درد کے رشتے اور کارل مارکس
مارکس کی تنقید کی روشنی میں یہ بات آج بہت واضح نظر آتی ہے
FAISALABAD:
مجھے فخر ہے کہ میری جنم مٹی سندھ کی اس سرزمین سے اٹھی جہاں تہذیب،ادب،امن اور مظلوم کی داد رسی انسانی بنیاد پر ہوئی ،میرے سندھ کی مٹی ماتا نے بنا رنگ و نسل اور شان و شوکت کی پرواہ کیے بغیر ہر اس سپوت کو گلے لگایا جس نے انسانی آزادی اور اس کی جمہوری سیاسی سوچ کی قدر کی،میرے وجود کی گواہ یہی وہ سر زمین رہی جس نے عرب کے شاہ لطیف اور عجم کے سچل سرمست کے گیت اور سروں میں انسانی آزادی کے جب ''کارنس'' سنے تو انھیں اپنے ہردے(دل) میں جگہ دی اور انھیں جگ میں سندھ کے امن شانتی اور محبت کا نشان بنایا،اپنا بننے اور اور انسانی بقا کی سلامتی کے لیے کسی غیر کو اپنانے میں میرے سندھ کی مٹی نے کبھی بخل سے کام نہ لیا،میرے سندھ کے وسیع دل اور خیالات کی سچائی نے ہی صدیوں کے تہذیبی اقدار کا بھرم آج تک دنیا میں رکھا ہوا ہے،میری جنم بھومی سندھ سے ہی رواداری،برداشت،دوستی اور سیاسی ہلچل کے وہ سوتے پھوٹے ہیں جو آج بھی ہماری جمہوری سیاسی تاریخ کا نقطہ آغاز ہیں۔
میرا جنم جیون ''دادو'' ہمیشہ پتھریلی زمین کی گرمی کے ساتھ چٹان ایسے عزم کا شہر رہا،جہاں عوامی استحصال کرنیوالے کسی بھی سورما کو بخشا نہیں گیا،ایوب خان کے ون یونٹ سے لے کر کراچی سے خیبر تک ایوبی مارشل لاء کے خلاف طلبہ تحریک کا ہر اول شہر بھی ''دادو'' ہی رہا جہاں دادو ہی کے رہواسی معروف سیاسی رہنما علی مختار رضوی نے ملک کے دیگر شہر بدر طلبہ کے ساتھ مل کر ایوبی اقتدار کے خاتمے کی راہ ہموار کی اور اپنے شہر دادو سے ملک گیر طلبہ تحریک کا کامیاب آغاز کیا۔
''دادو''میں ان تمام سیاسی جدوجہد کو دیکھتے ہوئے میرے بچپن کے ذہن میں مظلوم طبقات سے فطری لگاؤ کے رجحان نے جب جنم لیا،تو میرے جاگیردارانہ ذہن کے گھرا نے اسے کبھی قبول نہ کیا،ہمارے گھرانے کا آبائی پیشہ تپیداری(پٹوار گیری) رہا،دادا سے لے کر باپ چچا سب اس انگریزی نظام کے آلہ کار رہے اور اسی بدولت دھن دولت کی ریل پیل رہی،مجھے یاد ہے کہ ہمارے شہر دادو میں ڈپٹی کمشنر اور صرف ہمارے باپ کے پاس بگی تھی،جس کا کام ہمیں اسکول لے جانا اور لانا تھا،اس وقت کی قیمتی سواری بگی شاید ہمارے بڑوں کی شان و شوکت اور دولت مندی کی نشانی سمجھی جاتی ہو،مگر اس دم غیر سیاسی ذہن کے باوجود مجھے بگی پہ بیٹھنے پر اعتراض رہا۔
ایک روز ہمارا ''صفر'' نامی کوچوان ہمیں اسکول لے جارہا تھا کہ میں بگی سے اتر گیا،صفر نے ہاتھ پیر جوڑے کہ ''صاحب بیٹھو ،ورنہ میری نوکری چلی جائے گی''میں نے اس وقت چھٹی کلاس کے طالبعلم کی حیثیت سے صفر سے سوال کیا کہ'' جب میرے سارے دوست میرے جیسا ڈریس پہنے ہوئے ہیں تو یہ کیوں اسکول پیدل جا رہے ہیں اور میں کیوں بگی پر جا رہا ہوں؟''صفر نے مختصر جواب دیا کہ ''صاحب یہ غریب ہیں ،آپ امیر ہیں'''' یہ غریب کیا ہوتا ہے''میں نے صفر سے سوال داغا،اس نے کہا کہ'' صاحب چھوڑیں اس بات کو...میں نے کہا'' کیوں؟''
اس نے جب جواب نہ دیا تو میں نے کہا کہ'' کل سے میں بھی دوستوں کی طرح پیدل اسکول آؤں گا''شام ہوتے ہی صفر کے ماجرا بتانے پر خوب دھنائی ہوئی مگر میں ابا سے بس یہی پوچھتا رہا کہ'' آپ کیسے امیر ہوئے اور وہ کیوں غریب ہیں''مجھے نہیں معلوم کہ یہ بات میں کس نظریئے کے تحت کہہ رہا تھا،مگر جب کالج کی ابتدا ہوئی تو وہاں طلبہ یونین کی ہلچل میں سرگرم رہے،مشرقی پاکستان میں مجیب نے اکثریت لی تو اس کی حمایت میں بنگال کے مولوی فرید،اصغر خان اور کنیز فاطمہ نے دادو میونسپل پارک جو ریلوے اسٹیشن کے قریب تھا میں جلسہ کیا اور ہم اپنے طور پر اس سیاسی ہلچل کا حصہ ہو گئے،ہماری پڑھائی کے ضمن میں ابا نے کراچی بھیجا تو یہاں ماموں علی مختار رضوی بہت معروف اور ترقی پسند تحریک کا حصہ تھے،بس پھر کیا تھا ہم ماموں کے گھر سے نعرے لگاتے ہوئے سیاسی جدوجہد سے جڑ گئے۔
کراچی کی طلبہ تحریک میں جان عالم اس وقت بہت متحرک تھے اور ہمارے ساتھی تھے،طلبہ جدوجہد کے دوران ہمارے کانوں میں سوشل ازم اور کمیونزم کی بزگشت آئی،بس محکوم طبقات کو آزادی دلانے اور سائنسی انداز طرز فکر اپنانے میں، مارکس ازم کی جانب لے جانے میں ہمارے معاون و مددگار ڈاکٹر مظہر حیدر،میر احمد حسین، منصور سعید اور لیاقت حسین رہے اور ان ہی کی مدد سے بعد کو بس پارٹی، کامریڈ امام علی نازش اور کمیونزم کے ہو رہے۔ پانچ مئی کو اس دنیا کو چھوڑنیوالے کارل مارکس کی تعلیمات محکوم طبقات کو سرمایہ دار اور جاگیردارانہ حاکم طبقات سے نجات دلانے کی اب تک کی انسانی تاریخ میں اہمیت کی حامل تعلیمات ہیں۔سو برس سے زیادہ کے عرصے بعد بھی کارل مارکس سے زیادہ سماج اور انسانی محنت کی قدر کابہترین تفہیم کرنے والا عظیم دانشور شاید ہی کوئی گزرا۔
کارل مارکس کی عملی زندگی محکوم طبقات کا استحصال کرنیوالوں کی نشاندہی میں گذری،مارکس نے عملی طور پر کمیونسٹ لیگ بنا کر پیغام دیا کہ محروم طبقات کی منظم جماعت یا جتھہ ''کمیونسٹ''نام اور فکر کے تحت ہی سماج میں اپنا مثبت کردار ادا کر پائے گا، وگرنہ مارکسزم کی تشریح ہر نکتہ نظر اپنی تفہیم کے تحت کرے گا،لہذا سماج کے سیاسی شعور اور جدوجہد کو صرف ایک سچا''کمیونسٹ'' ہی اپنی پارٹی بنا کر سماج کے مختلف طبقات کو جوڑنے کا ہر اول دستہ ہوگا۔
کارل مارکس اپنی معروف کتاب A Contribution to the critique of political Economy ،یعنی سیاسی اقتصادیات کی تنقید میں تاریخی مادیت کے اصول ترتیب دیتے ہوئے پیداواری قوتوں اور پیداواری رشتوں کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ'' کوئی بھی سماجی نظام اس وقت تک برباد نہیں ہوتا، جب تک وہ اپنی تمام پیداواری صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لا چکتا اور نہ ہی نئے سماجی رشتے کبھی پرانے رشتوں کی جگہ لے سکتے ہیں،تا وقت کہ پرانے سماج کے بطن سے ان کی پیدائش کے تمام تقاضے پورے نہ ہو چکے ہوں،چناچہ انسانیت اپنے سامنے ایسے اہداف نہیں رکھتی جس کو حاصل کرنے میں وہ ناکام رہے،اس تناظر میں دیگر یورپی ممالک کے ساتھ جب ہم اپنے ملک پر نظر ڈالتے ہیں تو جن ممالک میں شرح آبادی کم ہے، وہاں مسلسل شرح پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔تمام تر جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود سرمایہ دار دنیا پیداوار اور آبادی کی خلیج دور کرنے سے محروم ہے۔''
مارکس نے درست ہی کہا کہ'' موجودہ نظام پیداوار جو فرد کو بھوک افلاس دے رہا ہے،جب تک ہم اس نظام پیداوار کہ تبدیل نہیں کرتے اس وقت تک غربت،بے روزگاری کا خاتمہ نا ممکن ہے،مارکس کی تنقید کی روشنی میں یہ بات آج بہت واضح نظر آتی ہے کہ سرمایہ دارانہ جدید ترقی آج بھی دنیا کے کروڑوں انسانوں کو صرف صاف پانی مہیا نہ کر سکی ہے، تو بھلا اس سے بڑا دھوکا اس ترقی کی آڑ میں عام فرد کے استحصال کا کیا ہوگا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ جھونپڑپٹی سے لے کر گلیوں چوباروں میں مارکسی منڈلیاں بنائی جائیں اور نوجوانوں سے لے کر عام فرد کو مارکسی تعلیم دی جائے تاکہ عوام سیاسی و نظریاتی جدوجہد کے نتیجے میں حقیقی معاشی اور سیاسی آزادی حاصل کر سکیں،مارکسی تعلیم کی روشنی میں عملی جدوجہد اور کمیونسٹ تنظیم کاری ہی آج کے سماج کا مارکس کو خراج ہوسکتا ہے۔