معاشی اور سیاسی عدم استحکام

حالات نارمل ہونے کے بجائے مزید کشیدگی اور گرما گرمی کا شکار ہو رہے ہیں


Editorial May 12, 2022
ملکی معیشت اور سیاست دونوں اس وقت زوال پذیر ہیں۔ (فوٹو : فائل)

پاکستان میں اقتدار کے اسٹیک ہولڈرز کے مابین مفادات کا ٹکراؤ مسلسل جاری ہے۔ عمران خان اب سابق وزیراعظم بن چکے ہیں، نئی حکومت اقتدار میں آچکی ہے جس کے وزیراعظم میاں شہباز شریف ہیں۔

اس تبدیلی کے بعد امید تھی کے حالات میں تبدیلی آئے گی اور معاملات بہتری کی جانب جائیں گے لیکن اس وقت حالات نارمل ہونے کے بجائے مزید کشیدگی اور گرما گرمی کا شکار ہو رہے ہیں۔

معیشت اور سیاست دونوں زوال پذیر ہیں۔ سیاست میں بدتمیزی، زبان درازی اور اداروں کو متنازعہ بنانے کے لیے بیان بازی کی نئی تاریخ رقم ہورہی ہے اور المیہ یہ کہ سیاسی قیادت اس پر ندامت بھی محسوس نہیں کر رہی۔ سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنی قیادت کے طرز کلام کو آئیڈیلائز کر رہے ہیں اور مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے ماردھاڑ سے لے کر بدکلامی تک ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں اور ایسا کرنا ان کے نزدیک جائز ہے، حتیٰ کہ متبرک اور مقدس ترین مقامات کی حرمت کا بھی خیال نہیں کیا گیا، مدینہ پاک میں مسجد نبوی میں کچھ ہوا۔

اس نے مسلم دنیا میں پاکستانیوں کا سرشرم سے جھکا دیا ہے، پاکستان کی سیاست اور معاشرت نے ایسے زہریلے اور بدترین رویے ماضی میں کبھی نہیں دیکھے، ملک میں گروہی اور ذاتی مفادات کو اہمیت دی جا رہی ہے۔

اب شہباز شریف کی حکومت ہے، وہ معاشی مسائل کی ذمے داری سابق حکومت پر ڈال رہے ہیں جب کہ عمران خان ان کی حکومت کو گرانے کے مشن کو لے کر احتجاجی مہم پر ہیں' ادھر آئینی الجھنیں حکومت کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں' پنجاب میں گورنر کی تعیناتی تاحال نہیں ہوسکی۔

ایوان صدر اور وفاقی حکومت کے درمیان تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اگلے روز سابق وزیراعظم عمران خان کا ان کی حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے غیر ملکی سازش سے متعلق خط وزیراعظم شہباز شریف اور چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال کو ارسال کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحقیقات کے لیے بااختیار عدالتی کمیشن قائم کیا جائے۔

منگل کو ایوانِ صدر کے پریس ونگ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق صدر عارف علوی نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خط کے ساتھ اپنا تحریری جواب بھی دے دیا ہے جس میں صدر مملکت نے حکومت میں تبدیلی لانے کے لیے مبینہ سازش کی تحقیقات پر زور دیا ہے۔ جوابی خط میں صدر مملکت نے کہا ہے کہ عمران خان کی سابق حکومت کی تبدیلی کی مبینہ سازش کی مکمل تحقیقات کرنے، عوام کو وضاحت دینے، معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے حالات پر مبنی شواہد ریکارڈ کرنے کی ضرورت ہے۔

ادھر وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ نے گورنر پنجاب کی برطرفی کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔ اگلے روز وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ گورنر پنجاب کے ایشو کو قومی اسمبلی میں زیر بحث لایا جائے گا اور اس پر قرارداد بھی منظور کی جائے گی، کسی کو آئینی حدود سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

وفاقی وزراء مریم اورنگزیب، اعظم نذیر تارڑ اور خرم دستگیر نے کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت نے وزیر اعظم کی ایڈوائس مسترد کرکے آئین شکنی کا ارتکاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ وزیراعظم سمیت (ن) لیگ کا پارٹی وفد نجی دورے پر نواز شریف سے ملاقات کرنے کے لیے لندن گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں مشاورت کا عمل جاری رہتا ہے جب کہ پی ٹی آئی میں مشاورت نہیں ہوتی، وہاں ایک شخص کی ضد، تکبر اور فیصلہ سازی کے ذریعے معاملات چلائے جاتے ہیں۔ عمران خان کی کارکردگی کا صفحہ خالی ہے۔

شہبازشریف بہت جلد قوم سے خطاب کریں گے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کچھ آئینی عہدیداروں کی جانب سے آئین کی خلاف ورزی کی گئی ہیں، صدر مملکت کی آئین شکنی پر کابینہ نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا، اس آئین شکنی کے حوالے سے مختلف اقدامات اٹھانے پر مشاورت جاری ہے، گورنر پنجاب کے حوالے سے قومی اسمبلی میں بحث ہوگی اور اس پر قرارداد بھی منظور کی جائیگی۔ صدر نے وزیراعظم کی ایڈوائس مسترد کر کے آئین شکنی کی۔

پچھلے چھ ہفتے سے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے اور ملک میں آئینی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وفاقی کابینہ نے واضح کیا ہے کہ کسی قسم کی مداخلت یا اختیارات کا جھکاؤ قبول نہیں کیا جائے گا اور کوئی آئینی عہدیدار اپنی حدود سے تجاوز نہ کرے، ملک کو کسی آئینی بحران کی طرف دانستہ دھکیلنے کی کوشش نہ کی جائے۔ تیرہ جماعتی حکومتی اتحاد قومی اسمبلی اجلاس کا کورم پورا نہ کرسکا۔ جی ڈی اے نے اپوزیشن لیڈر کی تقرری تک واک آوٹ کردیا۔

پارلیمانی جمہوری نظام میں سیاسی اختلافات آئین ، قانون اور معاشرتی اقدار کے اندر رہ کر ہوتے ہیں،سیاسی قیادت ایک دوسرے سے اختلاف کرتی ہے اور اس میں کوئی بری بات نہیں ہے لیکن سیاسی قیادت ذاتی یا گروہی مفادات کے لیے اختلاف نہیں کرتی بلکہ ایک دوسرے کی غلط پالیسی کی نشاندہی کے لیے ایسا کیا جاتا ہے تاکہ جہاں غلطی ہے۔

اسے درست کرلیا جائے ۔ جب سیاسی اختلافات منتخب جمہوری اداروں کی حدود سے نکل کر سڑکوں اور بازاروں میں آجائیں، سیاسی حریف کو دشمن، ملک دشمن اور غدار کہہ کر مخاطب کیا جائے، زہریلے، نفرت اور اشتعال انگیز نعروں اور بیانئے کی حوصلہ افزائی کرکے کارکنوں کے جذبات سے کھیلا جائے اور انھیں اشتعال دلا کر اداروں اور مخالفین کے خلاف پراپیگنڈے اور جلاؤ گھیراؤ کے لیے اکسایا جائے تاکہ ملک میں انارکی اور عدم استحکام پیدا ہوجائے تو یہ صورتحال جمہوری نظام کی بقا و استحکام کے لیے ہی نہیں بلکہ ریاست کی سالمیت کے لیے بھی خطرناک ہوجاتی اور اسے کسی طور بھی حب الوطنی نہیں کہا جاسکتا ہے ۔

ملک کے آئینی اداروں کا وقار اور عظمت محترم رہنا چاہیے،اس لیے آئینی اداروں کے سربراہوں کو اپنی آئینی ذمے داری پورے وقار اور شاندار انداز میں کرنی چاہیے کیونکہ ریاست کے مفادات کا تحفظ کرنا اور آئین کو سربلند رکھنا ہی ان کا فرض منصبی ہے۔

پاکستان ایک مشکل معاشی بحران میں پھنسا ہوا ہے،ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو سب سے پہلے ریاست کو معاشی استحکام دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔اس حوالے سے جنوبی ایشیا کے ہی ایک ملک سری لنکا کا انجام ہمارے پالیسی سازوں کے سامنے رہنا چاہیے۔ اگلے روز سری لنکا میں پرتشدد احتجاج کے دوران 7 افراد مارے گئے ہیں اور 200 سے زائد زخمی ہوگئے۔

اطلاعات کے مطابق سری لنکن حکومت نے فوج اور پولیس کو بغیر وارنٹ کے شہریوں کی گرفتاری کے لیے ہنگامی اختیارات دے دیے ہیں۔عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق سری لنکا میں تاریخ کا بدترین معاشی بحران پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔ملک دیوالیہ ہوچکا ہے۔معاشی بدحالی ، مہنگائی، اشیاء ضروریہ کی ناپیدگی اور بے روزگاری کی وجہ سے حکومت کے خلاف شہریوں کے غصے میں شدت آگئی ہے ۔سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں کرفیو نافذ ہے۔

اگلے روز مشتعل احتجاجی عوام نے کرفیو کی پابندی کو توڑتے ہوئے حکومتی شخصیات، حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین اور صوبائی سیاست دانوں کے گھروں ،دکانوں اور کاروبار کو نذر آتش کردیا ۔یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے ، سری لنکا میں صبح 7 بجے سے کرفیو نافذ ہوجاتا ہے۔ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور پرتشدد مظاہروں کو کنٹرول کرنے کے لیے صدر گوتبیا راجا پکسے نے فوج اور پولیس کو وسیع اختیارات دے رکھے ہیں۔

جن کے تحت وہ وارنٹ کے بغیر لوگوں کو گرفتار اور پوچھ گچھ کر سکتے ہیں۔ سری لنکا کی حکومت کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق فوج گرفتار شہریوں کو پولیس کے حوالے کرنے سے پہلے 24 گھنٹے تک حراست میں رکھ سکتی ہے، سری لنکا کی اپوزیشن جماعتوں اور سول سوسائٹی نے ہنگامی اقدامات کے غلط استعمال کے امکانات پر تشویش کا اظہار کیا۔

ادھر حکومت مخالف ہزاروں مظاہرین نے رات گئے سابق وزیر اعظم کے گھر پر دھاوا بول دیا۔حالات اس قدر سنگین ہوئے کہ فوجی کارروائی کے ذریعے سابق وزیراعظم کو ریسکیو کیا گیا۔سکیورٹی عہدیدار نے بتایا کہ آرمی نے علی الصبح سابق وزیر اعظم اور ان کے اہلخانہ کو محفوظ طریقے سے نکال لیا ۔ سری لنکا کی کولمبواسٹاک ایکسچینج (سی ایس ای) منگل کے روز بند رہی کیونکہ بدامنی کے باعث ملک بھر میں کرفیو نافذ ہے۔

سری لنکا کو اس حالت تک پہنچانے کی ذمے دار حکومت کی غلط پالیسیاں ہیں۔اگر حکومت درست اور بروقت فیصلے کرتی اور قابل عمل معاشی حکمت عملی بناتی اور اپنی خارجہ پالیسی کو ریشنل ازم کے اصولوں کے مطابق کرتی تو شاید سری لنکا اس حال کو نہ پہنچتا۔اﷲ کا شکر ہے کہ پاکستان میں ایسے حالات نہیں ہیں، معاشی مشکلات ضرور ہیں لیکن ایسی نہیں ہیں کہ انھیں حل نہ کیا جاسکے،ضرورت صرف ذہانت،ایمانداری اور تندہی سے کام کرنے کی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں