گورنر کا جانا ایڈوائزرز کا آنا
حکومت کے پاس آپشن تھا کہ انھیں پانچ سالہ اگلی مدت کے لیے تعینات کرے یا پھر کسی اور کا انتخاب کرے
تین سال قبل ایک چھناکے سے رضا باقر کا نام بطور گورنر اسٹیٹ بینک سامنے آیا، اسی طرح ایک جھٹکے میں اب ان کا نام اس عہدے سے سابق ہو گیا۔
نئی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو اس نے مالیاتی استحکام کی تلاش میں سب سے پہلے آئی ایم ایف سے معطل سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کی ٹھانی۔ مفتاح اسماعیل کی قیادت میں گورنر اسٹیٹ بینک کی شرکت اس تسلسل کا مظہر تھی جس نے یہ پروگرام آئی ایم ایف سے طے کیا تھا۔ پروگرام بحال ہوا، بلکہ اس میں ایک ارب ڈالرز اور ایک سال کا اضافہ بھی کر دیا گیا۔
واپسی پر مبارک سلامت کا شور تھما تو علم ہوا کہ بطور گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کے عہدے کی میعاد مکمل ہو گئی ہے۔ حکومت کے پاس آپشن تھا کہ انھیں پانچ سالہ اگلی مدت کے لیے تعینات کرے یا پھر کسی اور کا انتخاب کرے۔ پچھلی حکومت کے معاشی پروگرام پر شدید نکتہ چینی کے سبب امکان یہی تھا کہ انھیں دوبارہ تعینات کرنا ن لیگ کے لیے مشکل ہو گا اور یہی ہوا۔ یوں ملک کے معاشی افق پر گزشتہ تین سال جس نام کا شہرہ تھا ، وہ جس پراسرار عجلت میں وارد ہوا اسی عجلت میں شکریے کی ٹویٹس کے ساتھ منظر سے علیحدہ ہوگیا۔
رضا باقر اورڈاکٹر عبدالحفیظ کا ورود اچانک پر اسرار انداز میں ہوا، اسد عمر معاشی قیادت سے علیحدہ کر دیے گئے، آئی ایم ایف کے ساتھ جس معاملت سے پی ٹی آئی حکومت کئی ماہ کنی کتراتی رہی،اسے بالآخر اِسی آپشن پر مجبور ہونا پڑا۔ اتفاق سے ڈاکٹر عبدالحفیظ اور رضا باقر دونوں ہی آئی ایم ایف کی چھتر چھاؤں میں تھے۔ ان دونوں کی موجودگی میں یہ پھبتی بھی کسی گئی کہ یہ مذاکرات عجیب تھے یعنی آئی ایم ایف بہ مقابل آئی ایم ایف۔ حیرت نہیں ہوئی کہ مذاکرات ایک دو روز میں ' کامیابی' سے ہمکنار ہو گئے جن کے بارے میں مفتاح اسماعیل کے بقول بارودی سرنگیں بھی لگی ہوئی تھیں۔
ماضی کی طرح ایسے پروگراموں کی کامیابی کے بعد نئے وزیر خزانہ نے ملکی وسائل میں فاقہ زدگی کے سبب حکومتی اخراجات میں سادگی کے فضائل کا باور کروایا۔ ان کی قادر الکلامی میں اگر کوئی کسر رہ جاتی تو رضا باقر اپنی باکمال فصاحت سے اس کے حق الیقین ہونے کا مرحلہ باآسانی طے کر دیتے۔ یہ ان کی قادر الکلامی کا کمال تھا کہ اکتوبر 2018 میں مارک اپ کی شرح 8.5%سے بڑھ کر مئی 2019 میں 12.25% کیے جانے کے فضائل پر ہم ایسوں کو افسوس ہوا کہ اس قدر نیک کام پہلے کیوں نہ ہوا۔
اسی طرح روپے ڈالر کی شرح مبادلہ اگست 2018 میں121 روپے تھی جو جولائی 2019 تک بڑھ کر157 ہو گئی تو بھی ان کی شستہ گفتگو اور دلائل سے یہی افسوس ہوا کہ یہ نیک کام کرنے میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی۔ افراطِ زر کی اٹھنے والی ٹیسوں کے باوجود ان کی دلسوز گفتگو زخم پر مرہم کا کام دیتی۔ ہمیں نہیں یاد پڑتا کہ ماضی میں کسی گورنر اسٹیٹ بینک نے میڈیا میں اس تواتر اور افراط کے ساتھ ان پالیسیوں کا دفاع کیا ہو۔
کرنا خدا کا یوں ہوا کہ 2019 میں کورونا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مارچ 2020 میں پاکستان میں کاروبار زندگی معطل ہوا تو حکومت کی معاشی ٹیم نے جس تیزی سے اور جن حیران کن مددگار اقدامات کا اعلان کیا ، اس پر ہوئی واہ واہ کا بیشتر حصہ بھی انھی کی طرف منسوب ہوا۔ مارک اپ شرح میں 7.25% تک کمی، انڈسٹری کو قرض ادائیگی میں رعایت ، بے روزگاری سے بچانے اور معیشت کا پہیہ جاری رکھنے کے لیے اسپیشل فنانسنگ جیسے اقدامات سے بلاشبہ معیشت کسی بڑے شاک سے بچ نکلی ۔
بطور گورنر روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ، نیا پاکستان سرٹیفیکیٹ، راست جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارم ان کے کارنامے رہے۔ ان ساری اسکیموں میں انھوں نے بقول کچھ ماہرین کے کمرشل بینکوں کے مارک اپ مارجن یعنی Spread کا بہت خیال رکھا ۔ نتیجہ یہ ہے گزشتہ ڈیڑھ سالوں کے دوران کمرشل بینکوں کے منافع سنبھالے نہیں سنبھل رہے۔
ان کے ناقدین کا خیال ہے کہ اپنے عہدے کے پہلے سال میں فارن انویسٹمنٹ یعنی Hot Money کی ترغیب کے لیے جلد بازی میں بڑھائی مارک اپ کی شرح اور روپے کی شرح مبادلہ کو آزاد چھوڑنے کے نقصانات کا سہرا بھی انھی کے سر ہے۔ اب وقت ہی بتائے گا کہ رضا باقر کی میراث یعنی Legacy ملک کے لیے کس حد تک سود مند رہی اور بقول ایک اکنامک مبصر کے ان کے آئی ایم ایف کے ساتھ تعلق کے لیے کس قدر سود مند رہی۔
یادش بخیر اسی دوران آئی ایم ایف پروگرام کے لیے اسٹیٹ بینک کی مزید خود مختاری کی سخن گسترانہ شرط کی پارلیمنٹ سے منظوری بھی نیشنل سیکیورٹی جیسا مسئلہ بن گئی ۔ ایک دوسرے کے لتے لیتے اپوزیشن اور حکومتی ارکان اس مسئلے پر شیر و شکر ہونے پر مجبور دیکھے گئے۔ اس اعتبار سے رضا باقر کا دور رولر کوسٹر کے سے نشیب و فراز اور حیرانیوں سے بھرپور رہا۔ اب وہ جانیں اور ان کی مستقل جائے ملازمت، البتہ نئے وزیر اعظم نے نئے گورنر کی تلاش شروع کر دی ہے۔
اس دوران نئے وزیر اعظم نے اپنی اکنامک ایڈوائزری کونسل کی تشکیل نو کی ہے۔ ایک چوتھائی تو ان کے اہم وزراء ہیں ، دیگر ممبرز کی غالب اکثریت اس ملک کے ارب پتی صنعت کاروں اوربینکرز پر مشتمل ہے ۔ کوئی زرعی ماہر شامل ہے نہ کوئی آئی ٹی اسپیشلسٹ، درمیانے بزنسز کی نمایندگی ہے نہ انٹرنیشنل ٹریڈ اکونومسٹ کی۔ نئی کونسل کے یہ نامور بزنس مین رولنگ ایلیٹ سے ہیں ، ان کے آئیڈیاز تو شہباز شریف کو بطور وزیر اعلیٰ بھی یاد ہی ہوں گے، بہتر ہوتا اگر وہ کونسل کو وسیع البنیاد رکھتے۔
ہفتہ وار اجلاس کے بجائے ماہانہ اجلاس بھی نتیجہ خیز ہوسکتا ہے اگر اس میں اپنے اپنے انڈسٹری مفادات کے لگے بندے تقاضوں کے بجائے آؤٹ آف باکس آئیڈیاز پیش ہوں، اور ان پر عمل کرنے کی اسپیڈ اور اسپرٹ بھی مثالی ہو۔ ورنہ کونسل کی حد تک تو پچھلی حکومت نے بھی اسی طرح کی مشاورتی کونسل بڑی دھانسو دار بنائی تھی !