نئی حکومت اور عوامی توقعات
خدا کا لاکھ شکر ہے کہ وطن عزیز میں عیدالفطر کا تہوار بخیر و خوبی گزر گیا
ISLAMABAD:
خدا کا لاکھ شکر ہے کہ وطن عزیز میں عیدالفطر کا تہوار بخیر و خوبی گزر گیا ، کورونا پابندیوں کے خاتمے کے بعد یہ پہلی عید تھی جو عوام نے روایتی جوش اور جذبے کے ساتھ منائی ، عزیز ، رشتے دار ، دوست احباب ایک دوسرے سے گلے ملے تو آپس میں محبت کے جذبات پروان چڑھے جب کہ رنجشوں اور شکوے و شکایات کا خاتمہ ہوا، لیکن ملک میں سیاسی کشیدگی نہ صرف برقرار ہے بلکہ اس میں مزید تلخی پیدا ہونے کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا ہے ، اب ایوان کی اکثریت حاصل کرنے والے متحد ہ اپوزیشن کے متفقہ امیدوار میاں شہباز شریف ملک کے وزیراعظم ہیں، دوسری طرف پی ٹی آئی نے ملک بھر میں اس نئی حکومت کے خلاف بھرپور مظاہرے بھی شروع کر دیے ہیں۔
پچھلے کچھ دنوں سے ملک بھر میں بعض معاملات کو مذہبی رنگ دینے سے بھی خطرناک صورتحال پیدا ہوئی ہے ، کیونکہ پاکستان کی سیاست میں مذہب کارڈ کا استعمال پرانی روایت چلی آرہی ہے ، اس وقت اہم مسائل کو چھوڑ کر ملک میں ایسے مسائل پر بحث چل رہی ہے، جن کا تعمیر وترقی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس قسم کے اقدامات اور بیانات سے ملک پسماندگی اور انارکی کی طرف جا رہا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک کو ترقی سے دور لے جانے کا کام کیا جا رہا ہے، عوام کے اصل مسائل کیا ہیں؟ ان پر کسی بھی پلیٹ فارم پر کوئی مکالمہ نہیں ہورہا ہے ۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، خوراک کی قلت اور بے روزگاری پر بات ہونی چاہیے، لیکن ان مسائل پر کوئی توجہ نہیں ہے ۔ وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ان کی حکومت عوام کی توقعات پر پورا اترے گی۔ دراصل نئی حکومت کو سماجی اور معاشی محاذوں پر لاتعداد چیلنجز کا سامنا ہے۔
ڈالر کی قدر میں اضافے سے پٹرول سمیت درآمد کی جانے والی ہر شے مہنگی ہے۔ پاکستان میں غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے عوام کی برسوں سے مہنگائی برداشت کر رہی ہے۔ مختلف بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بے روزگاروں کی تعداد 70 لاکھ سے بھی زیادہ ہوگئی ہے، بیروزگاری کو کم کرنے کے لیے پالیسیوں میں تھوڑی تبدیلی کرنی چاہیے۔ ہنر مند نوجوانوں کو نوکریاں دی جائیں تاکہ ملک کی معیشت مضبوط ہو سکے۔
ملکی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کرے اور عوام کی سہولیات کے لیے ایسا نیا بجٹ بنائے، ایسی تدبیر نکالی جائے جس سے عوام کی مدد ہو سکے۔ نئی نوکریوں کا اجرا کیا جائے، تاکہ ملک میں بے روزگاری کا خاتمہ ہو سکے۔
نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ بے روزگار ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ڈگریاں لینے کے بعد بھی انھیں کوئی نوکری نہیں ملی، جن کو نوکریاں مل چکی ہیں ان کی تنخواہ اتنی کم ہے کہ بمشکل گزارا کر رہے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری لوگوں کی برداشت سے باہر ہو رہی ہے۔ حکومت نئی حکومت کو پہلی ترجیح معیشت کو دینی چاہیے کیونکہ اسی سے خارجہ اور داخلہ پالیسی جڑی ہوئی ہے۔
سابق حکومت نے ریکارڈ بیرونی قرضے حاصل کیے لیکن لوٹی ہوئی دولت کی ایک پائی بھی واپس نہ آ سکی۔ کرپشن کا خاتمہ کرنے والی حکومت کے دور میں کرپشن کا گراف اوپر گیا اور نت نئی کہانیاں سامنے آنے لگیں۔ پاکستان کو گزشتہ چند برس سے خوردنی تیل کے علاوہ دالیں ، چینی یہاں تک کہ گندم بھی درآمد کرنا پڑ رہی ہے جس کی وجہ سے 4سال میں روز مرہ استعمال کی تمام اشیاء کے نرخ کئی گنا بڑھ گئے۔
اس لیے موجودہ حکومت سے عوام کی توقعات بھی حقیقی اور جائز ہیں۔ موجودہ حکومت کی کارکردگی کا انحصار عالمی معاشی حالات سے زیادہ سیاسی عدم استحکام پر ہو گا۔ میاں شہباز شریف نے 2018میں عمران خان کے حکومت سنبھالنے کے فوراً بعد اپنی تقریر میں میثاقِ معیشت کے لیے حکومت کو پیش کش کی تھی۔ آج حکومت سنبھالنے کے بعد انھیں اپنی اس پیشکش کو دوبارہ دہرانا چاہیے کیونکہ ملک میں جاری حالیہ کشیدگی اور سابقہ حکومت کی غلط اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے معیشت تباہ حالی کا شکار ہے۔
عوام کی یہ خواہش ہے کہ ملک کو غیر ملکی قرضوں کے چنگل سے باہر نکالا جائے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ہمیں اپنے انسانی اور قدرتی وسائل سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے۔ ہمارے معدنی وسائل کے ماہرین نے کئی بار کہا ہے کہ زمین میں چھپے ہوئے خزانے یعنی معدنیات میں اس قدر صلاحیت موجود ہے کہ وہ ملک کو قرضوں کے عذاب سے نجات دلا سکتی ہے۔ اسی طرح ہم اپنے زرعی اور صنعتی شعبے کو مضبوط بنا کر بھی اپنی برآمدات میں کئی گنا اضافہ کر سکتے ہیں۔
اقتدار سنبھالنے والی نئی حکومت یہ بات یاد رکھے کہ اس وقت مہنگائی عروج پر ہے ہمارے نوجوانوں کی بے روزگاری ملکی معیشت پر منفی اثرات ڈال رہی ہے لہٰذا مہنگائی اور بے روزگاری کو دور کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف عملی اقدامات کر کے گڈ گورننس ثابت کرنا ہو گی۔ نئی حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ روزگار کی فراہمی کے لیے عملی منصوبہ بندی کرے۔
صنعت و تجارت کو فروغ دے، جاری ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرے۔ خاص طور پر سی پیک کی رفتار کو تیز کرنے سے بھی روزگار کی موجودہ رفتار تیز ہو سکتی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، گرمیوں کے باوجود ہر جگہ گیس کی لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے فوری عملی اقدامات کر کے حکومت اپنی ساکھ بہتر بنا سکتی ہے۔ ریاست کے تمام اداروں کو مضبوط کرے۔
مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کو اپنے اپنے فرائض آزادی سے ادا کرنے کے لیے ماحول فراہم کرے۔ ملک کی خارجہ پالیسی کو مربوط بنانے کے لیے عملی اقدامات کرے، اس سلسلے میں طاقتور اور ترقی یافتہ ملکوں کے ساتھ اچھے خارجہ تعلقات قائم کرنے اور تجارت بڑھانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کیا جائے۔ ترقی اور مضبوط معیشت کے فرضی دعوؤں کی وجہ سے عمران خان کی حکومت عوام کے غضب اور غصے کا باعث بنی رہی۔ نئی حکومت کو ہمیشہ اپنے عوام کے ساتھ سچ بولنا چاہیے کیونکہ ووٹ کی طاقت ہمیشہ عوام کے ہی پاس ہوتی ہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی میں عام آدمی کے حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی بے چینی اور محاذ آرائی غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے زہرقاتل ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ہمارے پاس تربیت گاہیں تک نہیں ہیں۔
پاکستان کو ایک ترقی پذیر ملک سے پسماندہ ملک بنا دیا گیا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان ترقی کا انجن ہوتے ہیں لیکن انھیں روزگار نہیں مل رہا، عام آدمی کے حالات بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ پٹرولیم ایل پی جی کے بعد اب بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ انتہائی تشویشناک اور لمحہ فکریہ ہے۔ حیرت اور تماشا یہ ہے کہ معیشت تباہ حال ، عوام بے روزگار ہو رہے ہیں۔ ملک میں غربت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ملک میں معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے۔
نئی حکومت کو ملکی استحکام، قومی یکجہتی، اتحاد و اتفاق اور سیاسی مفاہمت پیدا کرنے، سیاسی دشمنی، ذاتی عناد، گروہ بندی، علاقائی اور مذہبی تعصب کے ساتھ ساتھ ذاتی سیاسی اور مالی مفادات کے خاتمے کے لیے جامع حکمت عملی اور منصوبہ بندی سے کام لینا ہو گا۔ بہتر ہو گا حکومت عوامی توقعات کے مطابق چیلنجز سے مقابلے کے لیے سیاسی استحکام پر توجہ دے تاکہ ملک بحرانوں سے نکل کر ترقی و خوشحالی کی منزل پر گامزن ہو سکے۔