عمران خان کی سیاست ختم نہیں ہوگی

آپ لاکھ انھیں سمجھا ئیں کہ تحریک انصاف اب کبھی اقتدار میں نہیں آئے گی لیکن وہ نہیں مانیں گے


[email protected]

BERLIN: عمران خان اب کبھی اقتدار میں نہیں آسکے گا، یہ جن کے ذریعے اقتدار میں آیا ہے، اُن سے بگاڑ بیٹھا ہے، یہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کو بھی ناراض کر بیٹھا ہے، عوام بھی جو اس کو پسند کرتے تھے وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہے ہیں، 2028کے الیکشن تک عمران خان کا کوئی چانس نہیں۔ یہ وہ جملے ہیں جو گزشتہ ایک ماہ سے عمران خان کے مخالفین کہہ رہے ہیں۔

آپ عمران خان کی اور اُن کی ٹیم کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی سے لاکھ اختلافات کریں مگر ایک بات تو طے ہے کہ عمران خان کا ووٹر اُس کے ساتھ کھڑا ہے۔ آپ لاکھ انھیں سمجھا ئیں کہ تحریک انصاف اب کبھی اقتدار میں نہیں آئے گی۔ لیکن وہ نہیں مانیں گے، اُن کا اوڑھنا بچھونا پی ٹی آئی ہے۔ اس کی مثال عمران خان کے حالیہ جلسے ہیں،ہر جلسہ عوام سے بھرا ہوا نظر آئے گا۔ اور وہاں موجود کسی بھی شخص سے بات کر کے دیکھ لیں ہر بندہ آپ کو جذبات سے بھرپور تقریر کرتا نظر آئے گا کہ وہ کیوں عمران خان کے ساتھ ہے؟

یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہمارے مذہبی و سیاسی لیڈر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اپنے پیروکاروں یا اپنے ورکروں کو جب بھی کہیں بلاتے ہیں تو اُلٹے پاؤں دوڑتے چلے آتے ہیں، قادری صاحب خود فرماتے ہیں کہ ''میں نے جدوجہد سے پوری ایک لڑی تیار کی ہے جو میرے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے'' اسی لیے سب نے دیکھا کہ موصوف جب بھی اپنے معتقدین کو دھرنوں یا جلسوں میں بلاتے تھے تو ایک مخصوص طبقہ اُن کے پیچھے تھا۔

عمران خان کی جدوجہد شاید کسی کو نظر نہ آرہی ہو لیکن انھوں نے اپنی محنت سے اپنی حامی جو نسل تیار کر لی ہے، وہ ہمیشہ اُن کے ساتھ رہے گی۔ خان صاحب کے دور اقتدار میں ہم نے اُن کی بہت سی غلطیوں کی بھی نشاندہی کی، جسے خان صاحب نے ''یوٹرن'' کے ذریعے خود بھی تسلیم کیا لیکن اُن کے فالوورز نے اُس پر تحریک انصاف کا دفاع کیا ، بلکہ میری کئی ایک پی ٹی آئی ووٹرز سے بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ فی الوقت خان صاحب پر کافی دباؤ ہے۔

مافیاز انھیں جینے نہیں دے رہے، اکیلا خان ہی ان سے نمٹنے کے لیے کافی ہے ۔ گزشتہ ماہ جب عمران خان کا اقتدار ختم ہوا تو ساؤتھ ایشیا جیسے بڑے میگزین نے سرورق پر عمران خان کی تصویر کے ساتھ لکھا کہ ''سورج طلوع ہونے کے لیے ڈوبا ہے۔'' ساؤتھ ایشیا میگزین کے علاوہ ایک امریکا دانشور کے تبصرے نے بڑی شہرت پائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں امریکا نے پاکستان میں حکومت تبدیل کر کے بائیس کروڑ پاکستانیوں کو اپنا مخالف بنا لیا ہے۔

ان دنوں مغربی میڈیا کی ایک خوبصورت اور مقبول اینکر کا ٹیلی ویژن پر کیا گیا مختصر تبصرہ بڑی مقبولیت حاصل کر رہا ہے، جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ آج مغربی میڈیا کے لیے عمران خان کی کوریج کیوں ضروری ہے؟مغربی ذرایع ابلاغ کے لیے عمران خاں کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے، اگر آپ غور سے اس بات کا جائزہ لیں تو یہ شخص عرصہ دراز سے رائے عامہ کے دس بڑے رہنماؤں میں شامل ہے، یہ امن پسند مسلمان رہنما ہے، جو پاکستان کو جمہوریت کی طرف لے جا رہا ہے، دنیا بھر کی کل آبادی میں اٹھائیس (28) فیصد مسلمان اور تقریباً تیس(30) فیصد عیسائی رہتے ہیں ،عمران خاں دنیا بھر کے دو ارب مسلمانوں کے سب سے بڑے رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

دوست کالم نگار میاں حبیب لکھتے ہیں کہ ''عمران خان نے ووٹروں کی ایک نئی کلاس پیدا کی جس کو روایتی سیاستدانوں نے کبھی ٹچ ہی نہیں کیا تھا۔عمران خان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ یہ نئے ووٹروں کی کلاس سوجھ بوجھ بھی رکھتی ہے اور اپنی بات کہنے کی ہمت اور سلیقہ بھی رکھتی ہے۔ جن کو دلیل کے ساتھ تو توڑا جا سکتا ہے لیکن طاقت یا زور زبردستی سے ان کے خیالات تبدیل نہیں کیے جاسکتے۔ دوسرے لفظوں میں ساری سیاسی جماعتیں آؤٹ ڈیٹیڈ سیاست کر رہی ہیں جب کہ عمران خان کی سیاست دور حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ ''

آپ خان صاحب سے لاکھ اختلاف کر لیں لیکن یہ بات سچ ہے کہ آج کے سیاسی نظام میں نوجوانوں کو سیاست میں متحرک کرنے میں اہم ترین کردار عمران خان کا ہی ہے۔ اکثر لوگ اس کو ان کے کرکٹ کیریئر سے جوڑتے ہیں، جب کہ اگر غور کریں تو پی ٹی آئی کا نوجوان ووٹر اور سپورٹر عمران خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہی پیدا یا بڑا ہوا ہے۔

اس لیے یہ ''لڑی'' عمران خان کے ساتھ رہے گی اور پھر یہ بات کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ عمران خان کی سیاست ختم ہوگئی! کیوں کہ اگر نوجوان پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں تو یہ عمران خان کی کامیاب حکمت عملی ہے۔ اس حکمت عملی کا آغاز شوکت خانم اسپتال کی تعمیر کے ساتھ ہوا جب انھوں نے عمران ٹائیگر کا استعارہ متعارف کرایا۔ اس کے بعد یہی نوجوان ان کے ساتھ 1995 میں بھی آیا مگر خاطر خواہ نتائج نہ مل سکے۔

عمران خان کا سیاسی ستارہ عروج کی طرف دوبارہ جب 2011 میں عازم سفر ہوا تو اس سفر میں بھی کارواں نوجوانوں کا ہی تھا۔ یہ نوجوان 15سال پہلے والا نوجوان نہیں تھا بلکہ انٹرنیٹ کے عہد اور اسمارٹ فون سے لیس تھا۔ اس پوری نوجوان نسل کو سیاست میں رول ملا اور اس رول کی وجہ سے ہماری سیاست میں ایک نئی جان پیدا ہوئی۔

دوسری جماعتوں کو بھی اس کے جواب میں کوشش کرنا پڑی اور سیاست کا رخ ایک شہری اور پڑھے لکھے طبقے طرف ہو گیا۔ مگر اس میں بھی پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری ہی نظر آتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے علاوہ دوسری پارٹیوں کو اس کوشش میں اتنی کامیابی کیوں حاصل نہیں ہو سکی؟بلاول بھٹو زرداری 33 برس کے لگ بھگ ہونے کے باوجود نوجوانوں کے ساتھ اس طرح منسلک نہیں ہو سکے جس طرح 70 برس کے عمران خان ہیں۔

ان نوجوانوں کا سیاست میں کردار ہماری جمہوریت اور نظام کے لیے بے حد ضروری ہے۔یہ بھی خدشہ ہے کہ موجودہ سیاسی تنازعات نوجوانوں کو سیاست سے متنفر نہ کر دیں۔ تمام پارٹیوں کو چاہیے کہ اپنے اندر نوجوانوں کو آگے لائیں۔ کابینہ میں نوجوانوں خصوصاً خواتین کو موقع دینا چاہیے، اگر نوجوان سیاست سے مایوس ہو گئے تو خدشہ ہے اس کا جمہوریت اور سیاسی نظام کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا! جس کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔