آفتاب بینی اور بہترین معمول

سورج کی روشنی،توانائی اور صحت بخش تاثیر،سانس کےساتھ میرے جسم میں داخل ہورہی ہے اور رگ رگ میں خون کے ساتھ گردش کررہی ہے


Shayan Tamseel March 01, 2014

KARACHI: اگرچہ معمول بننے کی استعداد ہر شخص میں موجود ہے لیکن مزاج، ذہنی ساخت اور انداز طبیعت کے لحاظ ہر شخص کی حساسیت کا پیمانہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ سوداوی مزاج رکھنے والے بہت جلد اس صلاحیت کو ترقی دے لیتے ہیں جب کہ بلغمی مزاج والوں میں معمول بننے کی صلاحیتیں نسبتاً کم اور ان کی ترقی کا عمل سست ہوتا ہے۔ ماہ بینی سے معمول بننے کی صلاحیتیں بہت جلد بیدار ہوجاتی ہیں۔ مابعد النفسیات میں تحقیق کا ایک شعبہ ہے جسے Psychokinesis (مخفف P.K) کہتے ہیں، یعنی ارادے کی قوت سے چیزوں کو متحرک کردینا، ایک عامل کا سنا تھا جو کسی چیز مثلاً چھڑی، دوات یا اس قسم کی دوسری چیزوں پر نظر گاڑ کر اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر ہوا میں بلند کرلیتا تھا، ایک اور صاحب میں کمال تھا کہ وہ شیشے کا گلاس توجہ کی قوت سے توڑ دیتے تھے۔ اشیا پر ذہنی قوت استعمال کرنے کا کیا اثر پڑتا ہے، اس کی سائنسی طور پر چھان بین کی گئی ہے اور یہ تحقیق برابر جاری ہی۔ اس سلسلے میں ڈیوک یونیورسٹی کے ڈاکٹر Phine کا کام قابل قدر ہے۔ آسیب زدہ مکانوں میں چیزوں کا خود بخود ادھر ادھر ہوجانا، پتھر برسنا، کپڑوں میں یکایک آگ لگ جانا اور دوسرے مظاہر جنھیں نفسیات دان Poltergeist Phenomenon کہتے ہیں، ان کا تعلق بھی P.K. ہی کے شعبے سے ہے۔

بہت سے لوگوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنی شدید الاحساسی کی بنا پر یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ زمین کے اندر کتنی گہرائی میں پانی یا تیل پایا جاتا ہے۔ دفینہ معلوم کرنے والے بعض لوگ ہاتھوں میں لوہے کے کڑے پہنتے ہیں، بعض گلے میں زنجیر ڈال لیتے ہیں اور بعض کے ہاتھوں میں فولادی چھڑی ہوتی ہے، جب وہ ایسی جگہ سے گزرتے ہیں جہاں زیر زمین پانی کا چشمہ، تیل کا ذخیرہ یا کوئی اور دفینہ ہوتا ہے تو فولادی چھڑی، زنجیر یا آہنی کڑے میں برقی رو سی دوڑ جاتی ہے اور انھیں پتہ چل جاتا ہے کہ یہاں دفینہ موجود ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ ہر شے سے توانائی کی خاص لہریں خارج ہوتی ہیں اور ان لہروں کو معمول کا دماغ پکڑ لیتا ہے۔ بہت سے معمول قسم کے لوگ کسی چیز (کاغذ، رومال، انگوٹھی، سگریٹ کیس، کپڑا، چشمہ وغیرہ) کو ہاتھ میں لے کر اس چیز کے مالک کی پوری سوانح حیات یا کم سے کم اس کی زندگی کے اہم واقعات بتا سکتے ہیں، اس عمل کو نفسیات کی زبان میں Psychometry کہتے ہیں۔ معمول اپنے غیر معمولی تیز حواسوں یا غیر معمولی اثر پذیری Hyperaesthesia کے سبب اشیا سے نکلنے والی لہروں کو وصول کرکے ان کے مطالب کو سمجھ لیتا ہے۔ جاندار اشیا کی طرح بے جان اشیا کے گرد بھی روشنی کا ہالہ ہوتا ہے، اگرچہ وہ روشنی مدھم اور کمزور ہوتی ہے، ہم طبیعات کی زبان میں روشنی کے اس ہالے کو ''الیکٹرومیگنٹ فیلڈ'' (برقاطیسی دائرہ) کہہ سکتے ہیں، یہ ہر شے کے گرد ہوتا ہے۔

آفتاب اس مرکز شمسی کا محور و مرکز ہی نہیں بلکہ وہ ہماری کائنات میں روشنی کے علاوہ حرارت، حرکت، توانائی اور مقناطیسیت کا سرچشمہ بھی ہے۔ دوسرے تمام سیاروں اور ستاروں میں زندگی، توانائی کشش اور روشنی کے جتنے مظہر پائے جاتے ہیں یا جمادات، معدنیات، نباتات اور حیوانات میں (بشمول انسان) حیات و شعور کی جتنی کارفرمائیاں ہیں ان سب کا منبع، مرکز اور محرک صرف سورج ہے۔ ہماری کائنات اسی کے گرد رقص کرتی ہے اور اس سے ہر قسم کا فیضان حاصل کرتی ہے۔

کردار سازی و تعمیر و تنظیم شخصیت کی مشقوں میں سب سے زیادہ مشکل مشق سورج کو پلک جھپکائے بغیر ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے کی ہے۔ میں عام طور پر اس مشق کی ہدایت نہیں کیا کرتا کیونکہ ذرا سی بے احتیاطی سے دماغ اور بصارت کو شدید نقصان پہنچ جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ یہ مشق آنکھوں میں چمک، روشن ضمیری اور شخصیت میں مقناطیسیت پیدا کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ... طلوع آفتاب سے چند منٹ قبل مشرق کی طرف منہ کرکے سیدھے کھڑے ہوجائیے۔ کمر، گردن اور پشت ایک سیدھ میں ہو۔ جسم میں ٹیڑھا پن ہو نہ تناؤ کی کیفیت۔ پورا جسم آرام دہ پوزیشن میں ہو لیکن ڈھیلا پن طاری نہ ہو۔ اس آرام دہ حالت میں پورب کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوجائیں اور ہونٹ بند کرکے ناک کے سوراخوں سے آہستہ آہستہ ناف سے سانس کھینچ کر سینے کی طرف لائیں اور سینے میں روک لیں۔ جب تک آسانی کے ساتھ سانس کو سینے میں روک سکیں، روکے رہیں۔ جب سینے میں سانس کا رکنا مشکل ہوجائے، دم گھٹنے اور جی گھبرانے لگے تو جس قدر آہستگی کے ساتھ سانس کھینچا تھا، اس سے زیادہ آہستگی کے ساتھ رک رک کر ٹھہر ٹھہر کر ناک کے سوراخوں سے خارج کردیں۔ یہ ہوا سانس کا ایک چکر۔ سانس کا ایک چکر کرنے کے بعد کچھ دیر دم لیں، اس کے بعد دوسرا چکر کریں، پھر وقفہ لے کر تیسرا چکر۔ ابتدا میں تین چکر کافی ہیں۔ سانس کھینچتے، سینے میں روکتے اور ناک کے سوراخوں سے خارج کرتے وقت حسب ذیل فقرہ دل ہی دل میں دہراتے رہیں۔

''سورج کی روشنی، توانائی اور صحت بخش تاثیر، سانس کے ساتھ میرے جسم میں داخل ہورہی ہے اور رگ رگ میں خون کے ساتھ گردش کررہی ہے۔''

سانس کے تین چکر کرنے کے بعد مشرق کے اس نقطے پر نظریں جمادیں جہاں سے سورج نکل رہا ہے۔ تصور یہ ہو کہ نکلنے والے سورج کی توانائی، طاقت، روشنی اور حرارت آپ کے اندر جذب ہورہی ہے۔ مشق شروع کرتے ہی طرح طرح کے خیالات ذہن پر ہلہ بول دیں گے، سورج کا تصور بار بار ٹوٹ جائے گا، ٹوٹ جانے دیں اور ازسر نو نکلتے ہوئے سورج کا تصور قائم کرلیں۔ شروع شروع میں آپ کو زبردست الجھن پیش آئے گی، یہاں تک کہ آپ بری طرح اکتا جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ہجوم خیالات سے اکتا کر استغراق کی مشقیں ترک کردیتے ہیں۔ استغراق کی مشقوں میں ذہن کو یہ تربیت دینی پڑتی ہے کہ وہ صرف ایک نقطے یعنی ایک تصور سے وابستہ ہوجائے، مثلاً اگر پورب کے ایک نقطے (جدھر سے سورج نکل رہا ہے) پر آپ کی نظریں مرکوز ہیں، اور یہ تصور قائم کیا گیا ہے کہ سورج کی توانائی اور مقناطیسیت آپ کے جسم میں داخل ہورہی ہے تو اسی ایک نقطے پر نظریں مرکوز رہیں اور وہی ایک تصور قائم رہے۔ پھر عرض کردوں کہ ایک نقطے اور ایک مرکزی خیال پر توجہ کا ارتکاز یعنی ذہن کی تمام قوتوں کا سمٹ آنا، آسان کام نہیں بہت مشکل کام ہے تاہم ناممکن نہیں ہے۔ ہم ارادے کی قوت سے آخر ذہن کو اسی طرح مسخر و مطیع کرسکتے ہیں جس طرح ورزش کے ذریعے جسمانی اعضا کو توڑ مروڑ کر انھیں ضرورت کے مطابق بنا لیا جاتا ہے۔ جسم کی طرح نفس بھی ہمارے ارادے کا محکوم ہے۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ ارادے کی قوت بہت آہستہ آہستہ بروئے کار آتی ہے، اور یہی مرحلہ بے حد سخت ہوتا ہے۔ آفتاب بینی کی مشق اگر کسی استاد کی رہنمائی میں باضابطگی کے ساتھ کی جائے تو عامل کو ''معجز نما'' بنا دیتی ہے۔ لیکن ہمارا مشورہ یہی ہے کہ ابتدائی بتائی گئی تمام مشقوں میں کامل ہونے کے بعد ہی آفتاب بینی کی مشق شروع کی جائے۔
(نوٹ: گزشتہ کالم دیکھنے کے لیے وزٹ کریں

www.facebook.com/shayan.tamseel)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں