تنقید برائے اصلاح
آنے والا الیکشن پچھلے 25 سال والا الیکشن نہیں ہوگا
قارئین گرامی! صرف دل ہی ایک لوتھڑا ہے جو بنا آرام کیے مسلسل دھڑکتا رہتا ہے اور یہ دل نسل در نسل ہمارے ملک میں ٹرانسفر بھی ہوتا رہتا ہے یا تو انسان چلے جاتے ہیں، کچھ لوگ بڑھاپے کی دہلیز پر آ کر رک جاتے ہیں مگر ان کے دل اپنی نسل کو گفٹ کر دیتے ہیں اور پھر وہ پرانے دل کو لے کر اپنے سیاسی ہل چلاتے رہتے ہیں جو زمین سونا پیدا کرتی ہے وہ ان دل والوں کا ہوتا ہے اور جو بیل اس میں جُتے ہوتے ہیں وہ عوام کی طرح بھوکے مرتے ہیں۔
ماضی قریب میں عمران خان حکومت کر رہے تھے اور ہر فرد قوم کا خیرخواہ مہنگائی کے خلاف اپنے ناتواں کندھوں پر مہنگائی کا بوجھ اٹھا کر جلسے جلوس کر رہا تھا اس میں انٹرنیٹ اپنی کارکردگی کے جلوے دکھا رہا تھا غیر معروف چینل عوام سے مہنگائی کے حوالے سے سقراط کی طرح سوالات کرتے نظر آتے اور لوگ بھی بھڑک بھڑک کر جواب دیتے اور پھر عمران خان اس مہنگائی کو چھوڑ کرکے تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں بنی گالا چلے گئے۔
مہنگائی کے خلاف سینہ کوٹنے والے بھی خوش ہوگئے اور پھر مہنگائی کے خلاف جہاد کرنے والوں نے باگ ڈور سنبھال لی، قوم نے سکون کا سانس لیا کہ خان صاحب بھی گئے اور مہنگائی بھی گئی لوگوں کے چہرے خوشی سے چمک رہے تھے، کچھ اس بات پر خوش تھے کہ چاہنے والے آگئے اور اب مہنگائی کا جنازہ دھوم سے نکلے گا مگر افسوس کہ مہنگائی کا سدباب نہیں ہو سکا ،روز اخبارات مہنگائی کے حوالے سے رپورٹیں شایع کرتے ہیں۔
اب اپوزیشن تو ہے نہیں اپوزیشن کی صورت میں عمران خان موجود ہیں، ماضی میں مہنگائی کے خلاف جلسے جلوس کیا لولی پاپ تھے اصل میں جنھوں نے مہنگائی کا سدباب کرنا ہے وہ اتنے صاحب حیثیت ہیں کہ ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اب اس حوالے سے عمران خان بے قصور نظر آتے ہیں۔ پٹرول کے حوالے سے یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پٹرول 245 روپے لیٹر تک ہو سکتا ہے ،یہ بات دوسری ہے جن کا یہ پلان ہے انھیں پٹرول فری ملتا ہے۔
پارٹی کوئی بھی برسر اقتدار ہو جب تک وزرا اور مشیر اپنی مراعات کی قربانی نہیں دیں گے وہ لوگوں کی پسندیدہ شخصیات نہیں بن سکتے ۔راقم نے 5 سال پہلے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ مرغی کے دام آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں -
اگر ہم یہ مان لیں کہ عمران خان ناتجربہ کار تھے وہ مہنگائی پر کنٹرول نہیں کرسکے اب جو کابینہ موجود ہے اس میں منجھی ہوئی پارٹیاں جو کئی مرتبہ ملک کی باگ ڈور سنبھال چکی ہیں جن میں پی پی پی اور (ن) لیگ شامل ہیں انھیں تو ملک چلانے کا وسیع تجربہ ہے یہ تو بڑی آسانی سے ان مسائل کو حل کر سکتی ہیں کمشنر حضرات اور پرائس کنٹرول والے اس پر توجہ دیں روز بیانات آتے ہیں کمشنر حضرات کے مہنگائی کے حوالے سے مگر من مانی کرنے والے مادر پدر آزاد ہیں۔
لہٰذا مہنگائی کو جہاد سمجھ کر اس کا خاتمہ کریں ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز جو جوان سال ہیں انھوں نے یہ بیان دے کر قوم کے دل جیت لیے ہیں کہ پنجاب میں صرف ون ڈش شادی کے موقع پر ہوگی، وزیر اعظم شہباز شریف پورے ملک کے لیے شادی کے کھانوں پر سختی سے پابندی عائد کریں صرف 300 افراد کی شادی میں لاکھوں روپے خرچ ہو رہے ہیں جو غریب اپنی بیٹیوں کی شادی کرتا ہے وہ بے چارہ عزت بچانے کے لیے لاکھوں کا قرض دار ہو رہا ہے جب پورے ملک میں شادی کے کھانوں پر پابندی ہوگی تو غریب تو یہ کہہ کر جان چھڑا لے گا کہ کیا کریں جی کھانوں پر پابندی عائد ہوگئی ہے۔
حمزہ شہباز نے یہ اعلان کرکے لوگوں کے دل جیت لیے ہیں پہلے کھانوں پر پابندی تھی غریب خوش تھا پرویز الٰہی صاحب نے یہ پابندی ختم کی تھی جب وہ وزیر اعلیٰ تھے غریب تو عزت بچا لے گا جو صاحب حیثیت ہیں وہ تو بڑے ہوٹلوں میں عقیقے کے نام پر دل کھول کر مہمان نوازی کرلیں گے غریب کو اس سے کیا لینا دینا وہ تو پابندی کے نام پر قرضے سے بچے گا اور عزت بھی رہ جائے گی جب کھانوں پر پابندی تھی اس زمانے میں بھی صاحب حیثیت لوگ دل کھول کر دعوت ولیمہ کیا کرتے تھے بڑی شان سے راقم خود ایسی کئی شادیوں میں شریک ہوا۔کچھ سال قبل سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے بھی ایک عندیہ دیا تھا کہ شادی کے کھانوں پر پابندی عائد کریں گے۔
راقم الحروف نے اس وقت ان کو بھی خراج تحسین پیش کیا تھا مگر افسوس کہ دل کی حسرت دل میں رہ گئی اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ خاصے سلجھے ہوئے انسان ہیں ،شاہ صاحب رب نے آپ کو عزت دی ہے آپ ہمت کریں اپنے پر تنقید کو پیروں تلے کچل دیں شادی کے کھانوں پر پابندی کا بل اسمبلی سے پاس کروائیں کہ آپ کو رب نے عزت دی ہے اور اگر آپ اس بل کو پاس کروا لیں تو تاریخ میں آپ کا نام سنہری الفاظ سے لکھا جائے گا۔ آپ پہلی فرصت میں اسمبلی سے بل پاس کروائیں عزت و توقیر رب کی طرف سے ملتی ہے۔
آپ اسے کیش کروائیں تاکہ غریبوں کے دلوں سے نکلی ہوئی ،دعائیں آپ کے کام آئیں اور وزیر اعظم شہباز شریف آپ بھی اس بل کو قومی اسمبلی سے پاس کروائیں، قوم آنے والے الیکشن میں بہت حساب کتاب کرنے کے بعد ووٹ کاسٹ کرے گی کہ اب سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور پاکستان کی بڑی پارٹیاں برسر اقتدار ہیں، قوم کے لیے سوچیں ہم ٹھہرے مفلس اور غریب جرنلسٹس غریب اس لیے لکھا ہے کہ ہم غریبوں میں رہ کر زندگی گزار رہے ہیں غربت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں آپ دوستوں کو اصلاح کی روشنی دی ہے اسے تنقید کے زمرے میں نہ لیا جائے۔
برسر اقتدار حضرات کو بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہوگا مانا کہ آپ کے سامنے اپوزیشن نہیں ہے اور اگر ہے تو صرف عمران خان کی صورت میں ہے کچھ کر دکھائیے تاکہ قوم تبدیلی محسوس کرے کہ واقعی تبدیلی تو آئی ہے وزیر اعظم نے چینی اور آٹے پر خاص توجہ دی ہے یہ اچھی روایت کا آغاز ہے جسے قوم نے بہت سراہا ہے اسی طرح صرف اور صرف مہنگائی پر توجہ دیں تاکہ قوم سوچنے پر مجبور ہو الیکشن کے زمانے میں کہ اسے کیا فیصلہ کرنا ہے جلسے جلوسوں کی تعداد کو چھوڑیے یہ مسائل کا حل نہیں ہے۔
کمشنر حضرات اشیائے خور و نوش کی فروخت کو سرکاری نرخ کے مطابق یقینی بنائیں دکانداروں کو پابند کریں کہ وہ نرخ آویزاں کریں تاکہ دودھ، مٹن، بیف، مرغی اور سبزی وغیرہ کے داموں پر مکمل کنٹرول کیا جائے بکرے کا گوشت 1500 اور 1600 روپے فروخت ہو رہا ہے یہ گوشت غریب کی دسترس سے تو کوسوں دور ہے پہلے ڈاکٹر دل کے مریضوں کو مشورہ دیتے کہ مرغی استعمال کریں اس مہنگائی کی وجہ سے مشورہ دینے والے ڈاکٹر حضرات اب خود دل کے مریض ہو گئے ہیں۔
حالیہ حکومت میں جے یو آئی، پی پی پی اور (ن) لیگ ایک پلیٹ فارم پر ہیں اور آنے والے الیکشن بہت سخت ہوں گے، مسائل کے حوالے سے قوم ووٹ سے قبل سوچے گی کہ اب کیا کرنا ہے، حکومت کے پاس ڈیڑھ سال سے جو حالات کو سدھارنے کے لیے خاصا وقت ہے لہٰذا حکومت سنجیدگی سے مسائل پر توجہ دے ،ویسے تو وزیر اعظم مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشاں تو ہیں مگر عملی طور پر کمر کس کر میدان میں آئیں تب ہی مسائل حل ہوں گے کیونکہ آنے والا الیکشن بہت سخت ہوگا ووٹ کے حوالے سے عملی کام کرنا ہوگا جبھی مقابلے کی دوڑ کسی نتیجے پر پہنچے گی۔
برسر اقتدار لوگ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں آنے والا الیکشن پچھلے 25 سال والا الیکشن نہیں ہوگا آپ حضرات کے سامنے اپوزیشن میں صرف پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی ہوں گے اور ان کے ووٹ بینک سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا سب کو مل کر مسائل کی طرف توجہ دینی ہوگی تاکہ قوم کو احساس ہو کہ اب کیا کرنا ہے مسائل کو حل کرکے قوم کو امتحان میں ڈال دیں اور قوم سوچے کہ ووٹ کسے دیا جائے کہ یہ قوم اب مسائل کے دھکے کھا کھا کر بے زار ہو گئی ہے۔