سبط حسن مارکس اور مشرق آخری حصہ
سبط حسن کے مضامین پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مارکس کتنا عظیم فلسفی اور سماجی سائنس دان تھا
کراچی:
مارکس اپنے مشکل دنوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ'' میرے حالات نے اب یہ صورت اختیار کرلی ہے کہ میں گھر سے باہر نہیں نکل سکتا کیونکہ میرے کپڑے رہن ہیں۔
اس کے باوجود مارکس کے عزم استقلال میں کوئی فرق نہ آیا اور نہ جینی نے کبھی بھولے سے شوہر کی مصروفیتوں پر ناک بھوں چڑھائی بلکہ ہر مشکل وقت میں اس کی ڈھارس بندھاتی رہی۔ اس کا بھائی ان دنوں جرمنی میں وزیر داخلہ تھا۔ اس نے بہن کو لکھا کہ'' تم لوگ واپس آجائو میں تمہاری کفالت کروں گا۔''غیور جینی نے جواب دیا کہ ''میں نے مارکس اوراس کے خیالات سے شادی کی ہے۔ جرمنی میں ان دونوں کی گنجائش نہیں، مجھے ایسا جرمنی نہیں چاہیے۔''
گھریلو پریشانیوں کے باوجود مارکس اپنی دھن میں لگا رہا،وہ صبح سویرے برٹش میوزم چلا جاتا اور شام کے 7بجے گھر واپس لوٹتا پھر ڈیڑھ دو بجے رات تک کام کرتا رہتا۔ چنانچہ اپریل 1850 اور اگست 1853 کے درمیان اس نے اقتصادیات کی کتابوں اور سرکاری رپورٹوں سے 23 بیاضیں بھر ڈالیں۔ اس دوران اینگلز بھی لندن پہنچ گیا اور ایک سال وہاں رہ کر دوبارہ مانچسٹر چلا گیا تاکہ مارکس کی تھوڑی بہت کفالت کرسکے۔
اگست 1851 میں اخبار ''نیو یارک ڈیلی ٹری بیون'' کے ایڈیٹر چارلس ڈانا نے جو مارکس سے کولون میں مل چکا تھا، مارکس کو اخبار کی نامہ نگاری پیش کی۔ شرط یہ تھی کہ مارکس ہفتے میں دو خبرنامے بھیجا کرے گا۔ ایسی حالت میں کہ یورپ میں انقلاب دشمن قوتوں کے برسراقتدار آنے کے بعد اظہار رائے کی تمام راہیں مسدود تھیں، مارکس نے اس پیشکش کو غنیمت جانا، وہ تقریبا گیارہ برس تک نامہ نگاری کے فرائض ادا کرتا رہا، البتہ امریکا میں جب خانہ جنگی شروع ہوئی اور ''نیویارک ڈیلی ٹری بیون'' نے غلامی کی حمایت کا رویہ اختیار کیا تو مارکس نے ''ٹری بیون'' سے ناتا توڑ لیا۔
مارکس اور اینگلز نے ''ڈیلی ٹری بیون'' میں یورپ کے حالات حاضرہ کے علاوہ ترکی، مصر، ایران، ہندوستان اور چین کے بارے میں بیشمار مضامین لکھے اور مشرقی ملکوں میں مغربی حکومتوں کی ریشہ دوانیوں اور استحصالی سرگرمیوں کو خوب خوب بے نقاب کیا۔ انھوںنے یہ سوال بھی اٹھایا کہ مشرق میں ہزاروں سال سے معاشرتی جمود کیوں ہے؟ اور ہندوستانی معاشرے میں وہ کیا خرابیاں تھیں جن کی وجہ سے یہاں یورپ کی مانند سرمایہ داری کو فروغ نہیں ہوا؟ اور نہ صنعتی انقلاب آیا بلکہ انگریز سوداگردوں کی ایک مختصر سی جمعیت اس وسیع و عریض ملک پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ ان کے نزدیک معاشرتی جمود اور غلامی کے دو بنیادی اسباب تھے۔ اول ریاستی استبدادیت، دوم دیہات کا خود کفیل زرعی اور دستکاری نظام۔
انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کرکے یہاں کی صنعت و حرفت کو جس بے دردی سے برباد کیا اور ملک کو خام مال کی منڈی اوربرطانوی مصنوعات کے بازار میں تبدیل کردیا، اس کی وضاحت کرتے ہوئے مارکس نے ''ٹری بیون'' میں کئی مضامین لکھے بلکہ مارکس کا دعویٰ تھا کہ برطانیہ میں 18 ویں صدی میں سرمائے کا جو ارتکاز ہوا وہ بڑی حد تک ہندوستانی دولت کی براہ راست اور بے تحاشا لوٹ سے ہوا مگر اس شر میں خیر کا پہلو پوشیدہ تھا مارکس اس سے بے خبر نہ تھا۔
مارکس کا خیال تھا کہ انگریزوں نے ہندوستان میں سرمایہ داری نظام نافذ کر کے ایک تاریخی فریضہ ادا کیا ہے۔ ہندوستان جو اب تک الگ تھلگ تھا وہ عالمگیر سرمایہ دارانہ معیشت کا جز بن گیا۔ اسی کے ساتھ تار برقی اور ریلوں کے جال، مغربی طرز کی تربیت یافتہ دیسی فوج جس کو تشکیل دیکر انگریزوں نے ہندوستان کے لیے دشمن سے مقابلے کا پہلا مرکز قائم کردیا ہے۔ (یہ پیش گوئی 1857 میں حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی)
اس کے علاوہ چھاپے خانے اور اخبار جن سے ایشیائی معاشرہ پہلی مرتبہ روشناس ہوا جو تعمیر نو کے حق میں نہایت مفید ثابت ہوں گے اور پھر انگریزی تعلیم اور مغربی طرز کے اسکول اور کالج جن کا مقصد یوں تو سرکاری دفتروں کے لیے بابو تیار کرنا ہے مگر جہاں پر مغرب کے جدید علوم، جمہوریت ، آزادی اور خود مختاری کے اصول بھی پڑھائے جاتے تھے لیکن مارکس نے متنبہ کیا کہ:
''کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ انگریز صنعت کاروں کی ان سرگرمیوں کی بدولت ہندوستان خود بخود آزاد ہوجائے گا یا ہندوستان کے عوام کی حالت سدھر جائے گی۔ ہندوستانیوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ انگریزوںکے نافذ کردہ معاشرے کے نئے عناصر کا پھل اس وقت تک نہیں کھا سکیں گے جب تک برطانیہ میں موجود حاکم طبقے کی جگہ پرولتاریہ کا راج نہ ہوجائے یا خود ہندوستانی اتنے قوی نہ ہوجائیں کہ انگریزوں کی غلامی کا جو اتار پھینکیں۔''
مارکس اور اینگلز کو 1857 کی بغاوت ہند سے پوری ہمدردی تھی اور وہ اپنے خبر ناموں میں بغاوت کی زوداد مسلسل رقم کرتے رہتے تھے۔ انھوں نے اس بات کا اعلانیہ اظہار کیا کہ''ہندوستان کی موجودہ شورش فوجی بغاوت نہیں بلکہ قومی انقلاب ہے البتہ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان کی جدوجہد ناکام ہوجائے گی کیونکہ ان کی مرکزی لیڈر شپ بے حد کمزور اور برائے نام ہے، ملک گیر پیمانے پر ان کی کوئی مشترکہ حکمت عملی نہیں ہے ان میںایکا بھی نہیں ہے بلکہ وہ ایک دوسرے کے خلاف سازش کرتے رہتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دفاعی جنگ لڑتے ہیں جس کی وجہ سے انگریزوں کو فوجی کمک منگوانے اور نقل و حرکت کی پوری آزادی حاصل ہے۔''
مارکس نے سرمایہ دارانہ معیشت کا مطالعہ 1843 میں شروع کیا تھا، یہ سلسلہ 24 برس تک جاری رہا۔ اس دوران میں مارکس نے فلسفہ، سیاسیات اور سرمایہ داری نظام پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کئی اہم کتابیں لکھیں۔ ''نیویارک ڈیلی ٹری بیون'' کی نامہ نگاری کی اور مزدوروں کی انقلابی سرگرمیوں میں بھی شریک ہوتا رہا، لیکن اس کی زندگی بھر کی کاوش وتحقیق کا حاصل کتاب''سرمایہ'' ہے۔
جس وقت ''سرمایہ'' کی پہلی جلد شائع ہوئی تو مارکس کی عمر پچاس سے بھی کم تھی۔ وہ گٹھے بدن کا مضبوط آدمی تھا اور روزانہ سترہ اٹھارہ گھنٹے کام کرکے بھی نہ تھکتا تھا مگر جلاوطنی کی زندگی اور آلام و مصائب نے اس کو وقت سے پہلے بوڑھا کردیا تھا۔ اس کو دو وقت کی روٹی کبھی سکون سے نہ ملی۔ اس کے باوجود اس نے اپنے اصولوں پر کبھی حرف نہ آنے دیا۔ اس ظالمانہ انسان دشمن سماجی نظام کو بدل کر سوشل ازم کے منصفانہ نظام کو قائم کرنے کا عزم و ولولہ کبھی دھیما نہیں ہوا لیکن جسم آخر جسم ہے ،وہ جفاکشیوں کو کب تک برداشت کرتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی صحت تیزی سے گرنے لگی اور بیماریوں نے آن گھیرا۔ ایک روز تو وہ برٹش میوزیم میں پڑھتے پڑھتے بے ہوش ہوگیا اور سینے میں اتنا شدید درد اٹھا کہ سانس لینا دوبھر ہوگیا۔
ابھی اس کی طبیعت سنبھلی نہ تھی کہ جینی سخت بیمار ہوگئی۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ جگر کا کینسر ہے۔ مارکس نے دن رات خدمت کی مگر جینی کی حالت نہ سنبھلی اور دسمبر 1881ء میں جینی کاانتقال ہوگیا۔ محبت کی یہ شمع فروزاں کیا بجھی کہ مارکس کی زندگی تاریک ہوگئی۔ ابھی یہ غم تازہ تھا کہ بڑی بیٹی جو پیرس میں بیاہی تھی اچانک چل بسی۔ اس حادثے نے مارکس کی رہی سہی قوت مدافعت بھی چھین لی۔ اس کو پلوروسی ہوگئی اور پھیپھڑوں نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا۔ آخر 14 مارچ 1883 کو وہ انقلابی جس نے سب کو جگانے کاعزم کررکھا تھا کرسی پر آرام کرتے کرتے ہمیشہ کے لیے سو گیا۔اس کو ہائی گیٹ کے قبرستان میں جینی کے پہلو میں دفن کردیا گیا۔
سبط حسن کے مضامین پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مارکس کتنا عظیم فلسفی اور سماجی سائنس دان تھا۔ اس نے پونے دو سو سال پہلے مشرق اور ہندوستان کا جو معروضی اور سائنسی تجزیہ پیش کیا تھا اسے آج بھی کوئی مسترد نہیں کر سکتا۔ 21 ویں صدی حیرت انگیز ترقی کی صدی ہے۔ اس کی خوبیاں اپنی جگہ لیکن لگتا یوں ہے کہ عظیم فلسفیوں، شاعروں، ادیبوں اور انقلابی رہنمائوں کا زمانہ گزری صدی کے ساتھ تمام ہوگیا ہے۔ کیا یہ ایک المیہ نہیں ہے؟