاد پر حل نہیں ہونگے ۔ ہمیں کینسر جیسے مرض کا علاج ڈسپرین کی گولی سے نہیں کرنا اور جو غیر معمولی حالات ہیں ان کا علاج بھی غیر معمولی ہی اقدامات سے ممکن ہوگا۔ اس ملک کا طاقت ور طبقہ مجموعی طور پر معاشرے پر رحم کھائے اور جو طرزعمل اس وقت ان کا ہے یا انھوں نے اختیار کیا ہوا ہے اس کی موجودگی میں معاشرے میں بڑھتی ہوئی تقسیم کا علاج ممکن نہیں ہوگا جو یقینی طور پر ریاستی مفاد کے خلاف ہے ۔