پاک فوج کو غیر سیاسی ہی رہنے دیں

عوامی فورمز سوشل میڈیا سمیت مختلف پلیٹ فارمز پر غیر مصدقہ ہتک آمیز بیانات اور مواد سامنے آیا ہے


[email protected]

پاک فوج کے ترجمان آئی ایس پی آر نے ایک مرتبہ پھر وارننگ دی ہے کہ سیاستدان اور صحافی فوج کو اپنی سیاسی گفتگو سے دور رکھیں۔ آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ افواج اور اس کی قیادت کو سیاست میں ملوث کرنے کی دانستہ کوششیں ہوئیں۔

عوامی فورمز سوشل میڈیا سمیت مختلف پلیٹ فارمز پر غیر مصدقہ ہتک آمیز بیانات اور مواد سامنے آیا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ انھیں سب سے توقع ہے کہ قانون کی پاسداری کریں گے اور مسلح افواج کو ملک کے بہترین مفاد کے لیے سیاست میں نہیں گھسیٹیں گے۔

ترجمان نے کہا ہے کہ مسلح افواج اور اس کی اعلیٰ لیڈر شپ کے بارے میں باتیں کی جا رہی ہیں ۔ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اس لیے غیر ذمے دارانہ بیانات سے اجتناب کیا جائے۔ اور پاک فوج کو سیاسی گفتگو اور سیاست سے دور کھا جائے۔ اس سے پہلے ایک پریس کانفرنس میں نیوٹرل کے جواب میں پاک فوج کے ترجمان واضح کر چکے ہیں کہ پاک فوج نیوٹرل نہیں بلکہ مکمل طور پر غیر سیاسی ہے۔ اس کا پاکستان کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ادھر عمران خان اپنے عوامی جلسوںاور اپنے انٹرویوز میں جو باتیں اور اشعارے استعمال کر رہے ہیں۔ان کا ہدف بھی سب کو معلوم ہے۔ وہ اپنے اقتدار کے جانے کا ذمے دار ایک طرف امریکا اور دوسری طرف پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کو ٹھہرا رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ ان کی بی ٹیم بھی ایک ماحول بنا رہی ہے کہ ان کی حکومت کے اسٹبلشمنٹ سے تعلقات خراب ہو گئے تھے' اس لیے ان کی حکومت گئی ہے۔ اس لیے یہ بات غلط نہیں ہے کہ عمران خان کی حکومت جانے کے بعد ایک منظم ٹارگٹڈ مہم چلائی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنائے گئے ہیں۔

عمران خان اور ان کی ٹیم کو گلہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کے اقتدار کو بچایا نہیں ہے۔ عمران خان کو یہ گلہ نہیں ہے کہ ان کے اتحادی مسلم لیگ ن' پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے ساتھ کیوں چلے گئے۔ بلکہ گلہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے انھیں اپوزیشن کے ساتھ جانے سے روکا کیوں نہیں ہے۔ غصہ یہ ہے کہ ان کے گرتے اقتدار کو بچانے میں مدد کیوں نہیں کی گئی۔ اپوزیشن کو دبانے میں مدد نہیں کی گئی ہے۔

دوست یہ دلیل بھی دے رہے ہیں کہ ماضی میں کل کی اپوزیشن جو آج کل حکومت بن چکی ہے مقتدر حلقوں پر تنقید کرتی رہی ہے۔ اگر تب وہ تنقیدجائز تھی تو آج یہ تنقید جائز کیوں نہیں ہے۔ یہ تقابلی جائزہ درست نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی سیاسی لیڈر ہو' اسے اپنی ناکامیوں کا ذمے دار اداروں کو قرار دینے کا حق نہیں ہے' سیاستدانوں کی اپنی کمزوریاں ہی ان کے اقتدار سے فارغ ہونے کا باعث بنتی ہیں۔

پاک فوج نے ملک میں جمہوری عمل کی ہمیشہ غیر مشروط حمایت کی ہے۔ جب نواز شریف کے پاناما کا معاملہ ہوا تب بھی افواج نے جمہوری عمل اور آئین کا ہی ساتھ دیا۔ اس موقعے کو کسی بھی قسم کے غیر جمہوری اور غیر آئینی عمل کے لیے استعمال نہیں کیا۔ حالانکہ اس وقت ایسا ماحول بن گیا تھا کہ جمہوری نظام کی بساط لپیٹی جا سکتی تھی ، لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ اس بحران کا بھی جمہوری عمل کے اندر سے ہی حل نکالنے کو ترجیح دی۔

اس بار بھی تحریک عدم اعتمادکے موقعے پر عمران خان نے اپنے غیر آئینی اقدامات سے ملک میں جمہوری نظام کو لپیٹنے کی کھلی دعوت دی۔ ان کی بھر پور کوشش تھی کہ وہ جاتے جاتے ملک کے جمہوری نظام کی بساط لپیٹ دیں۔ جب حکومت ہی آئین سے انحراف شروع کر دے تو ملک میں آئین کی حکمرانی قائم رکھنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ ایسی صورتحال کھلی دعوت ہوتی ہے کہ آجائیں۔ لیکن جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایسی تمام آپشنز کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ جمہوری عمل کو قائم رکھنے کے لیے پاک فوج کے عزم کا بار بار اعادہ کیا۔

موجودہ صورتحال میں وی لاگرز نے بھی بہت منفی کردار ادا کیا ہے۔ اوسط درجے کی ذہانت رکھنے والے یہ خود ساختہ صحافی اور اینکرز نیوز اور ویوز کے درمیان فرق کو نہیں سمجھتے اور غیر ذمے دار گفتگو کرتے ہیں۔

وی لاگرز کا جو دل چاہتا ہے کہ وہ کہتے ہیں۔ آزادی اظہار اپنی جگہ لیکن مادر پدر آزادی نہیں ہو سکتی ۔ چند سوشل میڈیا ایکٹویٹس نے موجودہ صورتحال میں پاک فوج اور پاک فوج کے سپہ سالار کے خلاف بہت ہی منفی مہم چلائی ہے۔ کسی سیاسی لیڈر سے محبت اپنی جگہ لیکن اس محبت میں الیکشن میں ووٹ ڈالا کریں نہ کہ پاک فوج کے خلاف مہم جوئی شروع کر دی جائے۔

پاکستان کی موجودہ صورتحال میں اس وقت سیاسی درجہ حرارت بہت گرم ہے۔ لیکن اس گرم درجہ حرارت میں پاک فوج اور قومی سلامتی کے اداروں کو درمیان میں لانا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے اپنی پالیسی کو بدلیں۔ اسی میں ملک قوم اور ان کا مفاد ہے۔ اقتدار آتا ہے تو اسے جانا بھی ہے۔ لیکن اقتدار کی خاطر ملک کے اداروں کا نقصان درست نہیں ہے۔ انھیں اپنے حامیوں کو بھی روکنا ہوگا۔ کیونکہ آپ رانگ نمبر ڈائل کر رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں