محنت

عام نوجوان بچے اور بچیوں کی طرف دیکھتا ہوں۔ اکثریت کسی نہ کسی حکومتی امداد کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہے


[email protected]

MANCHESTER: جھاڑ کنڈ ' ہندوستان کا غریب ترین صوبہ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق بیتالیس فیصد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ تعلیم ' روز گار ' طبی سہولیات اور دیگر معاملات حد درجہ دگرگوں ہیں۔

پورے ہندوستان میں بہار واحد ایسا صوبہ ہے جو جھاڑ کنڈ سے بھی گیا گزرا ہے۔ ساٹھ فیصد سے زیادہ آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔ غرض یہ جھاڑ کنڈ مجموعی طور پر حد درجہ پسماندہ اور غربت زدہ ریاست ہے۔ جھاڑ کنڈکے ایک انتہائی پسماندہ علاقے میں آشا دیوی نام کی ایک ادھیڑ عمر عورت رہتی ہے۔ اس کا پیشہ مزدوری ہے' کبھی کسی تعمیراتی کام میں سامان ڈھونا شروع کر دیتی ہے۔

اگر کہیں کنواں کھد رہا ہو تو کدال اور اوزار لے کر زمین کھودنی شروع کر ڈالتی ہے۔ کبھی کسی زمیندار کو فصل کاٹنے کے لیے افرادی قوت کی ضرورت ہو تو وہاں کام کرنا شروع کردیتی ہے۔ مکمل ان پڑھ ہے۔ اسے مزدوری مجبوراً بھی کرنا پڑتی ہے۔ اس لیے کہ اس کا خاوند نشہ کرتا ہے ۔ سارا دن گھر میں پڑا رہتا ہے۔ اس قدر غیر ذمے دار شوہر کی موجودگی میں آشا دیوی اگر مزدوری نہیں کرے گی تو اور کیا کرے گی۔

ساتھ ساتھ ایک اور قدرتی بدقسمتی بھی موجود ہے۔ اولاد نرینہ سے محروم ہے۔ پانچ بیٹیاں ہیں۔ برصغیر میں اگر لڑکا نہ ہو ' تو عورت کو قصور وار بلکہ مجرم گردانا جاتا ہے۔ لہٰذا اس لحاظ سے آشا دیوی ایک مجرمہ ہے۔ بڑی تین بیٹیوں کی جیسے تیسے شادیاں ہو چکی ہیں۔ اب آشاکے گھر میں صرف دو بیٹیاں موجود ہیں ۔ ان میں انیتا کماری بڑی اور وینیتا کماری چھوٹی ہے۔

انیتا اس وقت پندرہ سولہ برس کی ہے۔ و ہ بچپن ہی سے انتہائی مختلف تھی۔ گھر میں کھانا صرف ایک وقت بنتا اور صرف ایک طرح کا ہوتا ہے۔ اسے مقامی طور پر مندھ بھات کہا جاتا ہے۔ یہ ابلے ہوئے چاولوں کا ملغوبہ ہوتا اور اس میں پانی ' ہلکا سا شوربا بن جاتا ہے۔ کیا اب یقین فرمائیں گے کہ آشا کماری اور اس کے بچوں نے پوری زندگی صرف اور صرف یہی ابلے چاول کھائے ہیں۔

آج سے سات سال پہلے انیتا کو فٹ بال کھیلنے کا جنون ہو گیا۔ عمر اس وقت صرف نو برس کی تھی۔ بچی نے کسی طریقے سے فٹ بال حاصل کیا ۔ مقامی اسکول میں پیریڈ ختم ہونے کے بعد فٹ بال کھیلنا شروع کر دیتی تھی۔ ایک بنیان اور نیکر پہن کر ننگے پاؤں گھنٹوں فٹ بال کھیلتی رہتی تھی۔

گاؤں والے حیران تھے۔ کہ ایک ننگ دھڑنگ بچی' یہ کیا کر رہی ہے۔ تمام گاؤں والے اس کا ٹھٹھہ اڑاتے تھے۔ کئی لوگ تو گراؤنڈ میں شیشے کی کرچیاں بکھیر دیتے تھے تاکہ وہ کھیلتے ہوئے زخمی ہو جائے۔ مگر انیتا کا فٹ بال کھیلنے کا جنون بڑھتا چلا گیا۔ تھوڑا عرصہ پہلے' فٹ بال کے عالمی ادارے FIFAنے جمشید پور میں انڈر17 بچیوں کے ٹریننگ کیمپ لگانے کا ارادہ کیا۔

ان کے کوچ اب ہر طرف ان لڑکیوں کو تلاش کر رہے تھے جو اچھا فٹ بال کھیلتی ہوں اور پھر محنت کر کے انھیں فیفا کے عالمی فیسٹیول تک رسائی دی جا سکے۔ انیتا کو اس کیمپ کا کچھ بھی پتا نہیں تھا۔ اس کی والدہ چاہتی تھی کہ بس اب اس کی شادی ہو ۔ فیفا کے کسی مقامی اہلکار کو اتفاق سے انیتا کے فٹ بال کھیلنے کے جنون کا علم ہو گیا۔ کسی کو بتائے بغیر انیتا کے گاؤں چلا گیا۔ جب گراؤنڈ میں اس بچی کو کھیلتے ہوئے دیکھا تو ششدر رہ گیا۔

فوری طور پر اپنے ادارے کو اطلاع دی۔ فیفا کا مقامی سربراہ انیتا کے گاؤں گیا ۔ والدہ سے انیتا کو جمشید پور میں بین الاقوامی سطح کے کیمپ میں شمولیت کی درخواست کی۔ آشا دیوی یعنی والدہ حیران رہ گئی۔ خود انیتا کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ مگر جب انھیں پوری صورت حال بتائی گئی تو اعتماد ہو گیا۔ انیتا ' اب جمشید پور کے فٹ بال کیمپ میں مشق کر رہی ہے۔ آنند پرشاد شرما جو کہ اس کیمپ کا ہیڈ کوچ ہے۔

اس کے مطابق انیتا فٹ بال کے میدان میں حد درجہ کامیاب ہو سکتی ہے۔ انیتا اب زندگی میں پہلی بار اچھی غذا کھا رہی ہے۔ فٹ بال کھیلنے کے لیے کمپنیوں نے بہترین جوتے اور فٹ بال بھی عطیہ کیے ہیں۔

اس کی کہانی سن کر متعدد کمپنیاں اسے اپنا برانڈ ایمبسڈر رکھنا چاہتی ہے۔ انیتا پر قسمت مہربان ہو چکی ہے۔والدہ ٹی وی انٹرویو دیتے دیتے رونا شروع کر دیتی ہے اس لیے کہ اسے یقین نہیں ہو پاتا کہ بیٹی کھیل کے ذریعے پوری دنیا میں اتنا بہتر نام کمائے گی۔ گاؤں والے فخر سے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ انیتا ان کی بیٹی کی طرح ہے۔ گراؤنڈ میں شیشہ بچھا کر انیتا کے پاؤں زخمی کرنے والے لوگ' اب اس کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔ اگر انیتا ٹریننگ کیمپ سے نکل کر فیفا کے تحت میچ کھیلنے شروع کر دیتی ہے۔ تو دو چار برس میں ارب پتی ہو جائے گی۔

اس حقیقت کو بتانے کا ایک مقصد ہے۔ انیتا نے بغیر کسی وسائل کے کامیابی کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھا ہے۔ بالکل اسی طرح ہم میں سے ہر انسان شدید محنت کر کے اپنی منزل کو حاصل کر سکتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک' اپنی ریاضت کے سہارے ہر وہ کام کر سکتا ہے جس کی آرزو کرتا ہے۔

ایسے بہت سے کاروباری لوگوں کو جانتا ہوں جنھوںنے سائیکل پر اپنا کاروبار شروع کیا اور آج ارب پتی ہیں لیکن ایسے درجنوں قلاش افراد کو بھی جانتا ہوں جن کے والدین یا بزرگ حد درجہ مؤثر کاروباری افراد تھے۔

بہت زیادہ امیر تھے مگر انھوںنے اپنے والدین کی کمائی ہوئی دولت اللے تللوں میں برباد کر ڈالی اور آج ایک ناکام سی ادھوری زندگی گزار رہے ہیں ۔ انسان کے دل میں لگی ہوئی آگ اور جنون' اسے ترقی کروانے میں سب سے کار آمد عنصر ہے۔

یہ ایک قدرتی اصول بلکہ قانون ہے کہ خدا اسی انسان پر مہربانی ا ور مقدر کے دروازے کھولتا ہے ' جو اس کے لیے شدید محنت کرتا ہے۔ ہاں، وراثت میں آپ کو دولت اور شاید عزت بہت تھوڑے عرصے کے لیے مل تو سکتی ہے مگر نناوے فیصد لوگ اس وراثت کے سہارے بہت زیادہ عرصہ' محنت کیے بغیر اچھی زندگی نہیں گزار سکتے۔ذرا سوچیے۔ پاکستان بنتے وقت ملک کے امیر ترین دس اشخاص کی فہرست ترتیب دیجیے ۔

ان کی آل اولاد کا کھوج لگایئے۔ حیران رہ جائینگے۔کہ ان لوگوں کی اولاد کی اکثریت اتنی آسودہ حال نہیں جتنی ستر برس پہلے ان کے آباؤ اجداد تھے۔ لائل پور میں 1960 میں وہاں ایک کاروباری خاندان حد درجہ امیر تھا۔ ان کے پاس تین ہوائی جہاز تھے۔ آج کے مدینہ ٹاؤن کے نزدیک ہوائی جہازوں کا چھوٹا سا ایئرپورٹ تھا۔صرف چھ دہائیوں بعد' نہ وہ ہوائی جہاز رہے۔

ان کی ٹیکسٹائل مل کچرے کا ڈھیر بن گئی۔ اور آنے والی پیڑھی نے اسے رئیل اسٹیٹ کالونی میں تبدیل کر دیا۔ آج اتنی حددرجہ امیر ترین لوگوں کی آل کو کوئی بھی نہیں جانتا ۔ جس نے بھی اپنے وقت میں' کسی بھی شعبہ میں ہمت کی' قدرت نے اسے خوب نوازا۔اورجس نے ریاضت سے تہی دامنی کا مظاہرہ کیا' فرش سے عرش پر آ گیا۔

عام نوجوان بچے اور بچیوں کی طرف دیکھتا ہوں۔ اکثریت کسی نہ کسی حکومتی امداد کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہے۔ گمان ہے کہ کوئی نہ کوئی سیاسی یا غیر سیاسی نجات دہندہ آئے گا' اور ان کا مقدر سنور جائے گا۔ ایسا ہمارے جیسے ادنیٰ نظام میں نہ کبھی ہوا ہے اور نہ کبھی ہوگا۔ پاکستان کا نظام حددرجہ ظالمانہ ہے یہاں طاقت ور طبقہ یا مقتدر طبقہ صرف اور صرف اپنی اولا د کی بہبود کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔

باقی سب کچھ کھوکھلے نعرے بلکہ مکمل فریب ہے۔ یقین نہ آئے تو مثال دے دیتا ہوں۔ کیا کسی بھی سیاسی اور سیاسی و مذہبی جماعت میں کوئی بھی ایسا معتبر شخص ہے' جسے ان سیاسی گروہوں کی سربراہی سونپی جا سکے۔

نہیں صاحب' اگر سیاسی ورثہ کومنتقل کرنا ہے تو صرف اپنی اولاد میں۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ کوئی بھی حکومت ہو۔ آپ کو روزگار پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کرے گی۔ اگرانیتا کماری صرف چاول کھا کر دنیا کی سب سے طاقت ور کھیل یعنی فٹ بال میں آگے بڑھ سکتی ہے ۔ تو آپ کو کس نے روکا ہے۔ خود آگے بڑھیے ۔ قدرت کے اٹل قوانین آپ کی محنت کو کبھی ضایع نہیں ہونے دینگے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں