خود مختار خارجہ پالیسی کا بیانیہ
یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارا مسئلہ محض حکومتوں کی سیاسی شخصیات کی تبدیلی سے نہیں جڑا ہوا
RAWALPINDI:
ایک بنیادی نوعیت کا سوال ہماری خود مختار اور آزادانہ خارجہ پالیسی کا ہے ۔ اس اہم مسئلہ پر ہمیں علمی یا سیاسی محاذ پر جذباتیت کا پہلو زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔
اہل سیاست کا ایک بڑا طبقہ آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی کو بنیاد بنا کر جذباتی سیاست میں بھی پیش پیش ہوتا ہے جب کہ دنیا میں آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی سے جڑے سوالات اتنے آسان نہیں جتنا یہاں سیاسی فریقین سمجھتے ہیں۔
بالخصوص پاکستان جیسے ملک میں جہاں اس کے داخلی مسائل کی سنگینی بھی موجود ہے۔آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی کا ایک بنیادی نقطہ معیشت کی مضبوطی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس پاکستان کا معاشی مقدمہ کمزور بھی ہے اورہماری بقا کا انحصار بھی عالمی معیشت سے جڑے امور سے ہے ۔ اگر ہمیں عالمی معیشت کی حمایت حاصل نہ ہو تو ہم اور زیادہ معاشی بدحالی کا شکار ہوسکتے ہیں ۔
آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک سیاسی تنہائی میں اپنی خارجہ پالیسی کو ترتیب نہیں دے سکتا۔ عمومی طور پر تین سطحوں پر پالیسی کی ترتیب کی جاتی ہے۔ اول داخلی ، دوئم علاقائی اور سوئم عالمی سیاست سے جڑے معاملات ہوتے ہیں۔ ایک عام سی مضبوط دلیل یہ ہی ہے کہ اگر آپ کی داخلی پالیسیوں میں جان ہے تو آپ علاقائی اور عالمی سطح پر اپنی پالیسیوں کی مدد سے اپنے لیے اپنی خواہشات کی بنیاد پر راستہ نکال سکتے ہیں ۔
آپ اگر داخلی سطح پر سیاسی اورمعاشی طو رپر کمزور ہوں تو اس کا ایک بڑا نتیجہ خود انحصاری کے بجائے دوسروں پر انحصار کرکے آگے بڑھنے سے ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں آپ کی خواہشات کی اہمیت کم اور عالمی خواہشات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اورآپ کے پاس اس کی قبولیت جسے عام طور پر ڈکٹیشن کہتے ہیں ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔
ایک بڑ ا سیاسی تضاد یہ ہے کہ یہاں اہل سیاست اور اہل دانش کی سطح پر جذباتیت کی بنیاد پر آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی پر تو بڑی پرجوشیت پائی جاتی ہے۔اسی بنیاد پر سیاست کو جذباتی پہلوؤں کے ساتھ بھی جوڑا جاتا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم داخلی مسائل کے حل میں سنجیدہ نہیں جن میں گورننس ، حکمرانی سے جڑے معاملات، ادارہ جاتی استحکام ، معاشی ترقی ، غربت اور سماجی و معاشی ناہمواریوں کی جنگ ، انصاف کا جدید نظام اور عام آدمی کے بنیادی حقوق کی ضمانت جیسے معاملات پر غیر سنجیدگی پر مبنی رویہ کو اختیار کرکے خارجہ پالیسی کے محاذ پر سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔
آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی میں سب سے پہلے ہمیں علاقائی اور عالمی سطح کے معاملات سے جڑے تضادات پر مبنی سیاست کے مسائل کو ہی سمجھنا ہوگا۔ کیونکہ خود مختار خارجہ پالیسی کی بنیاد علاقائی اور عالمی ممالک سے جڑے آپ کے باہمی تضادات اور ٹکراؤ کی پالیسی ہوتی ہے ۔ ہم اسی تضاد اور ٹکراؤ کے خاتمہ کے بعد ہی اپنے لیے علاقائی اور خارجی محاذ پر دو طرفہ سیاسی ، سماجی ، انتظامی اور معاشی امکانات کو پیدا کرکے خود کو دنیا میں قابل قبول بناتے ہیں۔
یہ جو آج کی دنیا کا گلوبل ایجنڈا ہے اس پر ہمیں کچھ پہلوؤں پر اعتراض ہوسکتا ہے مگر حقیقت یہ ہی ہے کہ اسی گلوبل ایجنڈے کے دائرے کار میں رہتے ہوئے ہی ہمیں اپنے لیے آگے بڑھنے کے مواقعے کو تلاش کرنا ہوتا ہے اور یہ ہی سوچ ہمیں دنیا کے دیگر ممالک میں قبولیت بھی دیتی ہے ۔اسی طرح خارجہ پالیسی جس میں اب علاقائی سیاست کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں یہ جامد نہیں ہوسکتی ۔ اس پالیسی نے حالات و واقعات کی بنیاد پر تبدیل بھی ہونا ہوتا ہے۔
پچھلے کچھ ماہ قبل ملک میں نیشنل سیکیورٹی پالیسی کی بنیاد پر خارجہ پالیسی کی ایک نئی بحث شروع ہوئی تھی ۔ یہ ایک جامع دستاویز ہے جس میں ہم نے دیکھا کہ پہلی بار اس پالیسی میں داخلی اور علاقائی و خارجہ پالیسی کا باہمی تعلق سمجھنے کو ملتا ہے ۔
اس پالیسی کا بنیادی نقطہ جیو اسٹرٹیجک سے جیو معیشت کی پالیسی، خود کو داخلی ، علاقائی اور خارجی سطح کے تضادات پر مبنی پالیسی اختیار کرنے سے گریز، ہمسائے ممالک بشمول بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کی خواہش سمیت ملک کے داخلی معاملات میں خود کو مضبوط بنانا جس میں عام انسان کی ترقی کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے لیکن اس کام کے لیے ہمیں ایک مضبوط ریاستی و حکومتی نظام درکار ہے ۔
یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارا مسئلہ محض حکومتوں کی سیاسی شخصیات کی تبدیلی سے نہیں جڑا ہوا بلکہ یہ ایک سیاسی ، انتظامی، قانونی اور معاشی ڈھانچوں کی ناکامی سے جڑے مسائل ہیں ۔
آج کی علاقائی اور عالمی سطح پر جو نئی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں یا نئے بلاکس بن رہے ہیں یا نئے سیاسی اور معاشی امکانات پیدا ہورہے ہیں ان سے فائدہ اسی صورت میں اٹھایا جاسکتا ہے جب ہمیں خود معلوم ہو کہ ہم کیا چاہتے ہیں اور ہم جو چاہتے ہیں اس کے حصول کے لیے کیا حکمت عملی ہمیں درکار ہے ۔ ہمارے فیصلے غیر معمولی ہونے چاہیے اور اس کی بنیاد ملکی سیاسی اور معاشی سطح کے استحکام کے ساتھ جڑی ہونا چاہیے ۔