حمزہ شہباز کو درپیش چیلنجز
حمزہ کی کارکردگی بھی شہباز شریف کی کارکرد گی سے ہی جانچی جائے گی
پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں اس وقت بہت بحرانی کیفیت ہے۔ پوری قوم مسجد نبوی کے واقعے پر غم و غصہ میں ہے۔ عمران خان کے حامی بھی اس کی حمایت نہیں کر سکتے۔ اس لیے اس واقعہ نے ملکی سیاست کا منظر نامہ ہی بدل دیا۔
کل تک جارحانہ نظر آنے والے عمران خان اب ایک کمزور وکٹ پر نظر آرہے ہیں۔ میں اس ایشو پر زیادہ نہیں لکھنا چاہتا۔ اس لیے بس اتنا ہی کافی ہے اگر سیاست سے تحمل اور برداشت ختم ہوگی تو پھر ایسا ہی ہوگا۔
تحریک انصاف اور عمران خان جو آگ لگانے کی کوشش کر رہے تھے ' آج خود اس کی لپیٹ میں نظر آرہے ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں جب آپ کسی کے لیے کنواں کھودنے کی تیاری کر رہے ہوں تو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ آپ خود بھی کنویں میں گر سکتے ہیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ یہی ہوا ہے۔ اس لیے اب بھی توبہ ہی واحد راستہ ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے' عمران خان یہی مذہب کارڈ ن لیگ کے خلاف کھیل رہے تھے۔ احسن اقبال کو گولی لگنے کی حمایت کر رہے تھے۔ آج منظر نامہ ہی بدل گیا ہے۔یہ کل بھی غلط تھا اور یہ آج بھی غلط ہے۔
بہر حال ایک ماہ کے شدید سیاسی بحران کے بعد حمزہ شہباز نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھا لیا ہے۔ ان کی کابینہ کا حلف ابھی ایک معمہ ہے۔ پنجاب میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد پر ووٹنگ بھی ایک معمہ ہے۔
اس لیے جہاں حمزہ شہباز کے حلف سے پنجاب کو ایک مستقل منتخب وزیر اعلیٰ مل گیا ہے۔ وہاں ابھی حکومت سازی کا عمل مکمل ہونے میں کئی رکاوٹیں بھی حائل ہیں۔ پنجاب کابینہ کے حلف کے لیے گورنر کی تبدیلی کا انتظار کرنا ہوگا۔ جس میں ابھی دس دن ہیں۔ اس لیے دس دن حمزہ شہباز کو اکیلے ہی پنجاب چلانا ہوگا۔
حمزہ شہباز کے لیے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کوئی آسان ٹاسک نہیں ۔ ان کے سامنے ان کے والد کی کارکردگی کا معیار ایک چیلنج بن کر کھڑا ہے۔ پنجاب میں کوئی بھی وزیر اعلیٰ آجائے اس کی کارکردگی کو جانچنے کا معیار شہباز شریف کی کارکردگی ہی ہے۔
اس لیے حمزہ کی کارکردگی بھی شہباز شریف کی کارکرد گی سے ہی جانچی جائے گی۔ یہ سوال ہمیشہ رہے گا کہ بیٹا باپ سے آگے ہے یا بیٹا باپ سے پیچھے ہے۔ اگر بیٹا باپ سے آگے ہوگا تو شہباز شریف کے لیے فخر کی ہی بات ہوگی۔ لیکن اگر وہ باپ سے پیچھے ہوں تو یہ افسوسناک ہی ہوگا۔
حمزہ شہباز کو یہ وزارت اعلیٰ پلیٹ میں ملی ہے۔ میں اس بات سے متفق نہیں کہ حمزہ شہباز کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ اس لیے مل گئی ہے کہ ان کا تعلق شریف خاندان سے ہے اور وہ شہباز شریف کے بیٹے ہیں۔ شریف خاندان میں اگر کوئی شخص سب سے زیادہ سیاسی انتقام کا نشانہ بنا ہے تو وہ حمزہ شہباز ہیں۔ شریف خاندان کی طرف سے بے نظیر بھٹو کے دور وزارت عظمیٰ میں سب سے پہلے حمزہ شہباز ہی جیل گئے تھے۔
وہ ابھی سولہ سال کے ہی تھے کہ انھیں جیل جانا پڑ گیا تھا۔ اس کے بعد جب مشرف دور میں پورا شریف خاندان سعودی عرب جلا وطن ہوا تو حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کو پاکستان میں بطور ضمانت رکھ لیا گیا۔
حمزہ شہباز نے اپنے بھائی کے ساتھ دس سال پرویز مشرف کی قید میں گزاری۔ یہ قید اس لیے تھی کہ ان کو نہ تو آزادانہ نقل و حمل کی اجازت تھی اور نہ ہی انھیں اپنے خاندان سے ملنے سعودی عرب جانے کی اجازت تھی۔ وہ مشرف کی ایسی جیل میں تھے جہاں ان کی ذاتی زندگی میں بھی انھیں آزادی نہیں تھی۔ پھر عمران خان کے دور حکومت میں بھی حمزہ شہباز نے ایک طویل جیل کاٹی ہے۔ اس لیے حمزہ شہباز نے یہاں تک پہنچنے کے لیے ایک مشکل سفر طے کیا ہے۔
سیاسی طور پر بھی حمزہ شہباز کے کام کو پاکستان مسلم لیگ (ن) میں آج تک وہ پذیرائی نہیں ملی ہے جس کے وہ حقدار ہیں۔ اپنے والد کے دس سالہ دور وزارت اعلیٰ میں وہ اپنے والد کی پشت پر کھڑے تھے۔ اگر شہباز شریف کو گڈ گورننس اور کارکردگی کی آج مثالیں دی جاتی ہیں تو اس کے پیچھے حمزہ شہباز کے کردار کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔وہ دس سال نوے شاہراہ قائد اعظم پر بیٹھ کر پنجاب کے سیاسی معاملات کو حل کرتے رہے۔
انھوں نے سیاسی مشکلات کبھی شہباز شریف تک آنے ہی نہیں دی تھیں۔ اس لیے شہباز شریف کی تمام تر توجہ گڈ گورننس پر ہی تھی۔ اراکین اسمبلی کو ہینڈل کرنا حمزہ شہباز کی ذمے داری تھی۔ تمام ضمنی انتخابات حمزہ شہباز کی ذمے داری تھی۔
پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں جیت کے پیچھے حمزہ شہباز ہی تھے۔ پنجاب کے تمام اضلاع میں کون کون ہے، کس کی سیاسی پوزیشن ہے ، کس حلقہ سے کون جیت سکتا ہے، کس کی کیا پوزیشن ہے۔ کون کس کی حمایت کر دے تو سیٹ نکل سکتی ہے۔ یہ تمام حمزہ شہباز کو زبانی یاد ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ میں انھیں انتخابی سیاست میں پی ایچ ڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ عمومی طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ حمزہ شہباز ہاری ہوئی سیٹ بھی جیت سکتے ہیں۔ ضمنی انتخابات کے لیے حمزہ شہباز نے ایک اسپیشل ٹیم تیار کی ہوئی ہے جسے انتخاب لڑنے اور جیتنے کا وسیع تجربہ ہے۔
موجودہ بحران میں بھی حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ کے امیدوار نہیں تھے۔ لیکن جب عمران خان نے چوہدری پرویز الہیٰ کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کیا تو پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے متعدد رہنماؤں کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ لڑنے کے لیے پیشکش کی گئی لیکن ساری پارلیمانی پارٹی نے خود ہی حمزہ شہباز کا نام دیا حالانکہ وہ اس کے لیے تیار نہیں تھے۔
اس لیے حقائق گواہ ہیں کہ وہ امیدوار نہیں تھے بلکہ انھیں زبردستی امیدوار بنایا گیا۔ کیونکہ سب کو اندازہ تھا کہ چوہدری پرویز الہی سے جس قسم کا سیاسی میدان سجنا ہے اس کا مقابلہ حمزہ شہباز ہی کر سکتے ہیں۔ سردار اویس لغاری جو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پنجاب سے سیکریٹری جنرل ہیں انھیں وزیر اعلیٰ کا امیدوار بننے کے لیے کہا گیا تھا لیکن انھوں نے خود ہی حمزہ شہباز کے حق میں دستبرداری کا اعلان کر دیا ۔
حمزہ شہباز پنجاب کے ایک بھر پور سیاسی وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اگلے انتخابات میں جیت کے لیے تیار کر دیں گے۔ وہ روٹھے ہوئے لوگوں کو واپس لانے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ وہ پنجاب کے ایک ایک حلقہ کو تیار کریں گے۔ اس لیے حمزہ شہباز شاید اپنے والد سے زیادہ سیاسی ہیں۔ اسی لیے انھیں اپنے تایا نواز شریف کا جانشین کہا جاتا ہے کیونکہ حمزہ شہباز کا سیاسی انداز میاں نواز شریف سے بہت ملتا ہے۔
حمزہ شہباز کے لیے ایک طرف اپوزیشن چیلنج ہوگی۔ عمران خان کی تحریک سے نبٹنا بھی حمزہ شہباز کے لیے چیلنج ہوگا۔ لیکن جو لوگ حمزہ شہباز کو جانتے ہیں انھیں اندازہ ہے کہ حمزہ شہباز اپنی اپوزیشن سے صرف انتظامی طور پر نبٹنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے بلکہ سیاسی میدان میں بھی نبٹیں گے۔ انھوں نے کام شروع کر دیا ہے لیکن ابھی تو اننگ کا اسٹارٹ ہے انھیں بہت محنت کرنا ہوگی۔
جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ انھیں صرف شریف خاندان کا فرد ہونے کی وجہ سے وزارت اعلیٰ مل گئی ہے انھیں غلط ثابت کرنا ہے۔ اگر انھوں نے اچھی کارکردگی نہیں دکھائی تو لوگ کہیں گے وہ اپنے والد کے معیار کے نہیں تھے۔ وہ تایا نواز شریف جیسے نہیں ہیں۔ ناقدین کہیں گے کہ نہیں ان میں وہ بات نہیں۔ اس لیے حمزہ شہباز کو اس ایک سال میں اپنا لوہا منوانا ہے۔ جو کوئی آسان بات نہیں ہے۔ ان کے پاس و قت کم ہے اور مقابلہ بھی سخت ہے۔