قبرستان

قومی تاریخ گواہ ہے اب تک بننے والے کسی کمیشن کی کلی رپورٹ منظرعام پرنہیں آئی اورنہ ہی ذمے داروں کاکبھی تعین کیا جاسکا


MJ Gohar May 08, 2022
[email protected]

MUZAFFARGARH: بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز (21 فروری 1983) کی ایک خبر کے مطابق اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے نام ایک مسلمان لیڈر نے خط لکھا۔ اس میں انھوں نے یہ شکایت کی کہ ہندوستان میں مسلم اقلیت کے ساتھ ظلم اور امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔

انھوں نے ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی کہ اگر اس صورتحال کو ختم نہ کیا گیا تو ان کی پارٹی ستیہ گرہ شروع کردے گی۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے ستیہ گرہ کے بارے میں جان لیجیے۔ ستیہ گرہ تحریک کو ہندوستانی جدوجہد آزادی میں تاریخی طور پر ایک اہم آزادی کی لڑائی سمجھا جاتا ہے۔ 1917 میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں پہلی ستیہ گرہ تحریک شروع ہوئی تھی۔

یہ درحقیقت کسانوں کی لڑائی تھی جو ہندوستان میں بہار صوبے کے چمپارن ضلع میں برطانوی نوآبادیاتی دور میں ہوئی تھی۔ 1915 میں جب گاندھی جنوبی افریقہ سے ہندوستان واپس آئے اور انھوں نے شمالی ہندوستان میں کسانوں کو انڈگو کے باغبانوں کے ہاتھوں ظلم و ستم سہتے دیکھا تو انھوں نے وہی طریقے استعمال کرنے کی کوشش کی جو انھوں نے جنوبی افریقہ میں ناانصافی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے عوامی بغاوتوں کو منظم کرنے کے لیے استعمال کیے تھے۔ اب خط کی طرف دوبارہ آتے ہیں، اندرا گاندھی نے خط کے جواب میں مکتوب نگار کو جو خط لکھا اس کا ایک جملہ یہ تھا:

No minority could survive if their neighbours of the majority were irritated.

''کوئی اقلیت زندہ نہیں رہ سکتی اگر اس کی پڑوسی اکثریت مشتعل ہو۔''

بقول مولانا وحید الدین خان کے اگر بالکل غیر جانبدار ہو کر دیکھا جائے تو وزیر اعظم اندرا گاندھی کا یہ جملہ صورت حال کی صحیح ترجمانی کرتا ہے اور اسی کے اندر مسئلے کا حل بھی چھپا ہوا ہے۔ مولانا کے مطابق دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ مختلف اسباب سے ایک دوسرے کے خلاف ناراضگی کے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں، اگر کوئی آگے بڑھ گیا ہے تو دوسروں میں اس کے خلاف حسد کا جذبہ، کسی کو زیادہ مل گیا ہے تو اس کے مقابلے میں اپنی محرومی کا احساس، کسی سے شکایت کی کوئی بات ہو جائے تو اس کے خلاف غصہ و انتقام۔

اس قسم کے جذبات انتہائی عام ہیں اور وہ ہر سماج میں موجود ہوتے ہیں، مگر عام حالات میں وہ دلوں کے اندر چھپے رہتے ہیں،لیکن اگر کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آ جائے تو یہ جذبات چشمے کے پانی کی مانند ابل پڑتے ہیں۔ سماجی امن درحقیقت اس کا نام ہے کہ ان منفی اور برانگیختہ جذبات کو دبا رہنے دیا جائے، جب کہ اس کے برعکس بدامنی یہ ہے کہ کوئی نادانی کرکے ان پوشیدہ جذبات کو ابھارا اور مشتعل کر دیا جائے۔

یہ زندگی کی ایک اٹل حقیقت ہے اور موجودہ مقابلے کی دنیا میں کوئی معاشرہ اس سے خالی نہیں ہو سکتا۔ ایسے حالات میں پرامن زندگی کا صرف ایک ہی راز ہے کہ صبر، تحمل، برداشت اور حکمت و بصیرت سے کام لیتے ہوئے منفی و غضب ناک جذبات کو دبا رہنے دیا جائے۔ زندگی کے راز حقیقت کو کسی مفکر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

''اس دنیا میں ہر آدمی کے پاس ایک وسیع قبرستان ہونا چاہیے جس میں وہ لوگوں کے قصوروں کو دفن کرسکے۔''

اس پس منظر میں دیکھیے کہ کیا وطن عزیز کا معاشرتی، سماجی، معاشی، سیاسی اور عدل کا نظام اتنا قابل اعتبار ہے کہ مذکورہ ہر شعبے میں ہونیوالی ناانصافیاں، زیادتیاں، ظلم و ستم اور ناروا سلوک لوگوں میں محرومیوں و مایوسیوں کو جنم دے کر ان کے اندر منفی جذبات اور اشتعال انگیز خیالات کو ابھارنے کا سبب نہیں بنتے؟ کیا ہمارے مختلف النوع نظام ہائے زندگی کی رہنمائی کرنیوالے اکابرین، قائدین اور رہنماؤں نے کبھی اس جانب توجہ مرکوز کی کہ معاشرے میں امن و سکون کے لیے انھیں کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟

اپنے معتقدین، عقیدت مندوں، پیروکاروں، کارکنوں اور عام آدمی کو ہر صورت صبر، تحمل، برداشت، نظم و ضبط، بردباری اور ایک دوسرے کے نظریات خیالات اور عقائد کا احترام کرنے کا درس دیا؟ کبھی اچھی بات کی تلقین کی؟ افسوس کہ ایسے سارے سوالات کا جواب ایک واضح نفی میں ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ قیادت سے سیادت تک، سیاست سے صحافت تک اور انصاف سے معیشت تک ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہمارے بڑوں نے دعوے تو ہمیشہ یہ کیے کہ بانی پاکستان قائد اعظم کے رہنما اصولوں کے مطابق اس ملک کا نظام چلائیں گے لیکن ان کی ترجیح قومی مفادات سے زیادہ ذاتی، انفرادی، خاندانی، سیاسی، جماعتی اور گروہی مفادات کو تحفظ دینا رہی ہے۔

توقع کے عین مطابق عید کے بعد حکومتی اتحادی اور ان کی مخالف واحد سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے درمیان محاذ آرائی کا آغاز ہو چکا ہے،دونوں فریق سڑکوں پر ہیں۔ (ن) لیگ نے فتح جنگ اور پی ٹی آئی نے میانوالی سے جلسوں کا آغاز اور ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی سیاست کا بازار گرم کر دیا ہے، جس کا گراف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اوپر کی جانب تیزی سے جاتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ کیونکہ عمران خان نے میانوالی جلسے میں 20 مئی کے بعد کسی بھی دن لانگ مارچ کی کال دینے کا اعلان کردیا ہے۔

انھوں نے اپنا مطالبہ دہرایا کہ فوری الیکشن کرائے جائیں، کس کو حکومت کرنا ہے یہ فیصلہ عوام کو کرنے کا اختیار دیا جائے۔ سابق وزیر اعظم نے اپنے کارکنوں کے منفی جذبات کو ابھارنے اور مشتعل کرنے کے لیے ہدایت دی کہ وہ سبق سکھانے کا ''بندوبست'' کریں۔ گویا آیندہ انتخابات کے پرامن ہونے کے امکانات معدوم اور پرتشدد و لہو رنگ ہونے کا خدشہ بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے، یہ صورتحال ہرگز تسلی بخش قرار نہیں دی جاسکتی۔ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمے دار بیرونی سازش کو قرار دیتے ہیں۔

اس ضمن میں وہ ایک سفارتی مراسلے کو بنیاد بناتے ہوئے عدلیہ کے زیر نگرانی کمیشن کے ذریعے تحقیقات کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ شہباز حکومت کی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اعلان کیا ہے کہ ایک آزاد و خودمختار کمیشن عمران خان کے سازشی بیانیے کی تحقیقات کرے گا۔ کابینہ کی منظوری کے بعد کمیشن کا ایسا سربراہ مقرر کیا جائے گا جس پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے گا اور انکوائری رپورٹ عوام کے سامنے رکھی جائے گی۔

پی ٹی آئی نے مجوزہ حکومتی کمیشن مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمیشن کا اعلان بدنیتی پر مبنی ہے۔ ہم صرف وہ کمیشن قبول کریں گے جو آزاد عدلیہ کے تحت ہو اور کمیشن کی کارروائی براہ راست دکھائی جائے۔ قومی تاریخ گواہ ہے کہ اب تک بننے والے کسی کمیشن کی کلی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی اور نہ ہی ذمے داروں کا کبھی تعین کیا جاسکا۔ یہاں بھی نتیجہ دھاک کے تین پات رہے گا۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہمارے رہنما و قائدین ایسا قبرستان بنائیں ،جہاں ایک دوسرے کے قصوروں کو دفن کرکے قومی مفاد میں متفقہ فیصلے کرسکیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔