چولیں
عمران خان اپنی خراب کارکردگی کے باعث عوام میں اپنی مقبولیت کھو رہے تھے
HYDRABAD:
حضرت عمر بن عبدالعزیز بنو امیہ کے خلیفہ راشد گزرے ہیں، یہ عبدالعزیز کے بیٹے اور مروان کے پوتے تھے،ان کو عمر ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ ایک دن ان کے دربار میں ایک عقل مند درباری نے کہا ''جس مظلوم کو بادشاہ سے انصاف نہ ملے اسے خدا انصاف دلاتا ہے۔''
حقیقت یوں ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور حکومت میں ایک بار قحط سالی کا دور دورہ تھا اور لوگ بھوک سے مر رہے تھے۔ ایک خرد مند درباری نے نصیحت کی کہ قحط سالی کے دوران بادشاہ کو چاہیے کہ اپنے مال و دولت کے تمام دروازے عوام الناس پر کھول دے تاکہ عوام بھوکے نہ مریں۔
بادشاہ کی انگوٹھی میں ایک انمول ہیرا جڑا ہوا تھا۔ یہ نظروں کو خیرہ کر دینے والا ایسا چمک دار ہیرا تھا کہ رات کے وقت اس نایاب و قیمتی ہیرے سے نکلنے والی شعاعیں حیرہ کر دیا کرتی تھیں، جب ملک میں اچانک قحط پڑ گیا اور لوگ بھوک سے مرنے لگے تو حضرت عمر بن عبدالعزیز سے اپنی رعایا کی حالت زار دیکھی نہ گئی۔ ان کا دل بھر آیا اور آپ نے اپنی انگوٹھی کا قیمتی ہیرا فروخت کردیا اور اس کی ساری نقدی یتیموں اور مسکینوں میں تقسیم کردی۔ کیوں کہ کسی مجبور و بے بس کو زہر کھاتا ہوا دیکھ کر اچھے آدمی کے حلق سے شربت بھی نہیں اترتا۔
کچھ نادان دوست انھیں مشورہ دینے لگے کہ ایسا انمول، نادر اور گراں بہا ہیرا آپ کو پھر نہیں ملے گا، حضرت عمر بن عبدالعزیز زار و قطار رونے لگے۔ ان کے رخسار آنسوؤں سے بھیگ گئے۔ کچھ دیر بعد کہنے لگے کہ'' اگر بادشاہ شہریوں کے دل زخمی کرکے کوئی پوشاک حاصل کرتا ہے تو اس لباس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے، جو ذاتی آرام پر دوسروں کے آرام کو ترجیح دیتا ہے وہی مبارک باد کا مستحق ہے۔ مخلوق خدا کے دل غمگین ہونے کے بجائے مجھے بے نگینہ انگوٹھی بہتر ہے ۔
اگر بادشاہ مخلوق کی نگرانی میں شب بیداری کرے تو رعایا آرام و سکون سے سو سکتی ہے۔ جب بادشاہوں کی دولت فانی اور فقیروں کی لافانی ہے تو آخرت میں فقیری کی دولت ہی کام آئے گی اگر کوئی دانا سمجھنا چاہے تو۔
حضرت شیخ سعدیؒ کی مذکورہ حکایت کی روشنی میں حاکم وقت پر اپنی رعایا کی خبر گیری، داد رسی اور انھیں ضروریات زندگی کی فراہمی کے حوالے سے بڑی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ حضرت عمرؓ کا مشہور قول ہے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی مرے گا تو مجھے بحیثیت حاکم اس کا جواب دینا پڑے گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ارباب اختیار اور اہل اقتدار کو اس زمینی حقیقت کا علم ہے؟ کیا انھیں اپنے غریب و پسماندہ طبقے کی مشکلات و مسائل کا کماحقہ ادراک ہے؟ کیا ایوان صدر سے ایوان وزیر اعظم تک، اسمبلی سے سینیٹ تک، ایوان عدل سے ایوان تجارت تک میں تشریف فرما صاحبان بصیرت نے گزشتہ سات دہائیوں کے دوران ملک کو درپیش سنگین چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کوئی قابل عمل منصوبہ بندی کی؟
کیا جزوقتی اور کل وقتی کسی بھی حوالے سے ہر دو ضمن میں ایسی پالیسیاں بنا لی گئیں کہ جن کے عملی نفاذ سے اس ملک کے غریب اور عام آدمی کے مسائل کے حل کی راہیں نکلی ہوں اور ان منصوبوں اور پالیسیوں کو آنے والے حکمرانوں نے اس یقین کے ساتھ جاری و ساری رکھا ہو کہ یہ بہر صورت ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں ہمہ جہت اور سود مند منصوبے اور پالیسیاں ہیں۔ افسوس کہ ایسے سارے سوالوں کا جواب نفی میں ہے، کیوں؟ اس لیے کہ ہماری قوم ایک ایسے ماضی کی وارث ہے جس نے وراثت میں اپنی اگلی نسلوں کو صرف رومانوی نعرے اور پرجوش تقریریں دی ہیں، جو اپنے حکمرانوں اور عاقبت نااندیش سیاست دانوں کے غیر سنجیدہ، غیر پختہ اور جزوقتی اقدامات، بودے فیصلوں اور ناقص منصوبہ بندی اور غیر سطحی پالیسیوں کے نتیجے میں بربادیوں سے دوچار ہوتی رہی ہو، جو جذباتی خوش فہمیوں کی غذا کھاتے کھاتے حقیقت پسندی کا مزاج ہی کھو بیٹھی ہو اور جس نے ابتدائی مرحلے میں حصول استحکام سے پہلے منفی سیاست بازی میں مشغول ہو کر اپنے مواقعوں کو ضایع کیا ہو۔
جو آپس کی چپقلش، ریشہ دوانیوں اور منتقمانہ طرز عمل کی وجہ سے عوامی خدمت، مثبت سیاست، جمہوری اقدار کی پاسداری، اداروں کے استحکام، پارلیمنٹ کی بالادستی، آئین کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی سمیت قومی زندگی کے جملہ شعبوں میں دیگر قوموں سے پیچھے رہ گئی ہو، جو مطالباتی مہموں اور احتجاجی سیاسی کرتبوں میں یہ بھول گئی ہو کہ مانگنے سے پہلے منوانے کی طاقت پیدا کرنا ضروری ہے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ایسی قوم کی اگلی نسلیں اپنی کامیابی کا سفر شروع نہیں کرسکتیں۔ ان کو لامحالہ وہاں سے آغاز کرنا پڑے گا جہاں سے ان کے اجداد نے راستہ چھوڑا تھا۔ عملی نتیجہ صرف کاموں ہی سے پیدا کیا جاسکتا ہے۔ الفاظ سے عمل کی فصل نہیں کاٹی جاسکتی۔ قدرت کو ایک درخت لگانا ہوتا ہے تو وہ بیج سے اپنا عمل شروع کرتی ہے۔ یہ قدرت کی طرف سے انسان کے لیے خاموش پیغام ہے۔ ''بیج'' سے چل کر کوئی بھی شخص ''درخت'' تک پہنچ سکتا ہے، مگر کوئی درخت سے چل کر درخت تک پہنچنا چاہے تو اسے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ایسا ناقابل یقین واقعہ اس روئے زمین پر کبھی نہیں ہو سکتا۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس ملک پر ایسے لوگ حکمران رہے اور ہیں کہ انھوں نے عوامی خدمت سے زیادہ ذاتی، سیاسی، جماعتی اور خاندانی مفادات کی سیاست کی ہے۔ گزشتہ تیس برسوں سے ملک پر دو خاندانوں کی حکمرانی ہے۔ عمران خان کی شکل میں تیسری قوت کا انتخاب کیا گیا لیکن دونوں سیاسی متحارب خاندانوں نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران حکومت کو رخصت کر دیا اور لیگی رہنما میاں شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ سنبھال لی۔
عمران خان اپنی خراب کارکردگی کے باعث عوام میں اپنی مقبولیت کھو رہے تھے، لیکن انھیں جس طریقے سے رخصت کیا گیا اور پھر عوام میں جو بیانیہ بنایا گیا اس نے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس پہ مستزاد شدید معاشی و مالی بحران نے معیشت کی ''چولیں'' ڈھیلی کردی ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کابینہ سمیت اپنے بڑے بھائی نواز شریف سے مشورے کے لیے لندن جانے پر مجبور ہوگئے۔ اب وہ عوام کو سستا آٹا دینے کے نعرے لگائیں یا ''لندن ڈکٹیشن'' پر عمل کریں معاشی حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق فوری الیکشن ہی واحد حل ہے۔